"MIK" (space) message & send to 7575

’’رونقیں‘‘ ہیں اُدھار کے دم سے!

ہوش سنبھالنے کے بعد سے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ اُدھار محبت کی قینچی ہے۔ اب‘ جبکہ ہوش خاصے سنبھل چکے ہیں‘ غور کرنے پر اندازہ ہوا ہے کہ اُدھار بے چارہ بدنصیب ہے‘ مظلوم ہے۔ محبت کے حوالے سے اُدھار کو صرف بدنام کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارا (جیسا تیسا) مشاہدہ کچھ اور ہے۔ ہم نے اُدھار کی بدولت محبت کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ ہمیں یقین ہے آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں آیا ہوگا۔ اُدھار دینا شروع کیجیے اور پھر خود ہی دیکھ لیجیے کہ آپ کے چاہنے والوں اور آپ کو ''بھائی جان‘ مہربان‘ قدر دان‘‘ قرار دینے والوں کی تعداد کتنی تیزی سے بڑھتی ہے! 
سُنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ ع 
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
یعنی محبت بڑھانی ہے تو میل جول کی فریکیونسی گھٹائیے‘جسے اُدھار دیا جائے‘ اُس سے محبت خود بخود بڑھے گی‘ کیونکہ وہ کم کم دِکھائی دے گا اور بعض صورتوں میں تو وہ (محض محبت برقرار رکھنے کے نقطۂ نظر سے) شکل دکھانے سے بھی یکسر گریز کرے گا! اسی لیے تو کہتے ہیں اُدھار ایک جادو ہے ‘کیونکہ اُدھار لینے والے اچانک غائب ہو جاتے ہیں اور بہت ڈھونڈنے ہی پر اُن کا کچھ نشان مل پاتا ہے! 
طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو عمل محبت بڑھاتا ہے‘ یعنی کِسی کی شکل گُم کرکے اُس کی طلب میں اضافہ کرتا ہے‘ وہی عمل بالکل مخالف سمت جاکر بھی آپ کے مَن کی مُراد پوری کرتا ہے! اگر آپ کِسی کو دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں اور اپنی آنکھوں کو کچھ آرام اور سُکون دینے کی غرض سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی شکل گم کرلے تو دیر کِس بات کی ہے؟ اُدھار دیجیے اور آنکھوں کے ساتھ ساتھ کلیجے کو بھی ٹھنڈک پہنچانے کا خوب اہتمام کرلیجیے! 
اگر کوئی سنگ دِل آپ کو مُنہ نہیں لگاتا تو کِسی عامل وامل کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ قبرستان سے گلی سَڑی‘ چٹخی ہوئی‘ بُھربُھری کھوپڑی نکال کر اُس پر توتلے کی بڑبڑاہٹ سے مماثل کوئی وظیفہ پڑھ کر پھونکنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی کھوپڑی کو استعمال کیجیے ‘یعنی اُدھار کی پیشکش کیجیے‘ پھر دیکھیے کہ انتہائی سنگ دِل محبوب بھی کِس طرح آپ کے قدموں میں گرتا اور آپ کے پیروں تلے کی خاک (چھانے بغیر) چاٹتا ہے! 
اُدھار کو بدنام کرنے میں دکاندار طبقے نے خاصا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بعض دکاندار تو خاصے جذباتی پائے گئے ہیں۔ بہت سی دُکانوں پر آپ نے ''کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے‘‘ کی تختی لٹکی ہوئی دیکھی ہوگی۔ ہمیں تو لگتا ہے ایسے دُکاندار کشمیر کی آزادی پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں! ان سے ذرا کوئی پوچھے کہ کیا ہم اتنے بے وقوف ہیں کہ اِن سے ذرا سا سودا اُدھار خریدنے کی خاطر کشمیر کی آزادی کے نام پر جنگ کا میدان سجالیں! کون جانے کہ کشمیر کے آزاد ہو جانے پر یہی دکاندار اُدھار دینے کیلئے امن کی آشا کے انت‘ بلکہ ''دیہانت‘‘ کی شرط عائد کردیں! ایک ذرا سے اُدھار کے چکر میں کشمیر کا اچھا خاصا سدا بہار اِشو بھی ہاتھ سے جائے گا اور امن کی آشا بھی پرماتما سے جا مِلے گی! اُدھار کو فساد کی جڑ بنانے کی یہ دکاندارانہ سازش ہمیں تو ذرا بھی پسند نہیں! 
تو صاحب‘ قصہ یہ ہے کہ دنیا کا لین دین اُدھار کے بل پر چل رہا ہے۔ اُدھار لینا ایک فن ہے اور اُس سے بڑا فن ہے اُدھار نہ لوٹانا‘ بلکہ لوٹانے سے بچنا! دُنیا کا بہترین تعلیمی ادارہ بھی وہ سُوجھ بُوجھ‘ گفتگو کا سلیقہ اور ذہانت نہیں سِکھا سکتا جو اُدھار لینے والا از خود نوٹس کے تحت کِسی کے سِکھائے بغیر سیکھ لیا کرتا ہے! 
