"MIK" (space) message & send to 7575

مہم جوئی کی گنجائش نہیں

بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کو دلاسا دیا ہے کہ وہ بالکل نہ گھبرائیں‘ فی الحال حکومت گرانے کا کوئی ارادہ نہیں! ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نواز شریف جب چاہیں سندھ آئیں‘ اُن کی آمد سر آنکھوں پر! پی پی پی کے چیئرمین نے سابق وزیر اعظم کو سندھ میں علاج کی پیشکش بھی کی ہے۔ ٹرین مارچ کے دوران خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ 4 اپریل کو (ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر) گڑھی خدا بخش بھٹو میں جمع ہوکر جیالے یہ ثابت کردیں گے کہ وہ ہیں! 
پاکستان پیپلز کی رگوں میں جوان خون کا درجہ رکھنے والے بلاول بھٹو زرداری نے ٹرین مارچ کے دوران اور بھی بہت کچھ کہا ہے۔ یہ ٹرین مارچ بظاہر حکومت کے لیے محدود نوعیت کا پیغام ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب سے پی پی پی قائدین کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ کرنے کی باتیں شروع ہوئی ہیں‘ حکومت کے خلاف ڈٹ کر میدان میں آنے کا تاثر دیا جارہا ہے۔ معاملات اب تک عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہیں۔ فریقین گریزپا رہنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ ایک طرف حکومت بظاہر کسی بھی بڑی سیاسی قوت سے متصادم ہونے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ فطری سی بات ہے‘ کیونکہ ایسا کرنے کے لیے درکار صلاحیت و سکت کا دائرہ خاصا محدود ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی بڑی سیاسی قوتیں بھی اپنا آپ خوب پہچانتی ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس وقت وہ کتنی بڑی ہیں! یہی سبب ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر اور کسی بھی درجے میں کسی بڑی مہم جوئی سے گریزاں ہیں۔ 
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی گرفتاری کے موقع پر اور جیل میں گزارے ہوئے ایام کے دوران مسلم لیگ (ن) کا جو رویہ رہا ہے ‘وہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ کوئی لاکھ انکار کرے‘ ن لیگ کی اپنی صفوں میں انتشار موجود ہے اور حد یہ ہے کہ قائدین کا اپنا گھرانہ بھی انتشار سے پاک نہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نواز شریف کی گرفتاری سے شہباز شریف کو خاصا معقول ایڈوانٹیج ملا ہے اور اس بھی بڑھ کر یہ کہ ن لیگ کی سیاست میں حمزہ شہباز کے لیے ''لیوریج‘‘ کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ 
پیپلز پارٹی میں اندرونی سطح پر زیادہ انتشار تو خیر نہیں پایا جاتا‘ مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں ہو۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اقتدار بچانے میں کامیاب رہی ہے ‘مگر یہ کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ سندھ کو کس طور چلایا جاتا رہا ہے اور کس طور چلایا جارہا ہے۔ یہاں بنیادی سہولتوں سے چند ایک نام نہاد عوامی آسائشوں تک خدمات کا جو حال اور معیار ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسے میں کسی نمایاں بہتری کا خواب دیکھنا محتاط ترین الفاظ میں بھی حماقت ہی کہلائے گا۔ 
معاملات پل پل کچھ کے کچھ ہوتے جارہے ہیں۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دھما چوکڑی والی کیفیت شروع ہونے کو ہے‘ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ قومی سطح کے بہت سے معاملات ہیں‘ جن پر اب تک اتفاقِ رائے یقینی بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ وقت اور حالات کا تقاضا خواہ کچھ ہو‘ انا پرستی اور مصلحت پسندی کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ کوئی ‘اگر کسی بات پر اَڑ جائے تو پھر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اختلافات بھی زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں۔ معاملہ یہاں تک ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے بلایا جانے والا اجلاس منسوخ کرنا پڑا ہے۔ آصف زرداری‘ شہباز شریف اور فضل الرحمن نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ ن لیگ کا مطالبہ تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر بریفنگ قومی اسمبلی میں دی جائے۔ جے یو آئی (ف) نے کسی اندرونی الجھن کا بہانہ تراشا۔ مختلف اہم معاملات پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت جس قدر بڑھتی جارہی ہے‘ اختلافِ رائے کا گراف اُتنا ہی بلند ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ سیاسی معاملات کو خواہ مخواہ طُول دے کر بگاڑ پیدا کیا جائے اور پھر اِس بگاڑ کی دلدل میں اہم قومی امور کو دھکیل دیا جائے‘ مگر صاحب‘ کیا کیجیے کہ یہاں تو یہی ہو رہا ہے۔ 
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ن لیگ اب تک حواس بحال نہیں کر پائی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک اقتدار کی سیٹ بچانے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُس سے وابستہ توقعات کے بار آور ہونے کا کوئی راستہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی ہے کہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح ''انگیج‘‘ رکھا جائے۔ اپوزیشن جماعتیں کہنے کو ایک پیج پر ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں ہر ایک کا اپنا پیج ہے اور وہ اس پیج پر کسی اور کو دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ 
بلاول بھٹو کو یہ کیوں کہنا پڑا ہے کہ جیالے ''ہیں‘‘؟ کون نہیں جانتا کہ جیالے ہیں اور اس وقت کس حالت میں ہیں! ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی‘ دونوں ہی جماعتوں کو پرسنل یا پرائیویٹ انٹر پرائز کے طور پر چلایا جاتا رہا ہے۔ ن لیگ شریف خاندان اور پیپلز پارٹی زرداری و بھٹو خاندان سے ہٹ کر کچھ نہیں۔ 
اندرونی اور بیرونی حالات کے تقاضے متنوع ہیں۔ بھارت کی طرف سے کسی بھی طرز کی عسکری مہم جوئی کا خطرہ ابھی تک نہیں ٹلا۔ دو طیاروں کی تباہی اور ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری سے جو زخم لگا تھا‘ اُسے بھارتی قیادت اب تک چاٹ رہی ہے۔ درندہ زخمی ہوکر زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس وقت کیا کر بیٹھے۔ مودی سرکار کا معاملہ یہ ہے کہ اقتدار برقرار رکھنے‘ یعنی آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے مرحلہ وار عام انتخابات میں شاندار فتح یقینی بنانے کے لیے کچھ چاہیے۔ پاکستان کے خلاف کسی بھی نوع کی بھرپور کامیابی مودی سرکار کا پیٹ بھردے گی۔ ایسے میں محض سیاسی و عسکری قیادت کو نہیں‘ بلکہ پوری قوم کو ہمہ وقت بیدار مغز اور چوکس رہنا پڑے گا۔ 
معیشت کا معاملہ اور بھی ٹیڑھا ہے۔ چین‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ ملائیشیا ... اور کسی حد تک روس کی طرف سے بھی دستِ تعاون دراز کیا گیا ہے۔ اچھا خاصا قرضہ مل چکا ہے۔ تیل بھی ادھار مل رہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔ معیشت کو بحرانی کیفیت سے نکالنے میں وقتی طور پر کچھ کامیابی ملی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا گراف نیچے لانے‘ افلاس کی شرح کو قابو میں رکھنے اور پس ماندہ رہ جانے والے طبقے کے لیے رہائش کی آسان اور سستی سہولتوں کا ممکن بنانا حکومت کے لیے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ ان میں سے ہر چیلنج سے نمٹنا انتہائی کٹھن بھی ہے اور لازم بھی۔ ایسے میں ملک سیاسی و معاشرتی سطح پر کسی بھی بڑی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کئی ممالک نے پاکستان کے ساتھ چلنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ سی پیک سے جُڑے ہوئے منصوبوں کا وقت پر مکمل کیا جانا ہی اِس عظیم منصوبے کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔ اِس کے لیے ملک میں سیاسی سطح پر امن اور استحکام کا پایا جانا لازم ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو وقت کے اس اہم اور نازک موڑ پر قومی تقاضوں کے حوالے سے بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سیاسی سطح پر کسی بڑی مہم جوئی کی گنجائش نہیں۔ جو کچھ پہلے ہی اُلٹا‘ پَلٹا پڑا ہے‘ اُسے سیدھا کرلیا جائے تو بڑی بات ہے۔ ایسے میں نئے محاذ کھولنا عوام اور قومی مفادات سے صریح رو گردانی سمجھا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں