"MIK" (space) message & send to 7575

مذاکرات اور پیٹ کا مروڑ

امریکا نے بالآخر وہ فیصلہ کر ہی لیا‘ جس سے اب تک جان چھڑائی جارہی تھی‘ نظر چرائی جارہی تھی۔ افغانستان کے پورے کھیل سے ''طالبان فیکٹر‘‘ کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقیقت باقی دنیا تو بہت اچھی طرح جانتی تھی مگر امریکی قیادت سمجھنے کو تیار نہ تھی۔ واشنگٹن کے پالیسی میکرز کا خیال تھا کہ جدید ہتھیاروں اور سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے طالبان کو زیر دام لانا زیادہ دشوار نہ ہوگا اور جب ایک بار ایسا ہوجائے گا تو پھر کس کی مجال ہے کہ پورے خطے میں امریکا کو دندناتا ہوا پھرنے سے روک سکے۔ 
اور امریکی پالیسی میکرز بھلا ایسا کیوں نہ سوچتے کہ ایک طرف تو افغان سرزمین پر اُن کی ہاں میں ہاں ملانے اور اُن کا بھرپور خیر مقدم کرنے کی خواہش رکھنے والے موجود تھے اور دوسری طرف بھارت بھی بانہیں پسارے امریکیوں کا منتظر تھا۔ چین کے خلاف اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے بھارت کو خطے میں واحد سپر پاور کے فٹ پرنٹس کی ضرورت تھی۔ نائن الیون نے نئی دہلی کے پالیسی میکرز کو بھی‘ محدود پیمانے پر ہی سہی‘ کچھ کر دکھانے کا موقع فراہم کیا۔ جب امریکا نے یورپی اقوام کی حمایت و تعاون سے افغان سرزمین پر قدم جمانے کی بھرپور کوشش کی تب یہ بات کھلی کہ طالبان محض سیاسی فریق نہیں‘ حقیقی عسکری قوت ہیں اور افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی جامع منصوبہ تیار کرتے وقت طالبان کو نظر انداز کرنا اور دیوار سے لگانا پرلے درجے کی سفارتی و سیاسی حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ امریکا نے ڈیڑھ عشرے تک اس حماقت کا بازار گرم رکھا۔ پہلے حامد کرزئی کو آزمایا گیا۔ جب وہ ناکام ہوئے تو اشرف غنی کو لایا گیا۔ یہ تجربہ بھی کم و بیش ناکام ہی رہا ہے۔ 
طالبان ایک حقیقت تھے اور ہیں۔ یہ بات امریکا اور یورپ نے اب اچھی طرح سمجھ لی ہے۔ یورپ کا معاملہ تو خیر یہ ہے کہ اُسے امریکا کا صرف ساتھ دینا تھا‘ وگرنہ بیشتر یورپی قائدین کو بھی اندازہ تھا کہ افغانستان سے انہیں کچھ نہ مل سکے گا۔ امریکا چاہتا تھا کہ خطے میں قدم جماکر چین کی راہ روکنے کیلئے عملی سطح پر کچھ ایسا کرے کہ طویل مدت تک اطمینان کے سانس لینا ممکن ہوسکے۔ یہ خواب واشنگٹن کے سیانوں کی مرضی کے مطابق شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکا ہے۔ 
نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو سفر شروع ہوا تھا‘ اُس میں اب ایک عجیب پڑاؤ آیا ہے۔ یہ پڑاؤ ہے طالبان سے مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے جان چھڑانے کا۔ بہت کوشش کرنے پر بھی طالبان کو مکمل طور پر زیر کرنا ممکن نہیں ہوسکا۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اب تک اپنے کاز سے مخلص ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے اور حقیقت سے لاکھ انکار کرے‘ معاملہ یہ ہے کہ طالبان پر دنیا پرستی کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے ذاتی یا گروہی مفادات برائے نام بھی نہیں۔ جو لوگ اُن سے رابطے میں رہے ہیں وہ بتاتے ہیں اُن کی طرزِ زندگی بہت سادہ ہے۔ انہوں نے دنیا کی طلب سے اب تک اپنے دامنِ دل کو آلودہ نہیں کیا۔ زندگی سے پیار ضرور ہے مگر اتنا نہیں کہ اس پیار کو ہوس قرار دیا جاسکے۔ یہی سبب ہے کہ موت سے بھی وہ نہیں ڈرتے۔ اور جو موت سے نہیں ڈرتا اُس سے سب ڈرتے ہیں! 
