اعمال کی نوعیت کی بنیاد پر جزا یا سزا مل کر رہتی ہے۔ فرد سے قوم تک یہی معاملہ ہے۔ قدرت کے اصول تبدیل نہیں ہوتے۔ قدرت کا لفظ اُن کیلئے موزوں ہے‘ جو کسی ''انٹیلی جنٹ ڈیزائنر‘‘ پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے حق میں یہی بہتر ہے کہ ہم ہر اچھے اور بُرے نتیجے کو پوری کائنات کے خالق اور رب کی طرف سے سمجھیں اور صابر و شاکر رہیں۔
ویسے تو خیر دنیا کا ہر ملک ہی منفرد ہے‘ مگر پاکستان کا معاملہ تھوڑا سا مختلف اس لیے ہے کہ یہ تھا نہیں‘ رب نے تخلیق کیا۔ مرضی رب العالمین کی تھی اور اُسی کے کرم سے توفیق ہمارے اجداد کو نصیب ہوئی کہ اسلام کے نام پر ایک ریاست کے قیام کی خاطر عملی سطح پر کچھ کریں۔ روزِ اول سے پاکستان منفرد رہا ہے۔ ابتدائی ایام ایسے تھے کہ آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر دل سہم جاتے تھے‘ دماغ الجھن سے دوچار ہوجاتے تھے۔ اِدھر اکیلی جان تھی اور اُدھر دشمن ہزار تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت غیر منقسم ہندوستان کی تقریباً پوری ہندو قیادت کو یقین تھا کہ پاکستان چند برس سے زیادہ نہ چل سکے گا۔
کائنات کے خالق و مالک کا اصول ہے کہ ایک در بند ہوتا ہے تو کئی دوسرے در کھول دیئے جاتے ہیں۔ جو حالات سے نہ گھبرائے اور محنت کے حوالے سے اپنے حصے کا کردار ادا کرتا رہے اُسے صلہ مل کر ہی رہتا ہے۔ پاکستان کا بھی یہی معاملہ رہا۔ 1950ء اور 1960ء کے عشروں میں ہمارے اجداد نے غیر معمولی محنت کی۔ پاکستان کو چلاکر دکھانا بہت بڑا چیلنج تھا ‘جو قبول کیا گیا۔ ہمارے اجداد نے ثابت کیا کہ بے سر و سامانی کے عالم میں قائم ہونے والی ریاست بھی چل سکتی ہے‘ چلائی جاسکتی ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ حوصلہ نہ ہارا جائے اور اپنے حصے کا کام پوری دیانت سے کیا جائے۔
قومی تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائی دو ڈھائی عشروں کے دوران اہلِ پاکستان کا غیر معمولی جذبہ دیکھ کر بدخواہ سہم گئے اور سازشیں شروع کردیں۔ پاکستانیوں میں صلاحیت بھی تھی اور سکت بھی اور یہ دونوں نعمتیں مادّی وسائل کی محتاج یا مرہونِ منت نہیں تھیں۔ بس‘ یہی بات پاکستان کا بُرا چاہنے والوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی۔ کرنا تو انہیں اور بھی بہت کچھ تھا ‘مگر اہم ترین ٹاسک یہ تھا کہ کسی نہ کسی طور ملک کو دولخت کردیا جائے۔ جب تک یہ کام ہو نہیں گیا‘ دشمن چین سے نہیں بیٹھے۔ خیر‘ اس حوالے سے اپنوں کی مہربانیاں بھی کم نہ تھیں‘ جو دشمنوں کا کام آسان کرتی چلی گئیں!
قصہ مختصر‘ ابتداء ہی سے پاکستان پر حالات کی مہربانی رہی۔ تیر کسی ایک سمت سے نہیں چلائے گئے۔ کئی بار سخت نامساعد حالات میں بھی معاشرت‘ معیشت اور دوسرے بہت سے محاذوں پر چومکھی لڑائی کے لیے تیار ہونا پڑا۔ یہ چومکھی لڑائیاں ہی تھیں‘ جنہوں نے اس قوم کو ذہانت کے ساتھ ساتھ ''جگاڑ‘‘ کی راہ پر بھی ڈالا۔ جب کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تو راستہ بنانا پڑتا ہے۔ ہمیں بھی یہی کرنا پڑا اور بار بار کرنا پڑا۔ اس روش پر گامزن رہنے کا یہ مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہر معاملے میں دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی راہ خود نکالنے کی عادت راسخ ہوچکی ہے۔ دیگر بہت سے شعبوں کی طرح دفاع کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ وقت نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہم نے غیر متعلقہ لڑائی میں حصہ لیا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ عسکری سطح پر بیشتر غیر معمولی معاملات مجبوری کے سَودے تھے۔ بہت سی لڑائیاں ہم پر تھوپی گئیں اور پھر حالات نے معاملات کو اتنا الجھایا کہ ہمارے پاس ''جگاڑ پسند‘‘ ذہنیت کو اپنانے کے سوا چارہ نہ رہا۔
پاکستان کے پچھلے چار عشرے مختلف سطحوں پر اکھاڑ پچھاڑ سے عبارت رہے ہیں۔ پالیسی میکنگ کی سطح پر بہت سے الجھنوں سے پیچھا چھڑانے کی ہر کوشش بہت حد تک اس لیے ناکام رہی ہے کہ مسائل اور چیلنجز کی آگ پر تیل چھڑکنے والے بھی کبھی فارغ نہیں بیٹھے۔ 1980ء کا عشرہ افغانستان پر سوویت لشکر کشی کے نتائج بھگتنے میں گزرا۔ 1990ء کے عشرے میں چند ہی برس آرام کے تھے‘ پھر یہ ہوا کہ بھارت نے محاذ کھڑا کرنے کو ترجیحات میں سرفہرست رکھنا شروع کردیا اور پھر رہی سہی کسر 2001ء میں نائن الیون نے پوری کردی‘ جس کی کوکھ سے جنم لینے والی ''وار آن ٹیرر‘‘ یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کے لیے تباہی کا سامان کیا۔ پالیسی کے حوالے سے چند ایک غلطیاں تو سبھی کرتے ہیں۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اسے محلِ وقوع کا فائدہ اٹھانے سے روکنے کیلئے بیک وقت کئی اطراف سے تیر چلانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک ریاست کو آگے بڑھنے کیلئے سُکون کا سانس لینے کا جو موقع درکار ہوتا ہے‘ اُس سے پاکستان کو محروم رکھنے کیلئے دشمن ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔
ریاست کی حیثیت سے پاکستان کے لیے سلامتی اور سالمیت دونوں کو یقینی بنانے کا بے مثال چیلنج ہمیشہ درپیش رہا ہے۔ نظریاتی بنیاد پر قائم ہونے کی بنیاد پر اور دشمنوں میں گِھرا ہوا ہونے کے باعث اسرائیل کے لیے بھی سلامتی و سالمیت برقرار رکھنا بنیادی چیلنج ہے ‘مگر اُسے بہرحال امریکا و یورپ کی بھرپور حمایت‘ بلکہ سرپرستی بھی تو حاصل رہی ہے۔ پاکستان کا کیس بہت مختلف ہے۔ اسے تو گھوم پھر کر اپنے ہی زورِ بازو پر بھروسہ کرنا ہے۔ یہ حالات ہی کی مہربانی ہے کہ آج عام پاکستانی صلاحیت اور جذبے کے اعتبار سے غیر معمولی سطح پر ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ صلاحیت کو پروان چڑھاکر بروئے کار لانے کے حوالے سے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ آج پاکستانی قوم ایک بار پھر عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ کئی عشروں کی خواری جھیلنے کے بعد اُسے استحکام درکار ہے مگر پڑوسی ہیں کہ اس منزل کی طرف جانے والے راستے بند کیے دے رہے ہیں۔ پاکستان کو دو لخت کرنے سے بھی بھارتی قیادت کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ چار عشروں سے پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے ہی کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے اور دوسری طرف افغانستان ہے‘ جو پاکستان کو سُکون کا سانس لینے کا موقع نہ دینے میں بھارت کا بھرپور ساتھ دیتا رہا ہے۔
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بڑی طاقتوں نے نئے کھیل شروع کیے ہیں۔ امریکا اور یورپ کی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چین نے بھی نئے راستوں پر چلنا شروع کیا ہے۔ مدتِ دراز سے نیم غنودگی کی کیفیت سے دوچار روس بھی اب خاصا ہشّاش بشّاش ہوکر میدان میں آگیا ہے۔ اُسے بھی بڑی طاقت کی حیثیت سے کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنی ہے۔ معاملات کی نزاکت کو سجھنے سے یکسر انکار کرتے ہوئے حالات کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ بنانے کی ڈگر پر صرف بھارت گامزن ہے۔ گھیرے جانے کے خوف نے بھارت کو گھیر لیا ہے۔ جن خرابیوں کا منطقی طور پر وجود لازم نہ تھا وہ بھی بھارت نے اپنی غلطی ریاستی سوچ کے ہاتھوں پیدا کرلی ہیں۔ کسی ٹھوس جواز کے بغیر پاکستان سے متصادم ہونے کی بھارتی پالیسی اِنہی خرابیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔
نئی دہلی اور کابل کے بزرجمہروں کو سمجھنا ہوگا کہ حالات بگاڑے جاتے رہیں گے ‘تو پاکستان مشکلات سے ضرور دوچار ہوگا ‘مگر ساتھ ہی ساتھ وہ سلامتی و سالمیت یقینی بنائے رکھنے کے حوالے سے بہت کچھ نیا بھی سیکھنا جائے گا۔ کسی کے لیے تمام راستے بند کردیئے جائیں تو اُسے نیا راستہ بنانا یا نکالنا پڑتا ہے۔ اس ہنر میں پاکستان کی مہارت بڑھتی جارہی ہے۔ ؎
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے