پہلا منظر ... ہاتھ میں چائے کا کپ‘ چہرے پر اطمینان۔
یہ ہیں بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ونگ کمانڈر ابھینندن۔ پاک فوج کی حراست میں‘ ونگ کمانڈر ابھینندن کی چائے پیتے ہوئے گفتگو ریکارڈ کرکے میڈیا کو دی گئی‘ جو اُس نے نشر بھی کردی۔ یہ ویڈیو بھارت کے منہ پر زنّاٹے دار تھپّڑ ہے۔ عالمی برادری کی آنکھیں اگر کام کر رہی ہیں تو اب بھی اچھی طرح دیکھ لے کہ بھارت کیا حرکتیں کر رہا ہے اور پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ کیا اب بھی پاکستان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ امن کا خواہاں ہے اور تمام معاملات پر بھارت سے دو ٹوک مذاکرات کے لیے تیار ہے!
بہر کیف‘ پاکستان کی حراست میں بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر کے چہرے پر اتنا سکون و اطمینان! دنیا کو اس بات پر حیرت ہونی چاہیے۔
دوسرا منظر ... دو لاشیں‘ کوئلہ بنی ہوئی۔
یہ لاشیں بھارتی پائلٹس کی ہیں جو لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے مرتکب ہوئے اور اپنے کِیے کی سزا پاگئے۔ یہ دونوں سوختہ لاشیں اُن تمام افراد کے منہ بند کرنے کیلئے انتہائی کافی ہیں‘ جو اب تک جنگ کی باتیں کرکے پاکستان کو دھمکاتے آئے ہیں۔ ان لاشوں کو دیکھ کر خطے کے ہر فرد کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ دو جوہری قوتوں کے درمیان جنگ کا نتیجہ کس قدر بھیانک ہوسکتا ہے!
منگل کی شب جو کچھ ہوا وہ پوری قوم کے لیے انتہائی پریشان کن تھا اور پریشان کن کہنے پر کیوں اکتفا کیا جائے؟ بھارتی طیاروں کا پاکستانی فضائی حدود میں در آنا اور بم گِراکر جانا اچھا خاصا demoralizing تھا۔ قوم پریشان کم اور افسردہ زیادہ تھی۔ افسردگی اس بات کی تھی کہ ہماری فضائیہ نے کچھ نہ کیا۔ بھارتی طیاروں کو فالو تو کیا گیا ‘مگر پھر جانے دیا گیا۔ اُنہیں مار گِرایا جاسکتا تھا۔
پاک فوج پر پہلے ہی غیر معمولی دباؤ تھا‘ بالا کوٹ حملے کے بعد دباؤ بڑھ گیا۔ بڑھنا ہی تھا۔ بھارت میں انتخابات کا موسم شروع ہو رہا ہے۔ مودی سرکار کو ایک بار پھر مینڈیٹ پانے کے لیے جنگی ماحول کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ کم و بیش ہر بار ہی ایسا ہوتا ہے۔ اب کے معاملہ تھوڑا سا مختلف ہے۔ مودی سرکار نے جن دعووں کے نتیجے میں مینڈیٹ پایا تھا اُن کے مطابق ‘کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اب دوبارہ عوام کے سامنے جانا ہے۔ عوام بہت کچھ پوچھ رہے ہیں۔ اُن کے منہ بند کرنے کی بہتر صورت یہ ہے کہ تمام معاملات کا رخ موڑ دیا جائے۔ سرحدوں پر کشیدگی بڑھاکر جنگ کا ماحول پیدا کرنا مودی سرکار کی مجبوری ہے۔ ایسا کرکے ہی عوام کی توجہ کسی اور طرف موڑی جاسکتی ہے۔
جو کچھ بھارتی فضائیہ نے بالا کوٹ میں کیا ‘وہ اس بات کا مظہر تھا کہ بھارت کسی نہ کسی طور چند ایک جھڑپیں چاہتا ہے۔ اِن جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتوں کو بنیاد بناکر ووٹ مانگنا آسان ہوسکتا ہے۔ اور کچھ یوں بھی ہے کہ لوگ احتساب اور دیگر مطالبے بھول جاتے ہیں۔
بالا کوٹ میں بھارتی فضائیہ کی شرارت پر خود بھارت میں بھی غیر معمولی اشتعال پایا جاتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ حملے میں ڈھائی تین سو ''آتنک وادی‘‘ مارے گئے ہیں۔ اس دعوے کو بالکل درست ثابت کرنے کے لیے بھارتی میڈیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے آتنک مچادیا۔ اِتنا غبار اڑایا گیا کہ چند لمحوں کے لیے تو کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔
بدھ کو پاک فضائیہ نے جو کچھ کیا ‘اُس سے بھارتی میڈیا کا پیدا کردہ غبار سمندر کے جھاگ کے مانند بیٹھ گیا۔ بھارتی میڈیا کی طرف سے ڈھائی تین سو نام نہاد دہشت گردوں کی ہلاکت کے دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ بالا کوٹ میں جبہ کے مقام پر درختوں کے جھنڈ میں ایک کوّا مارا گیا ہے!
کوّا یہاں مارا گیا اور کائیں کائیں سرحد کے اُس پار سے سُنائی دے رہی ہے۔ پلوامہ حملے میں مارے جانے والے ایک ہریانوی فوجی کی والدہ ٹی وی چینل پر دُہائی دیتی دکھائی دیں ''جس طرح اپنے فوجیوں کی لاشیں دکھائیں ‘بالکل اُسی طرح اب اُن آتنک وادیوں کی لاشیں بھی تو دکھاؤ جو بالا کوٹ میں مارے گئے ہیں!‘‘ یہ سُن کر بھارتی فضائیہ کے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگ گئی۔ لگنی ہی تھی۔ ہمیں افسوس ہے کہ پلوامہ میں مارے جانے والے بھارتی فوجی کی والدہ اپنے بیٹے کے نام نہاد ''ہتیاروں‘‘ میں سے کسی کی لاش نہیں دیکھ سکیں گی۔ ایسی کوئی چیز ہو تو دکھائی بھی دے۔ مقامِ شکر ہے کہ بھارتی فضائیہ میں اتنی غیرت تو ہے کہ جوان بیٹے کی موت کے غم سے دوچار ماں کے زخموں پر نمک نہ چھڑکا جائے‘ وگرنہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ جبہ (بالا کوٹ) میں مارے جانے والے کوّے کی لاش دکھاکر مطمئن ہو رہتی کہ اپنے حصے کا کام کر دکھایا!
ونگ کمانڈر ابھینندن کو حراست میں لیے جانے کے بعد بھارت کا ردعمل بہت عجیب رہا ہے۔ باضابطہ استدعا کی گئی ہے کہ پائلٹ کو واپس بھیجا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اِس بات پر شدید دکھ کا اظہار کیا گیا ہے کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کو زخمی حالت میں بھی دکھایا گیا اور بعد میں گفتگو کی ویڈیو بھی پیش کی گئی۔ بھارتی قیادت کو اس بات کا غم ہے کہ یہ عمل پوری بھارتی قوم کا مورال زمین پر لانے کے مترادف تھا۔
کہاں تو نریندر مودی پاکستان کو سبق سکھانے کے دعوے کر رہے تھے اور کہاں یہ بے بسی کہ ایک ہی جھٹکے میں جنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن اور تمام تسلیم شدہ انسانی اقدار یاد آگئیں! اس ایک جھٹکے نے پوری بھارتی قوم کو چھٹی کے دودھ اور نانی سمیت خدا جانے کیا کیا یاد دلا دیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ زور کا یہ جھٹکا ذرا دھیرے سے لگے!
ابھی ایک دن بھی نہیں گزرا اور پڑوسی مہاراج اپنا پائلٹ واپس مانگ رہے ہیں۔ خود ہی سوچیں جب ہاتھ ہی جوڑنے تھے تو پھر اتنا اونچا اُڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ اونچا اُڑنے پر پابندی نہیں مگر طاقتِ پرواز بھی ہو تو: ؎
شاعری کرتے مگر دیکھ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں‘ زخمِ جگر ہے کہ نہیں
نریندر مودی کو اقتدار میں رہنا ہے۔ اس کے لیے پاکستان سے تھوڑی بہت اَڑی لگاکر قوم کی آنکھوں میں دُھول جھونکنا بھی لازم ہے۔ ہاں‘ بس یہ ہے کہ اب کے داؤ تھوڑا الٹا پڑگیا ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ بھارتی قیادت اور میڈیا دونوں ہوش کے ناخن لیں۔ بھارتی قیادت بے ڈھنگے دعووں کے ذریعے اپنا کیس مزید خراب کر رہی ہے۔ تسلیم کرلیا جائے کہ بھارتی طیاروں نے کنٹرول لائن عبور کی اور مار گرائے گئے۔ بات یہ بھی سُبکی والی ہی ہے‘ مگر یہ سوچ کر کسی حد تک سکون کا سانس لیا جاسکتا ہے کہ گرائے گئے طیارے بھارت کی حدود میں نشانہ نہیں بنے۔
اگر نئی دہلی نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی طیارے بھارتی حدود میں آئے اور پائلٹ کو لے اُڑے تو عالمی برادری میں زیادہ بَھد اُڑے گی۔ بھارتی فضائیہ کے سابق سربراہ اروپ راہا نے ایک ٹوئٹ میں حماقت کی انتہا کردی۔ اُنہوں نے لکھا کہ ''بھارت تو جنیوا کنونشن پر عمل کرتا ہے‘ پاکستان نہیں کرتا۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ بھارتی پائلٹ سے اچھا سلوک روا رکھا جائے گا۔ ویسے بھی پاکستان جانتا ہے کہ اگر اُس نے پائلٹ سے بدسلوکی روا رکھی تو زیادہ زور دار جواب (!) کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
بزرگ کہتے ہیں کہ جب کہنے کے لیے کچھ نہ ہو تو انسان کو خاموش رہنے پر اکتفا کرنا چاہیے۔ نریندر مودی‘ اُن کی ٹیم اور بھارتی میڈیا کے لیے اس وقت بہترین آپشن خاموش رہنے کا ہے۔ ایسی کارروائیوں سے متعلق دعوے کس کام کے جن کے نتیجے میں بے قصور و بے زبان کوّے مارے جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کو سرحد پار بہت سے کائیں کائیں کرتے کوّوں کو ذرا اچھے سے خاموش کرنے پر مجبور ہونا پڑے!