"MIK" (space) message & send to 7575

آپ خوش رہیے … ساڈی خیر اے!

ماہرین کی ایک خوبی کا اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا‘ یہ کہ وہ انسان کو ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے کی راہ سُجھاتے ہیں۔ یہ خوبی غیر معمولی ہے اور اسے سراہا جانا چاہیے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین انتہائی سادگی سے مثبت سوچ اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور اُن کے مشورے پر عمل کرنے نکلئے تو اچھے خاصے معاملات بگاڑ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ 
بات کچھ عجیب سی لگ رہی ہے نا؟ کیوں نہ لگے کہ معاملہ ہے ہی عجیب۔ قصہ یہ ہے کہ زندگی ایسی آسان نہیں جیسی دکھائی دیتی ہے۔ ماہرین کے مشوروں میں ایک طرف تو اخلاص ہوتا ہے اور دوسری طرف سادگی۔ دوسری طرف دنیا ہے کہ پُرکاری سے پُر ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ مشورے سیدھے ہیں اور دنیا ٹیڑھی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کوئی کرے تو کیا کرے؛ اگر معاشرتی اور نفسی پیچیدگیوں کے ماہرین کے مشوروں پر عمل سے زندگی ایسی آسانی سے درست ہو جایا کرتی تو پھر رونا کس بات کا تھا؟ آج دنیا میں ہر طرف اچھائیاں بکھری ہوئی ہوتیں۔ 
نیدر لینڈز (ہالینڈ) سے تعلق رکھنے والی سماجی نفسیات کی ایک ماہر نے یہ مژدۂ جاں فزاء سنایا ہے کہ اگر کسی مرد کو زیادہ اور اچھی طرح جینا ہے ‘تو لازم ہے کہ شریکِ حیات اُس سے خوش ہو۔ یہی خوش خبری اُن خواتین کے لیے بھی ہے ‘جن کے شوہر اُن سے خوش ہوں۔ 
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ گھریلو زندگی کے معاملات درست ہوں تو زندگی بہت حد تک درست رہتی ہے؟ لوگ جب گھر میں خوشی پاتے ہیں تو اپنے پورے وجود میں خوشی کو لہر کی صورت دوڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔ ہالینڈ کی رٹجرز یونیورسٹی کے محققین نے اولگا اسٹا ورووا کی قیادت میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں یہ جانا ہے کہ جب بیوی خود یہ کہے کہ وہ خوش ہے تو شوہر کو غیر معمولی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ بات یہاں تک رکتی یا رکی رہتی تو کوئی بھی متوجہ نہ ہوتا۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیوی یا شوہر کی طرف سے اطمینان و مسرت کا اظہار فریقِ ثانی کی عمر میں بڑھوتری کا ذریعہ بنتا ہے۔ اولگا نے درمیانی سے ڈھلتی ہوئی عمر کے چار ہزار شادی شدہ جوڑوں کو چُنا اور آٹھ سال تک اُن کے بیشتر معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیتی رہیں۔ تحقیق سے اخذ کیے جانے والے نتائج کی روشنی میں بتایا کہ اچھی خوراک‘ مناسب وزن اور باقاعدہ ورزش انسان کو صحت کے مسائل سے بچاکر زیادہ اور ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتی ہے۔ بالکل اسی طرح جن لوگوں سے شریکِ حیات خوش ہو وہ زیادہ جیتے ہیں۔ یہ معاملہ صنف‘ نسل اور تعلیمی و معاشی سطح سے بالا ہے‘ یعنی یہ کہ جہاں بھی شریکِ حیات خوش ہو وہاں خوشی اور اُس کے نتیجے لمبی عمر ملے گی۔ 
ماہرین بیان کرتے ہیں کہ جب بیوی خوش ہو تو شوہر اُس کا زیادہ خیال رکھتا ہے‘ گھر میں جھگڑے کم ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ قبول کرنے کی راہ ہموار ہوتی رہتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن گھروں میں فریقین ایک دوسرے سے خوش اور مطمئن ہوں وہاں معاملات درست چلتے رہتے ہیں اور صحت کا عمومی معیار بلند رہنے سے اچھی طرح اور زیادہ جینے کا امکان بھی توانا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک تو ہم بھی ماہرین سے متفق ہی ہیں۔ گھر میں خوشی ہو تو پورا ماحول گنگنانے لگتا ہے‘ مگر جب یہ معاملہ مرزا تنقید بیگ تک پہنچا تو کچھ کا کچھ ہوا۔ جب ہم نے اُنہیں جیون ساتھی کے خوش ہونے سے طولِ عمر کے تعلق سے متعلق تحقیق کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے ایک ایسا ''نکتۂ اعتراض‘‘ بیان کیا کہ ہم (اپنا) دل اور سَر دونوں تھام کر رہ گئے۔ 
مرزا محقق تو خیر نہیں ہیں ‘مگر بال کی کھال اتارنے کا ہنر اُنہیں خوب آتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اُنہیں اِس کے سوا کوئی ہنر نہیں آتا۔ یقین نہ آئے تو اُن کے اہلِ خانہ سے پوچھ دیکھیے ‘جو اُن کے اِس ہنر کا تختۂ مشق بن بن کر اب جنت کے حق دار ہوچکے ہیں! ایک زمانے سے مرزا بھی ہم سے یہی کہتے آئے ہیں کہ بھائی! اگر گھر کی خوشی چاہتے ہو تو شریکِ حیات کو خوش رکھا کرو اور جب جب ہم نے اس مشورے کو سَر آنکھوں پر بٹھاتے ہوئے اُن سے یہ پوچھا ہے کہ شریکِ حیات کو خوش رکھنے کا کوئی انتہائی کارگر اور تیر بہ ہدف نسخہ بتائیے تو وہ ہر بار پتلی گلی سے نکل لیے ہیں! وہ ہمیں ایسا کوئی بھی نسخہ اس لیے بتا نہیں پائے کہ اس حوالے سے وہ خود بھی اب تک محرومی کی منزل میں ہیں! 
ایسا نہیں ہے کہ مرزا کی زندگی سے کسی نے کچھ سیکھا ہی نہ ہو۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ تو سِکھا ہی سکتا ہے۔ ایک بار کسی مشہور اداکار سے پوچھا گیا کہ اچھی اداکاری سیکھنی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ اُس نے جواب میں کہا کہ جیتیندر‘ دھرمیندر اور انیل دھون کی فلمیں دیکھنی چاہئیں۔ سوال کرنے والا حیران رہ گیا۔ وہ سوچنے لگا دلیپ کمار‘ راج کپور‘ دیو آنند‘ امیتابھ بچن اور دوسرے بہت سے معیاری اداکار کہاں رہ گئے! جب وضاحت طلب کی گئی تو اُس اداکار نے کہا کہ دھرمیندر‘ جیتیندر‘ انیل دھون اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے اداکاروں کی فلمیں دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طور اداکاری نہیں کرنی ہے! مرزا کی ازدواجی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ اُن کے گھر کا ماحول دیکھ کر سیکھتے ہیں کہ گھر کو اچھی طرح کس طور چلایا جاتا ہے ‘یعنی یہ کہ مرزا کے گھر کی طرح نہیں چلانا! 
شریکِ حیات کی خوشی اور طولِ عمر سے متعلق تحقیق کا ایک ہی جملے میں جھٹکا کرتے ہوئے مرزا نے کہا ''یہ محققین ذرا بتائیں تو سہی کہ شریکِ حیات کو خوش کیسے رکھا جائے۔ بیوی خوش ہو تو شوہر خود کو ساتویں آسمان پر محسوس کرتا ہے‘ مگر بیوی کو خوش رکھنے کی جدوجہد کے دوران وہ جن گڑھوں میں گِر جاتا ہے‘ اُن سے نکالنے کا بھی کوئی طریقہ بتایا جائے!‘‘ ہم نے عرض کیا کہ شریکِ حیات کو خوش رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہیے وہ تو ہر شخص کرتا ہی ہے۔ میاں اور بیوی دونوں ہی ایک دوسرے کو خوش رکھنے کے لیے زندگی بھر کوشاں رہتے ہیں۔ یہ بات سن کر مرزا نے ہمیں انتہائی خشمگیں انداز سے گھورتے ہوئے سوال داغا ''اگر ایسا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی کس طور باندھی جائے گی؟‘‘ 
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ اچھی خاصی گفتگو کے ٹریک پر بِلّی اور گھنٹی کی ٹرین کہاں سے آگئی! مرزا نے ہمیں ایک بار پھر ویسے ہی خشمگیں انداز سے گھورتے ہوئے کہا ''سب جانتے ہیں کہ شریکِ حیات خوش ہو تو پورا ماحول ناچنے‘ گانے لگتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ شریکِ حیات کی خوشی کس بات میں ہے؟ یہ شماریات کی اصطلاح میں 'رینڈم‘ کا معاملہ ہے۔ بیوی کن کن باتوں سے خوش رہتی ہے یہ شوہر کو معلوم نہیں اور شوہر کو ہر حال میںکیسے خوش رکھنا ہے یہ بیوی کو معلوم نہیں۔ ماہرین ہر معاملے کو اسی طور چوراہے پر لاکر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی باندھو۔ یہ نہیں بتاتے کہ گھنٹی باندھی کیسے جائے۔‘‘ 
مرزا کی بات میں دم ہے۔ اولگا اور اُن کے معاونین نے فلم تو خوب بنائی‘ مگر اُس کا ''دی اینڈ‘‘ سوچا ہی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلم اچانک ختم ہوگئی اور لوگ ''دی اینڈ‘‘ کے بارے میں سوچتے رہ گئے کہ وہ ہیپی تھا یا ٹریجک! جو کچھ اولگا نے بتایا اور سمجھایا ہے اُس سے قطعِ نظر ہم نے تو اُنہیں زیادہ خوش اور پُرسکون دیکھا ہے‘ جن کا اپنی شریکِ حیات کے حوالے سے مجموعی رویہ یہ ہوتا ہے کہ آپ خوش رہیے ... ساڈی خیر اے! ؎ 
ہمارا کیا ہے‘ ہم تڑپیں مگر تم کو قرار آئے 
بس اتنا ہو کہ اپنے دل پہ ہم کو اختیار آئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں