افغانستان میں حقیقی امن کی بحالی اب تک بہت دُور کی منزل ہے۔ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوششیں تواتر سے جاری ہیں۔ افغانستان کی ارضی ساخت ناہموار ہے۔ کہیں پہاڑ ہیں اور کہیں سنگلاخ راستے۔ ایسی سرزمین پر سفر انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ افغان امن عمل کا بھی ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جو بات چیت ہو رہی ہے‘ وہ اب تک زیادہ بارآور تو خیر ثابت نہیں ہوئی‘ مگر ہاں‘ فریقین اب تک بات چیت جاری رکھنے پر رضامند ہیں۔ یہ خاصی حوصلہ افزاء علامت ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ جلد از جلد افغانستان سے پنڈ چھڑایا جائے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر تھوپی جانے والی جنگ نے امریکا کو دنیا بھر میں ذلت سے دوچار کیا ہے۔ امریکی پالیسی میکرز کو بھی اندازہ ہے کہ اس سلسلے کو اب زیادہ دیر اور دُور تک نہیں چلایا جاسکتا۔
دوسری طرف طالبان قدرے بہتر پوزیشن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اب تک کسی بھی مرحلے پر ''جھکائی‘‘ نہیں دی ہے۔ وہ دبنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے اب تک مکمل سیزفائر پر بھی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔ بھرپور کوشش یہ ہے کہ امریکا سے زیادہ سے زیادہ ایڈوانٹیج لیا جائے۔ یہ ایڈوانٹیج کیا ہوسکتا ہے؟ یہی کہ امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد طالبان کی راہ میں کوئی قابلِ ذکر رکاوٹ نہ رہے۔
یہ سب کچھ کابل انتظامیہ کو گوارا نہیں۔ اس کا سبب ناقابلِ فہم نہیں۔ امریکا اور طالبان نے مذاکرات کے حوالے سے کابل انتظامیہ کو اہمیت دینے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ فریقین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت کابل میں جو لوگ حکومتی نظم و نسق چلا رہے ہیں‘ وہ قوم کے حقیقی نمائندے نہیں اور اس اعتبار سے ان کی سیاسی وقعت بھی زیادہ نہیں۔ ایسے میں کابل انتظامیہ چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اُسے بھی مذاکراتی عمل میں قابلِ قدر اور قابلِ ذکر مقام دیا جائے۔
طالبان نے امریکا سے مذاکرات کے دوران اب تک جو posture رکھا ہے‘ وہ قابلِ تعریف ہے۔ اُن کی ٹیم میں جدید ترین تعلیم و تربیت کے حامل افراد بھی ہیں۔ اب تک جو بات چیت ہوئی ہے ‘اُس میں طالبان نے کسی بھی مرحلے پر let up نہیں کیا ہے۔ یہی بات ''دشمنوں‘‘ کو کَھل رہی ہے۔ مخالفین بھلا یہ کس طور برداشت کرلیں کہ جن طالبان کو کچلنے کے لیے امریکا اور اس کے مغربی و مشرقی اتحادیوں نے افغان سرزمین کا رخ کیا تھا وہ اب تک ایک مضبوط و روشن حقیقت کی حیثیت سے موجود ہیں!
کابل انتظامیہ کے لیے افغان امن عمل میں موقر مقام و کردار کا حصول ایک بڑا ٹاسک ہے ‘جو تاحال یقینی نہیں بنایا جاسکا۔ اس حوالے سے بدحواسی کس حد تک بڑھ گئی ہے ‘اُس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں دوحہ میں مذاکرات کے لیے کابل سے سرکاری وفد کو مدعو کیا گیا ‘تو 17 اپریل کو کابل انتظامیہ نے اعلان کیا کہ یہ وفد 253 ارکان پر مشتمل ہوگا۔ اس پر طالبان کہا کہ یہ بات چیت کا معاملہ ہے‘ کوئی ولیمے کی دعوت نہیں!
طالبان کہتے ہیں کہ کابل میں جو حکومت قائم ہے ‘وہ کٹھ پتلی نوعیت کی ہے اور کسی بھی حیثیت میں نمائندہ نہیں۔ ایسے میں اُس سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں۔ کابل میں جو لوگ حکومتی امور کسی نہ کسی طور چلا رہے ہیں وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ طالبان کا اس وقت یہ حال ہے کہ امریکا کے معاملے میں بھی وہ subjugation‘ یعنی غلامانہ انداز کی فرماں برداری و تابع داری کیلئے تیار نہیں تو امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے بعد اُنہیں زیر کرنا کیونکر ممکن ہوسکے گا!
ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ کابل کے حکمران ملک بھر میں عمائدین کو بھی کو اپنی طرف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک گیر نوعیت کا لویہ جرگہ بلایا ہے۔ اس لویہ جرگے میں چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ شریک ہیں‘ نہ سابق صدر حامد کرزئی۔ بہت سے عمائدین بھی نہیں آئے۔ اس جرگے کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جانی تھی کہ طالبان امریکا کے جانے کے بعد کی صورتِ حال کے لیے تیار رہیں کہ باقی لوگ متحد ہیں۔ یہ سرکاری فلم فلاپ ہوگئی ہے۔ اندرونی اختلافات مزید ابھر کر سامنے آئے‘ کیونکہ بعض رہنماؤں نے تو اسے انتخابی مہم اور وقت کا ضیاع بھی قرار دیا ہے۔
مذاکرات کے حوالے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا کردار بھی متنازع ہوتا جارہا ہے۔ وہ نسلی اعتبار سے افغان ضرور ہیں‘ مگر کسی بھی اعتبار سے طالبان کے ہم مشرب و ہم نظر نہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ مذاکرات کے دوران اُن کا رویہ بات چیت کے مجموعی ماحول کے حوالے سے زیادہ مثبت نہیں رہا۔ انہوں نے بیرونی سٹیک ہولڈرز کے حوالے سے قابلِ اعتراض بات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ پاکستان کے حوالے سے اُن کی رائے زیادہ موافق نہیں لگتی۔ وزیر اعظم عمران خان کی ایک بات دانتوں سے پکڑ کر انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان مداخلات کرتا رہا ہے!
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا کو سالِ رواں کے آخر تک افغانستان سے بوریا بستر لپیٹ لینا ہے۔ تو کیا اُنہیں اپنی ہی ایڈمنسٹریشن میں افغان امن عمل کے مخالفین کا سامنا ہے؟ زلمے خلیل زاد نے اب تک جو رویہ اختیار کیا ہے‘ وہ امن پسندی سے ہٹ کر کچھ اور بتاتا ہے۔ افغانستان میں حقیقی امن کی بحالی خطے کی اشد ضرورت ہے۔ چین اور روس کا مفاد بھی افغانستان کے امن سے وابستہ ہے۔ اس معاملے میں بھارت اب تذبذب کا شکار ہے۔ اُس نے افغانستان میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کابل میں قائم ہونے والی طالبان مخالف حکومتوں سے پینگیں بڑھاکر اُس نے بہت حد تک حالات کو اپنے خلاف کیا ہے۔ اب افغانستان میں زمینی حقیقت خاصی بدلی ہوئی ہے۔ طالبان بیشتر معاملات میں برتری لیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بھارت کے لیے بھی افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنا لازم ہوگیا ہے۔
افغانستان میں امن کی سب سے زیادہ ضرورت پاکستان کو ہے ‘کیونکہ پاکستان میں رونما ہونے والی مثبت تبدیلیوں کی بقاء کے لیے یہ امن لازم ہے۔ چین اور روس بھی چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین پر قتل و غارت کا سلسلہ ختم ہو۔ ایسے میں یہ بات تھوڑی سی پریشان کن ہے کہ امریکا اور طالبان تو بات چیت کر رہے ہیں‘ مگر کابل کے حکمرانوں کو گھاس نہیں ڈالی جارہی۔ یہ کٹھ پتلی اپنا تماشا تو کرے گی۔ کابل کو تھوڑی بہت وقعت درکار ہے اور وہ مل نہیں پارہی۔ یہ تو تقدیر کا کھیل ہے۔ کل تک طالبان کو نیچا دکھانے کے لیے کابل کے کٹھ پتلی حکمران اِدھر اُدھر سے شہ پاکر اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہے تھے۔ اب وقت کا پہیہ الٹا گھوم گیا ہے اور بازی پلٹ گئی ہے۔ طالبان کے خلاف باقی ماندہ افغانستان ایک پیج پر آگیا تھا۔ اب ملک کے سٹیکز کا نئے سِرے سے تعین کیا جارہا ہے۔ کس کے حصے میں کیا آتا ہے یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ ویسے کابل انتظامیہ کے لیے ع
پھرتے ہیں میرؔ خوار‘ کوئی پوچھتا نہیں
والی کیفیت فی الحال تو ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ جو کچھ طالبان کے خلاف سترہ اٹھارہ سال میں کیا گیا ہے‘ وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ آسانی سے بھلایا یا نظر انداز کردیا جائے۔ حامد کرزئی‘ عبدالرشید دوستم‘ عبداللہ عبداللہ اور اُن کے ہم خیال افراد کو پہلے سوچنا تھا کہ ع
اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے!