زندگی تو سب کو ملی ہے‘ مگر جینے کے ڈھنگ اپنے اپنے ہیں۔ انفرادی معاملہ ہو یا اجتماعی‘ ہر سطح پر زندگی بسر کرنے کا اپنا ہی انداز ہوا کرتا ہے اور اسی بنیاد پر شناخت بھی قائم ہوتی ہے۔ ہم اپنے ماحول کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کچھ لوگ ہر وقت روتے رہتے ہیں۔ اُنہیں شِکوے کرنے ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ یہی اُن کی سب سے بڑی نفسی خوراک ہے۔ اُنہیں مظلوم دکھائی دینا اچھا لگتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں ‘جو حالات کے ستم سہتے ہوئے بھرپور عزم اور صبر کے ساتھ معاملات کی درستی کا راستہ تلاش کرتے ہیں‘ طریقہ وضع کرتے ہیں۔ اُنہیں کسی بھی معاملے میں محض شِکوہ کُناں رہنا اچھا نہیں لگتا۔ وہ جانتے ہیں کہ حالات کا رونا روتے رہنے سے معاملات کبھی درست نہیں ہوتے۔ ؎
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا
آج کی دنیا میں اپنے آپ سے اور باقی دنیا سے ناخوش رہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بہت سوں کو زندگی قدم قدم پر آزمائش سی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی کبھی اچانک مسائل اتنی تیزی سے بڑھتے اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ ابتدائی مرحلے میں بہت سوچنے پر بھی کوئی حل سُجھائی نہیں دیتا۔ کسی معاملے کا کوئی سِرا ہاتھ آئے تو انسان کچھ کرے بھی۔ جب کوئی سِرا ہی ہاتھ نہ آرہا ہو تو بے حواسی بڑھتی ہے‘ نفسی الجھن کا گراف بلند ہوتا ہے۔
اکیسویں صدی میں ویسے تو سبھی کچھ انوکھا ہے‘ مگر سب سے انوکھا ہے ‘زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ۔ زیادہ سے زیادہ متوازن رہنے کی خاطر کیسے جیا جائے یہ طے کرنا اب انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ماحول میں پیچیدگی بڑھتی جاتی ہو تو انسان کے لیے ڈھنگ سے جینا بھی پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں۔ کسی نہ کسی سطح پر ہر معاشرہ اِس الجھن سے دوچار ہے۔ ہاں‘ چند معاشروں نے مادّی اعتبار سے غیر معمولی ترقی یقینی بناتے ہوئے معاملات کو بہت حد تک اپنے حق میں کرلیا ہے۔ اُن کا استحکام اور اطمینان دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ ہونی بھی چاہیے۔ فی زمانہ کوئی بھی معاشرہ اگر کسی نہ کسی طور اپنے لوگوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے میں کامیاب ہوجائے ‘تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟
اقوام متحدہ کی چھتری تلے جہاں اور بہت سی باتوں کی پیمائش ہوتی ہے وہیں اب مسرّت کی پیمائش بھی بخوبی کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت باضابطہ طور پر تو نہیں مگر ہاں چند اداروں کے اشتراک سے ہر سال ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس جاری کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے اجراء کا مقصد ساری دنیا کو بتانا ہے کہ کون سا ملک یا معاشرہ کس حد تک خوش ہے‘ مطمئن ہے۔ اسکینڈینیویا کے ممالک اس انڈیکس کے ٹاپ ٹین میں رہتے ہیں۔ کون سا ملک کس حد تک خوش اور مطمئن ہے اِس کی پیمائش کے لیے ایک سوچا سمجھا پیمانہ متعین ہے۔ فی کس آمدنی‘ بنیادی سہولتوں کی فراہمی‘ تعلیم و تربیت کے حوالے سے پایا جانے والا جوش و خروش‘ عمومی صحت کا معیار اور اوسط عمر‘ عمل پسندی‘ امن‘ معیشتی استحکام‘ معیارِ حکمرانی اور دیگر بہت سے امور کا جائزہ لے کر طے کیا جاتا ہے کہ کون سا ملک کس حد تک خوش ہے۔
2019 کے ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس کے تحت 156 ممالک میں فن لینڈ مسلسل دوسرے سال بھی ٹاپ پر ہے۔ ٹاپ ٹین میں فن لینڈ کے ساتھ ڈنمارک‘ ناروے‘ آئس لینڈ‘ نیدر لینڈز‘ سوٹئزر لینڈ‘ سویڈن‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا اور آسٹریا ہیں۔ پاکستان اس انڈیکس میں (گزشتہ برس کی نسبت 8 درجے ترقی پاکر) 67 ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت 140 ویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا گزشتہ برس 35 ویں نمبر پر تھا ‘مگر اس بار 80 ویں نمبر پر ہے۔ اسرائیل 13 ویں اور امریکا 19 ویں نمبر پر ہے۔ جاپان‘ 58 ویں‘ چین 93 ویں‘ بنگلہ دیش 125 ویں‘ افغانستان 154 ویں اور جنوبی سوڈان آخری یعنی 156 ویں نمبر پر ہے۔ یہ انڈیکس اقوام متحدہ نے سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ سولیوشنز نیٹ ورک کے پلیٹ فارم سے ارنیسٹو اِلی فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر جاری کیا ہے۔ تکنیکی معاونت کینیڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ ریسرچ کی ہے۔
دنیا آج جہاں کھڑی ہے وہاں بہت کچھ ایسا ہے ‘جو آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں۔ ہر چیز کی پیمائش کے معیارات تبدیل ہوچکے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ محض ایک سال میں ملائیشیا 35 ویں نمبر سے لڑھک کر 80 ویں نمبر پر آگیا۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی انتہائی حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے کہ جاپان جیسا ملک 58 ویں نمبر پر ہے جبکہ اسرائیل کو 13 ویں پوزیشن ملی ہے۔ اور چین جیسا ترقی یافتہ اور آبادی کے غالب حصے کو بنیادی سہولتوں سے ہم کنار کرنے والا چین 93 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان 67 ویں پوزیشن پر ہے تو کس بنیاد پر یہ کہنا اور سمجھانا آسان نہیں اور اگر بھارت 140 ویں پوزیشن پر ہے تو کس بنیاد پر ہے جبکہ معیشتی استحکام اور تعلیم و صحت سمیت تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے تو وہاں کا نظام بہت اچھی حالت میں ہے!
کون کس طور جیے گا ‘اس کا تعین وہ خود کرے گا۔ فرد کی طرح معاشروں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پاکستانی مجموعی طور پر ایک ایسی قوم ہیں جسے ہر حال میں جینے یعنی ایڈجسٹ کرنے کا ہنر آتا ہے۔ یہ ہنر حالات کی پیدا کردہ خرابیوں نے سکھایا ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں گئے گزرے ہیں‘ پس ماندہ ہیں۔ یہ افسوسناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم اصلاحِ احوال کا سوچیں اور عمل نہ کر پائیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم ایسا چاہتے ہیں یا نہیں۔ بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں ‘جن میں ہم بہت سی اقوام سے بڑھ کر ہیں۔ فراخ دلی کا بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ عام پاکستان بیشتر معاملات میں فراخ دل واقع ہوئے ہیں اور یہی وصف اُنہیں غیر معمولی حد تک مسرّت سے ہم کنار رکھتا ہے۔ معاملہ فہمی‘ حقیقت پسندی اور دنیا داری اپنی جگہ‘ بیشتر پاکستانی مصیبت کی کسی بھی گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں نکل آتے ہیں۔ کوئی محض ضد کی بنیاد پر اِس حقیقت کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے‘ حقیقت یہی ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں ایڈجسٹمنٹ کرنا جانتے ہیں اور کسی نہ کسی طور کوئی راہ نکالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ تو کہیے کہ حکمرانوں کی نا اہلی اور ریاست کی انتظامی مشینری کی بے ضمیری نے ہمیں چند ایک شدید الجھنوں میں مبتلا کر رکھا ہے‘ جس کے باعث ہم مجموعی طور پر پس ماندہ رہ گئے ہیں وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی خرابیوں کے باوجود آج بھی ہم میں اتنا دم خم ہے کہ سخت نامساعد حالات کو بھی منہ دے لیتے ہیں۔ بہر کیف‘ یہ بھی بڑی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مقابلے میں ہم دگنے سے بھی زیادہ خوش ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکنا بھی لازمی وصف ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک مدت سے دنیا نے بھی ہمیں نشانے پر لے رکھا ہے۔ اس کے باوجود بہت حد تک خوش رہنا اور پریشانیوں کو زیادہ خاطر میں نہ لانا بہ لحاظِ مجموعی ایسا وصف ہے‘ جس پر اطمینان ہی نہیں فخر بھی کیا جاسکتا ہے۔