افغانستان کی دلدل سے مکمل طور پر نکلنے کے لیے امریکا کو طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ مذاکرات قطر میں ہو رہے ہیں۔ جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ بعض ممالک ضرورت سے زیادہ پریشان ہیں۔ اس حوالے سے بھارت سرفہرست ہے۔ بھارتی اخبارات‘ چینلز اور ویب سائٹس پر امریکا طالبان مذاکرات کے حوالے سے طرح طرح کے ''نظریات‘‘ کا اظہار کیا جارہا ہے‘ جوکچھ کہا اور لکھا جارہا ہے ؛وہ بہت حد تک کامیڈی کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے! مذاکرات ہو رہے ہیں‘ امریکا اور طالبان کے درمیان اور پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ کے ہاتھوں ادھ موئے جارہے ہیں۔ بھارت کے تجزیہ کار! ایسا کیوں ہے؟ بھارتی تجزیہ کار اور دانشور امریکا طالبان مذاکرات کے حوالے سے اِتنے بے حواس سے کیوں ہوئے جارہے ہیں؟ 
بات کچھ یوں ہے کہ طالبان کے دوبارہ ابھرنے اور مضبوط ہونے سے خطے میں اگر کوئی واقعی پریشان ہے تو وہ بھارت ہے۔ بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے تو پاکستان ایک بار پھر افغانستان کے حوالے سے ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ یقینی بنانے میں غیر معمولی حد تک کامیاب ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو افغانستان میں بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ بھارت نے افغانستان پر متوجہ ہوکر اپنے لیے جگہ بنانے کی خاصی کوشش کی ہے۔ طالبان مخالف دھڑوں کو ساتھ ملاکر بھارت نے اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش سے گریز نہیں کیا۔ ایران کو ساتھ ملاکر اُس نے پاکستان اور چین دونوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے حوالے سے سنجیدگی دکھائی۔ اب جبکہ طالبان ابھرتے ہی جارہے ہیں اور امریکا بھی اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہے‘ بھارتی پالیسی میکرز پریشان ہیں کہ افغانستان میں اپنے مفادات کو تتر بتر ہونے سے کیسے بچایا جائے۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ ع 
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 
ہندوستان ٹائمز کیلئے ایک مضمون میں نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کے ڈائریکٹر اور دہلی گورنمنٹ کے سابق سیکریٹری شکتی سِنہا نے لکھا ہے ''امریکا اور طالبان کے درمیان بات چیت ایک ایسا سفر ہے ‘جس کی کوئی منزل نہیں۔ امریکا اب افغانستان سے مکمل طور پر نکل جانا چاہتا ہے‘ مگر وہ اس امر کی ضمانت چاہتا ہے کہ افغان سرزمین کو اُس کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ کیا طالبان اِس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ اقتدار ملنے پر وہ امریکا کے خلاف نہیں جائیں گے؟ اور کیا پاکستانی فوج طالبان کو اس بات کی اجازت دے گی کہ مکمل آزادی کے ساتھ کام کریں؟‘‘ 
بھارت کے مفادات کے حوالے سے سوچنے والوں کے پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں کابل حکومت کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ طالبان کابل حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ یہ حقیقی منتخب حکومت ہے ہی نہیں۔ اسے نصب کیا گیا‘ ٹھونکا اور تھوپا گیا ہے۔ بھارت اور ایران دونوں کے لیے حقیقی پریشانی کی بات یہی ہے کہ امریکیوں اور اُن کے ساتھ ساتھ یورپ والوں کے نکل جانے کے بعد طالبان سے کس طور نمٹا جاسکے گا؟ بھارت نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ طالبان بھارتی قیادت اور عام بھارتیوں کو کسی بھی اعتبار سے قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی بڑی طاقت افغان سرزمین پر نہیں رہے گی تب بھارتی مفادات کا کیا ہوگا۔ 
ایک مدت کے بعد پاکستان اور طالبان دونوں کو کسی نہ کسی حد تک لیوریج دکھانے کا موقع ملا ہے۔ یہ موقع ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان گوناگوں مسائل سے دوچار ہے مگر اِس کے باوجود قدرت کی مہربانی سے ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں ‘جن سے اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے والے چند ایک معاملات اچھی طرح کشید کیے جاسکتے ہیں۔ اغیار بس یہی سوچ سوچ کر حیران و پریشان ہوئے جارہے ہیں۔ خیر ... کوئی کتنا ہی بھونکے‘ ہاتھی کی سواری کو تو گزر ہی جانا ہوتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں