"MIK" (space) message & send to 7575

رہا کھٹکا نہ چوری کا …

وزیر اعظم سے جرمنی اور فرانس کے معاملے میں جو 'چوک‘ ہوئی ہے اُس نے تو ہنگامہ ہی برپا کردیا۔ سبھی لٹھ لے کر وزیر اعظم کے پیچھے پڑگئے۔ وزیر اعظم کو کہنا یہ تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس اور جرمنی نے اپنی دشمنی بھلاکر سرحدی علاقے میں انڈسٹریل زون قائم کیا۔ روانی میں انہوں نے جرمنی کے ساتھ فرانس کی بجائے جاپان کا ذکر کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری جنگ ِ عظیم میں جرمنی اور جاپان اتحادی تھے اور ان کے درمیان جو فاصلہ ہے ‘وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 
وزیر اعظم عمران خان نے ساتھ ہی ساتھ افریقا کو ملک قرار دے دیا۔ سیدھی سی بات ہے‘ وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی تھی۔ کرکٹر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کرکٹ کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ اتنا تو وہ بھی جانتے ہی ہیں کہ فرانس اور جرمنی جُڑے ہوئے ہیں‘ جرمنی اور جاپان نہیں اور یہ کہ افریقا براعظم ہے‘ ملک نہیں۔ 
لطیفے پر لطیفہ یہ ہوا کہ یاروں نے جب وزیر اعظم کے بیان پر طنز کے تیر برسانے کی ٹھانی تو خود بھی بھنڈ فرمائے بغیر نہ رہ سکے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے جب جرمنی و جاپان والے بیان پر وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ایسے جذباتی ہوئے کہ براعظم کی جگہ برصغیر کہہ گئے! بہت خوب۔ ع 
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی 
زبان کے پھسل جانے کی روایت ہمارے ہاں خاصی مضبوط رہی ہے۔ اس ''تابندہ‘‘ روایت نے میڈیا والوں کو بھی خوش رکھا ہے اور عوام کو بھی۔ جب بھی کسی لیڈر کی زبان پھسلتی ہے‘ میڈیا والوں کے مزے ہو جاتے ہیں اور عوام بھی مزے لیتے ہیں۔ لینے بھی چاہئیں۔ بقول غالبؔ ؎ 
دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی 
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی 
میڈیا کو تو کچھ نہ کچھ ایسا چاہیے‘ جو عوام کے لیے دلچسپ ہو۔ جُھنجھنا جتنا زیادہ بجتا ہے‘ اُتنا ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہی حال زبان پھسل جانے کی صورت میں نکلنے والی بات کا ہے۔ ہونٹوں نکلی‘ کوٹھوں چڑھی کے مصداق جب کسی کی زبان پھسلتی ہے تو بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ جس کی زبان پھسلی ہو‘ وہ بے چارہ وضاحت ہی کرتا رہ جاتا ہے‘ کوئی سُننے کو تیار نہیں ہوتا۔ کوئی سُنے بھی کیوں؟ وضاحت سُن لی جائے تو سارا مزا جاتا رہتا ہے۔ 
ایک زمانے سے ہم شاہ سائیں ‘یعنی محترم سید قائم علی شاہ کی زبان کے پھسلنے کا مزا لیتے آرہے ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ کو اللہ نے ایسا ہنر بخشا ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ذرا سا کچھ ایسا ویسا کہہ جاتے ہیں اور ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ 
ایک بار کراچی میں بارش ہوئی تو شاہ سائیں شدت بتاتے وقت ملی میٹر کی جگہ میٹر کہہ گئے! بس‘ ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اب آپ لاکھ سمجھاتے پھریے کہ بھائی! سائیں کی عمر 90 کے آس کے پاس ہے۔ ایسے میں اُن کی زبان کے پھسلنے کو تو چھوڑیے‘ وہ خود بھی پھسل سکتے ہیں! اُنہیں کچھ تو رعایتی مارکس ملنے ہی چاہئیں۔ آپ کو بھی یاد تو ہوگا کہ شاہ سائیں نے ایک بار آصف علی زرداری کو مرحوم کہہ دیا تھا! 
شاہ سائیں کا کمال یہ ہے کہ پورے وجود کو تو اچھی طرح سنبھال لیتے ہیں‘ مگر زبان کو سنبھالنے پر کچھ خاص متوجہ نہیں دیتے۔ اُن کا یہ کمال ہم جیسوں کیلئے نعمت سے کم نہیں۔ ہم تو منتظر رہتے ہیں کہ شاہ سائیں مہربانی فرماکر کوئی بھنڈ فرمائیں اور قلم کو متحرک کرنے کی کچھ گنجائش پیدا ہو۔ شاہ سائیں کی زبان کی پھسلن کے بطن سے ہمارے کئی کالم پیدا ہوئے ہیں! کبھی کبھی ہم نے محسوس کیا ہے کہ جب بہت دن تک شاہ سائیں کی زبان نہیں پھسلتی تو وہ از خود نوٹس کے تحت زبان کو تھوڑا سا پھسلنے دیتے ہیں‘ تاکہ لوگوں کی مراد بر آئے‘ کچھ کہنے سُننے کو ہو۔ 
شاہ سائیں نے 85 سال کی عمر میں بھی سندھ اسمبلی میں قائد ایوان کی حیثیت سے ڈھائی ڈھائی گھنٹے کی تقریر کی ہے۔ اب اس سے بڑھ کر سٹیمنا کوئی کہاں سے لائے؟ ایسے میں اگر کسی مرحلے پر زبان تھوڑی سی پھسل بھی جائے تو کیا ہے۔ 
ایک بار بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی زبان ایسی پھسلی کہ لوگ (اپنے) سَر پکڑ کر رہ گئے۔ انہوں نے شدتِ جذبات میں کہہ دیا ڈگری ڈگری ہوتی ہے ‘چاہے اصلی ہو چاہے جعلی۔ اس بیان پر بہت لے دے ہوئی۔ نواب صاحب کا ایسا تمسخر اڑا کہ الحفیظ و الامان۔ اب نواب صاحب نے یونیورسٹی جانا شروع کردیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ (اصلی ڈگری کے لیے) ایم فِل کر رہے ہیں۔ بڑی بات ہے کہ اُنہوں نے ڈگری والے بیان پر قوم سے معافی بھی مانگی ہے۔ 
کئی شرمناک مراحل سے گزرتی ہوئی ہماری سیاست اب اُس مقام پر آچکی ہے‘ جہاں ہر طرف صرف خرابیاں اور الجھنیں ہیں اور خرابیاں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ کوئی کب تک حیران ہوتا رہے؟ اب ایک زبان کے پھسل جانے کو کیا روئیے کہ یہاں تو سبھی کچھ پھسل اور لڑھک کر کہیں کا کہیں جاچکا ہے۔ خرابیوں کا اندازہ لگانے نکلیے تو اپنے ہی گم ہو جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ آنکھوں کے سامنے کی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی۔ بہت کچھ ہے جو علم میں ہے‘ مگر ایسا لگتا ہے ‘جیسے ہم کچھ جانتے ہی نہیں۔ 
مرزا تنقید بیگ کا ایک بنیادی اور بہت حد تک جائز نکتۂ اعتراض یہ ہے کہ لوگ کسی کی زبان کے پھسل جانے کی راہ کیوں دیکھتے ہیں کہ اب تو جو کچھ کہا جارہا ہے ‘وہ پورا کا پورا زبان کے پھسل جانے کے زُمرے میں آتا ہے! مرزا کے منہ سے نکلنے والی چند ہی باتیں ہیں جو ہم سے ہضم ہو پاتی ہیں یا ہم جنہیں بہت حد تک قابلِ قبول گردانتے ہیں۔ یہ بھی ایسی ہی بات ہے۔ مرزا کا استدلال ہے کہ میڈیا پر آکر بولنے والوں کی اکثریت کو بولتے وقت یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ کتنا بولنا ہے‘ کس کے بارے میں بے لگام لہجہ اختیار کرنا ہے اور کس کی بات کرتے وقت احتیاط کا دامن اچھی طرح تھامے رہنا ہے۔ اب تو بات بات پر زبان پھسلتی ہے اور پھسلتی بھی اس طرح ہے کہ کئی باتیں لُڑھکتی چلی جاتی ہیں۔ لُڑھکی ہوئی باتیں قدم قدم پر پیروں سے لپٹتی ہیں۔ بچ کر نہ چلیے تو گر جانے کا احتمال رہتا ہے۔ کسی ایک معاملے میں زبان پھسل جائے تو ماتم کیا بھی جائے۔ یہاں تو ہر بات ہی ایسی ہے کہ ع
کس کس کی بات کیجیے‘ کس کس کو روئیے 
مرزا کی بات میں دم ہے۔ دال میں کالا ہو تو فکر مند ہوئیے۔ جب پوری دال ہی کالی ہو تو کیسی تشویش؟ کہاں کا دھڑکا؟ دامن پر داغ ہو تو سَر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جب پورا دامن داغ دار ہو تو پھر کیسی شرم؟ ؎ 
درد ہو دل میں تو دوا کیجیے 
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجیے
حق تو یہ ہے کہ اب کسی بھی بات پر چونکنے کی اور کوئی دھڑکا لاحق ہونے کی گنجائش خال خال بچی ہے۔ بقول غالبؔ ؎ 
نہ لُٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا 
رہا کھٹکا نہ چوری کا‘ دُعا دیتا ہوں رہزن کو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں