کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی سلسلۂ واقعات چل پڑتا ہے‘ تو بس چل پڑتا ہے۔ کچھ لوگ شِکوہ کرتے پائے گئے ہیں کہ ایک مصیبت جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے‘ یعنی ایسا لگتا ہے جیسے مشکلات نے گھر کا پتا ڈھونڈ نکالا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک اچھا واقعہ ہوچکتا ہے ‘تو دوسرا رونما ہوتا ہے۔ اور پھر تیسرا‘ چوتھا ... ‘یعنی سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔
ایک دور تھا کہ پاکستان کے لیے سب کچھ منفی ہی منفی تھا‘ جس طرف بھی قدم بڑھایا جاتا تھا‘ پریشانیاں تعاقب کرنے لگتی تھیں۔ مسائل تھے کہ حل ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔ کیفیت یہ تھی کہ سونے کو ہاتھ لگائیے تو مٹی بن جائے۔ سازشوں نے رکنے‘ تھمنے سے انکار کردیا تھا۔ جتنے بھی دشمن تھے ایک ہوگئے تھے‘ ایک پیج پر آگئے تھے۔ موقع ملتے ہی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے میں تساہل برتا جاتا تھا‘ نہ تاخیر۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا جیسے ظلم کی سیاہ رات کبھی ختم نہیں ہوگی‘ مسائل ہماری گردنوں پر سوار ہی رہیں گے‘ مشکلات ہمارے تعاقب میں رہنا ترک نہیں کریں گی‘ مگر صاحب‘ حبیب جالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
شب کی تقدیر میں لکھا ہے گزر ہی جانا
راہ سورج کی کہاں روک سکے اہلِ ستم
صد شکر کہ صبح کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ مشکلات تو اب بھی ہیں ‘مگر ایسی نہیں کہ سانس لینا محال ہو جائے۔ ایک زمانے تک دکھ سہنے والوں کو اب سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان کا بُرا چاہنے والوں نے وقت اور حالات کے بہت مزے لوٹے۔ اب کچھ چُکانے کا وقت آیا ہے۔ حالات ہی کی مہربانی سے پاکستان کے لیے چند ایک روشن تر امکانات کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ بڑی طاقتوں کو اچانک ضرورت پیش آگئی ہے۔ جب ہماری زیادہ ضرورت نہیں رہ گئی تھی تب مسائل پیدا کیے جارہے تھے۔ اب ہم ضروری ہوئے ہیں تو بہتری کے آثار ہیں۔ خیر‘ نظر باٹم لائن پر رہنی چاہیے۔
بھارت کی شامتِ اعمال کہ اُس نے بالا کوٹ میں فضائی مہم جوئی کی اور پیٹ بھر ذِلّت کا سفر شروع ہوا۔ یہ ذِلّت قدرت کی طرف سے لکھ دی گئی تھی۔ جب قدرت کی طرف سے کچھ لکھ دیا جائے تو کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں دو بھارتی طیارے تباہ ہوئے اور ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد سے بھارتی قیادت کا سَر ایسا جھکا ہے کہ اٹھنے کا نام نہیں لے ریا۔ اللہ ہی جانے کہ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اور ''ایگزیکیوشنرز‘‘ کیا کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کسی درندے کو زخمی کردیا جائے اور وہ پلٹ کر جواب نہ دے۔ ہاں‘ صورتِ حال ہی ایسی ہو کہ درندے کے لیے فوری طور پر کچھ کرنا ممکن نہ ہو تو اور بات ہے۔ بھارت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ خوف یا خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگر پائلٹ کی گرفتاری سے ہونے والی تذلیل کا بدلہ لینے کے لیے کچھ کیا جائے اور داؤ الٹا پڑ جائے تو رہی سہی ساکھ میں دُھول چاٹتی ہو جائے گی۔
جب کسی کے راستے کسی جواز کے بغیر بند کیے جاتے ہیں تو قدرت متحرک ہوتی ہے اور اُس کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جب سے دہشت گردی کو بنیاد بناکر سکیورٹی رسک کا بہانہ گھڑا گیا ہے اور پاکستان کو کرکٹ کی دنیا سے الگ کرنے کی سازش رچی گئی ہے‘ تب سے اللہ نے ہماری ٹیم کے لیے توقیر کا خوب سامان کیا ہے۔ کوئی بھی بڑی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ یو اے ای کو پاکستانی ٹیم کے لیے گھر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود پاکستان کو دبوچنے میں اُس کے دشمن ناکام رہے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی میں فتح کے علاوہ ٹیسٹ کے حوالے رینکنگ میں ٹاپ پر آنا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ بھارت نے سوچا تھا کہ کرکٹ کے معاملے میں پاکستان کو نیچا دکھاکر مورال اتنا گرادیا جائے گا کہ پھر یہ ٹیم سر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے گی‘ مگر دشمنوں کی چال پر اللہ کی تدبیر فیصلہ کن ضرب ثابت ہوئی۔
دو طیاروں کے مار گرائے جانے اور پائلٹ کی گرفتاری سے بھارت کے لیے ذِلّت کا جو سفر شروع ہوا تھا‘ وہ بخوبی جاری ہے۔ اب کے مدد ایک ایسی سمت سے آئی ہے‘ جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ پاکستان کو اپنے طور پر کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اللہ نے اپنی رحمت سے یہ کام آسٹریلیا کے ہاتھوں کروایا ہے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بھارت کے میدانوں میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی عبرت ناک شکست میں کلیدی کردار ایک ایسا پاکستانی ادا کرے گا جو پاکستان کا بھیجا ہوا بھی نہ ہوگا۔ آسٹریلیا کے پاکستانی نژاد اسٹار بلّے باز عثمان خواجہ نے کچھ ایسا کر دکھایا ہے کہ بھارتی قیادت کا سَر مزید جھک گیا ہے۔
پانچ ایک روزہ میچوں کی ہوم سیریز کے پہلے دو میچ بھارتی ٹیم جیت چکی تھی۔ آثار یہ تھے کہ آسٹریلیا کو عبرت ناک شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تیسرے میچ کے لیے بھارت نے آئی سی سی سے اجازت لی کہ اُس کے کرکٹرز (پلوامہ حملے کے تناظر میں) فوج سے اظہارِ یکجہتی کے لیے فوجی کیپ لگاکر میدان میں اتریں گے۔ ایسا ہی ہوا مگر اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ عثمان خواجہ نے سینچری (104) جڑ دی۔ میچ میں بھارت کو شکست ہوئی۔ 8 مارچ کو واقع ہونے والی یہ ذِلّت رانچی (جھاڑ کھنڈ) میں لکھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد 10 مارچ کو چوتھے ایک روزہ میں عثمان خواجہ نے 91 رنز سکور کیے اور بھارت کی شکست میں پھر کلیدی کردار ادا کیا۔ اس بار میدان موہالی (چنڈی گڑھ) میں تھا۔ اب سیریز برابر ہوگئی۔ 13 مارچ کو سیریز کا فیصلہ کن میچ نئی دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں ہوا جس میں عثمان خواجہ نے بھارتی ٹیم پر پھر سینچری (100) کا تازیانہ برسادیا۔ آسٹریلیا نے میچ بھی جیتا اور سیریز بھی۔ تیسرے اور پانچویں ایک روزہ میچ میں پلیئر آف دی میچ کا اعزاز عثمان خواجہ کے حصے میں آیا۔
کہتے ہیں جب آنی ہوتی ہے تو کہیں سے بھی آ جاتی ہے۔ جس کرکٹ کو بنیاد بناکر پاکستان کی تذلیل کے منصوبے بنائے جاتے تھے اُسی کرکٹ نے بھارت کی ناک زمین میں رگڑ دی۔ عثمان خواجہ نے دوسرے راستے سے قدم بڑھاکر قوم کی ایسی بروقت خدمت انجام دی کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے بھارت کی ہر شکست پر اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے عثمان خواجہ کو یوں مبارک دی کہ کئی کلیجوں میں خنجر اتر گئے اور وہ اُف بھی نہ کرسکے۔ اسے کہتے ہیں ایک در کے بند کیے جانے پر کئی دروں کا کھل جانا۔ عثمان خواجہ ایک مدت سے آسٹریلین ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ قدرت نے تو جیسے اُنہیں اِنہی دنوں کے لیے بچاکر رکھا تھا‘ ساری کامیابی طے کر رکھی تھی‘ جس دن بھارتی کرکٹ ٹیم نے فوجی کیپ لگائی بس اُسی دن سے شکست و ذِلّت کا سفر شروع ہوا اور شروع بھی کس کے ہاتھوں ہوا ... ایک پاکستانی نژاد آسٹریلین بلّے باز کے ہاتھوں!
بُری طینت رکھنے والے کسی جواز کے بغیر کسی کا کتنا ہی بُرا چاہیں‘ حتمی تجزیے میں اُس کا بُرا ہو نہیں سکتا۔ اگر کوئی مجبور ہو اور اپنے بل کر پر کچھ زیادہ نہ کرسکتا ہو تو اُس کے حصے کا کام قدرت کرتی ہے۔ چالیں چلنے والے اپنی چالیں چلتے رہ جاتے ہیں۔ جب اللہ کی تدبیر سامنے آتی ہے‘ تو کسی کا کوئی داؤ نہیں چلتا۔ واللہ خیر الماکرین۔