نفسی اور معاشرتی امور کے بہت سے ماہرین بے پَر کی اُڑاتے ہیں کہ اُدھار لینے کی عادت انسان کو بگاڑ دیتی ہے‘ اُس کے مزاج میں کجی پیدا کرتی ہے۔ ہم نے تو معاملہ کچھ اور پایا ہے۔ ہمارے ہاں مزاج کی انتہائی نرمی صرف دو طرح کے لوگوں پر ختم ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اُدھار لیکر زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں‘ جو باقاعدگی سے ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں! ایک بات اور بھی ہے۔ اُدھار لینا اور دینا اس بات کی علامت ہے کہ ہم انسان ہیں۔ کبھی آپ نے کِسی جانور کو اُدھار لیتے یا دیتے دیکھا ہے! 
بہت سے لوگ خواہ مخواہ مایوس ہوکر یہ فیصلہ سُنا بیٹھتے ہیں کہ اب یہ دُنیا رہنے کے قابل نہیں رہی۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اُدھار کے دم سے ابھی اُمید کے باغ کی بہار سلامت ہے! جو لوگ اُدھار لینے کے اٹل ارادے کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں ‘وہ خوش اُمیدی اور مثبت فکر کی جیتی جاگتی تصویر ہیں اور جو لوگ دیئے ہوئے اُدھار کی واپسی کی آس لگائے رہتے ہیں وہ تو رجائیت ‘یعنی اُمید پرستی کی جیتی جاگتی انتہا ہیں! 
اس معاشرے میں جہاں اور بہت سے معاملات میں سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کہہ دینے کا رواج ہے وہیں اُدھار کے بارے میں بھی سوچے بغیر لوگ پتا نہیں کیا کیا ''نظریات‘‘ پیش کردیتے ہیں۔ اُدھار انسان میں کئی اوصاف بھی پیدا کرتا ہے‘ مثلاً: بھرپور اعتماد۔ کچھ لوگ اس اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ کبھی اُدھار نہیں لوٹائیں گے! بہت سے لوگ اس یقین کے ساتھ جیتے ہیں کہ اُنہیں اُدھار مل کر رہے گا اور دونوں ہی طرح کے لوگوں کو ہم نے بھرپور کامیابی سے ہم کنار دیکھا ہے! 
اُدھار کی بدولت کبھی کبھی ایسا فائدہ بھی پہنچتا ہے‘ جس کی قدر و منزلت کا اندازہ کسی طور نہیں لگایا جاسکتا۔ ہمارا ''ایکسٹریملی پرسنل‘‘ مشاہدہ ہے کہ بعض حالتوں میں اُدھار آخرت پر ہمارا یقین بڑھا دیتا ہے! کبھی کبھی ہمیں اپنی دی ہوئی رقم ڈوبی ہوئی سی محسوس ہونے لگتی ہے‘ پھر یاد آتا ہے کہ مومن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ جو رقم ہمیں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘ وہی آخرت پر یقین بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے ‘یعنی ہمیں یقین ہو رہتا ہے کہ اس دُنیا میں نہ سہی‘ اُس دُنیا میں تو وصولی کر ہی لیں گے! 
اُدھار کے حوالے سے اعتماد کا ذکر بھی چھڑا ہے۔ جناب‘ اُدھار نام ہے‘ اُس یقین و اعتماد کا جو ہمیں آنے والی نسلوں پر ہے۔ ہم آج جو اُدھار دنیا بھر سے لے رہے ہیں‘ اُسے ادا کرنے کی فکر لاحق نہیں‘ کیونکہ ہمیں اس بات کا پورا یقین و اعتماد ہے کہ آنے والی نسلیں اسے بخوبی ادا کردیں گی! جو ابھی پیدا نہیں ہوئیں اُن نسلوں کو اس غیر متزلزل یقین و اعتماد پر ابھی سے ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے! 
ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو چیز حکومتوں کے کام کاج کو چلتا رکھتی ہے‘ وہ غلط کیسے ہوسکتی ہے۔ اُدھار وہ آکسیجن ہے‘ جس نے بہت سے حکومتوں کو سانس لینے کے قابل بنا رکھا ہے‘ جو چیز حکومتوں یعنی ریاستوں کو زندہ رکھتی ہو‘ وہ اتنی بُری ہرگز نہیں ہوسکتی کہ ہم اُس سے بچتے پھریں اور اُس کا نام لینے سے بھی کترائیں! 
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں ‘جس میں لوگوں کو جوڑنے والی ڈوریاں تیزی سے ٹوٹتی جارہی ہیں۔ ایسے میں اُدھار کا دم غنیمت ہے ‘جو پُل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ پُل نہ رہا تو ہم پھر الگ الگ جزیروں کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اپنی اپنی ویرانی میں گم رہنے لگیں گے! اچھا ہے کہ اُدھار سلامت رہے اور ہم اِس بہانے ایک دوسرے سے جُڑے رہیں۔ کسی کو ادھار دیجیے اور اُسے یاد رکھیے یا کسی سے اُدھار لیجیے اور اُسے یاد آتے رہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں