ماہِ صیام ایک بار پھر مقدر بنا ہے۔ ہر سال اس ماہِ مبارک کے دوران روح کی تطہیر کا سامان ہوتا ہے۔ تیس روزہ روح پرور ماحول میں ہم ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ زندگی کسی اور دھارے کے ساتھ بہہ رہی ہوتی ہے۔ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک ماہ تک سارا ماحول صریح انبساط اور شگفتگی سے ہم کنار رہتا ہے اور ایسے میں ہم وہ روحانی مسرت بخوبی پارہے ہوتے ہیں جس کا سال بھر صرف خواب دیکھا جاتا ہے۔
رمضان روح کی سَرخوشی کے لیے ہے۔ اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر بھوکے پیاسے رہنے کا لطف کچھ اور ہے اور عبادات میں مگن رہنے کی سعادت الگ ہے۔ اللہ نے ہمیں دوسروں کی پریشانیاں دور کرنے کے حوالے سے جو ذمہ داری سونپ رکھی ہے اُس سے متعلق جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بھی رمضان ہی میں ہو پاتا ہے۔ سال بھر جو کچھ کمایا ہو اُس میں سے بچ رہنے والے مالیاتی وسائل پر عائد کی گئی زکوٰۃ بھی ماہِ صیام کی آمد ہی پر نکالی جاتی ہے۔ کمزور حیثیت کے حامل اور نادار افراد کی بروقت اور کماحقہ مدد کرنا ہمارے لیے محض آپشنل معاملہ نہیں بلکہ فرض ہے۔ اس فرض سے سبکدوش نہ ہونے والے اللہ کے باغی کہلاتے ہیں اور باغی بھی اس حد تک کہ اُن سے جنگ تک جائز‘ بلکہ کم و بیش لازم ہے۔ واضح نَص یہ ہے کہ پہلے خلیفۂ راشد نے ریاست کو زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں سے باضابطہ اعلانیہ جنگ کی تھی۔ ہمارے ہاں اب تک زکوٰۃ کے حوالے سے ذہنوں میں بہت سے بے بنیاد تصورات پائے جاتے ہیں۔ زکوٰۃ اللہ کی طرف سے ہر صاحبِ نصاب مسلم پر عائد کیا جانے والا ٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس ادا کیے جانے تک کسی بھی صاحبِ نصاب مومن کا مال پاک نہیں ہوسکتا۔ پاکی کے تصور نے ذہنوں میں الجھنیں پیدا کی ہیں۔ بیشتر مسلمان زکوٰۃ کو ایسا ناپاک مال سمجھتے ہیں جس کے نکالے جانے سے مال پاک ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ شدید پریشانی کے عالم میں بھی زکوٰۃ کی رقم یا اس رقم سے بنائی اور خریدی جانے والی کوئی چیز لینا پسند نہیں کرتے۔ اور معاملہ محض یہاں تک نہیں رہا ہے‘ اگر کوئی مالی مشکلات سے دوچار ہو اور اُس سے کہیے کہ زکوٰۃ لے کر اپنی مشکلات آسان کرلے تو بُرا مان جاتا ہے۔ بہت سوں نے تو اللہ کے عائد کردہ اس ٹیکس کی رقم سے کچھ لینے کو اپنے لیے گالی کے مترادف قرار دے رکھا ہے۔
عام مسلمان کے ذہن میں صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ ایک پیج پر ہیں۔ عمومی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان تین مدوں میں نکالی جانے والی رقوم وصول کرنے کا حق صرف انتہائی نادار افراد کا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ تصور بھی ذہنوں میں خاصا راسخ ہوچکا ہے کہ اگر زکوٰۃ وصول کی تو لوگ ناداروں میں شمار کریں گے۔ صدقہ و خیرات کی مد میں رقم اس تصور کے ساتھ دی جاتی ہے کہ دینے والے کی پریشانیاں ختم ہو یا پھر منتقل ہوجائیں! بالخصوص صدقہ اسی تصور کے تحت دیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں زکوٰۃ‘ خیرات اور صدقات کے بل پر جینے والوں کا ایک پورا طبقہ پایا جاتا ہے۔ ملک کے ہر بڑے شہر اور قصبے میں ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں ملتے ہیں جن کی گزر بسر ہاتھ پھیلاکر مانگے جانے والے مال پر ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اہلِ ایمان کی سخاوت اور فیاضی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں اور مستحقین کا حق مارتے ہیں۔
پاکستان بھر میں نادار افراد کو نوازتے رہنے کا رجحان بالعموم سال بھر برقرار رہتا ہے اور ماہِ صیام کے دوران یہ رجحان غیر معمولی تقویت پاتا ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جنہیں مانگنے کی عادت پڑ جائے وہ حالات بہتر بنانے کے بجائے انہیں مزید بگاڑنے پر تُلے رہتے ہیں تاکہ بگڑے ہوئے حالات کو جواز بناکر مزید وصولی کی جاسکے۔ بہت سی خرابیوں سے اٹا ہوا ہونے کے باوجود پاکستانی معاشرہ کئی معاملات میں اب بھی اطمینان بخش حد تک intact ہے۔ فیاضی اور غریب پروری کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ معاشرہ اب بھی مجموعی طور پر غریب پرور ہے۔ جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ جائز مدد حاصل کرنے سے بھی دست کَش رہتے ہیں اور جن کا ذرا بھی حق نہیں بنتا وہ اُن کے حصے کا مال لے اُڑتے ہیں۔
ریاست زکوٰۃ وصول کرکے اُسے مختلف مدوں میں استعمال کرتی ہے۔ سب سے بڑی مدد نادار افراد کو رقم فراہم کرنے کی ہے۔ اس مد میں جنہیں مدد ملتی ہے اُن میں بڑی تعداد ایسے ''نادار‘‘ افراد کی ہے جو بہت حد تک مستحق ہی نہیں۔ ان لوگوں نے سرکاری اور نجی ذرائع سے زکوٰۃ کی وصولی کو دھندا بنالیا ہے۔ ایثار بے مثال وصف ہے۔ معاشرے کی خوش حالی ہی نہیں‘ بقا کے لیے بھی یہ وصف لازم ہے۔ جس انسان میں یہ وصف پایا جاتا ہے وہ معاشرے کے لیے ایک اثاثے کے مانند ہوتا ہے۔ معاشرہ اُن کے دم قدم سے زندہ رہتا ہے جو دوسروں کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ ایسے میں انہیں کچھ شرم محسوس کرنی چاہیے جو کسی جواز کے بغیر دوسروں کے ایثار سے غیر ضروری فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جنہیں اللہ نے فیاض پیدا کیا ہے وہ کسی کو ذرا سی پریشانی سے دوچار دیکھنے پر پریشان ہو اُٹھتے ہیں اور فوراً دستِ تعاون دراز کردیتے ہیں۔ جنہیں فی الواقع مدد کی ضرورت نہ ہو اُنہیں مدد وصول کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ غیرت کا تقاضا ہے۔
جن کے مزاج میں ایثار گوندھ دیا گیا ہے انہیں بھی یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے جو کچھ خرچ کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقی مستحق یا مستحقین تک پہنچے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی جتنی فضیلت ہے اُتنی ہی فضیلت اس بات کی بھی ہے کہ حقیقی مستحقین کو شناخت کرکے اُن تک پہنچا جائے اور ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی اُن کی مدد کی جائے۔ ایثار کسی بھی معاشرے کے لیے ایک انتہائی بنیادی قدر ہے۔ یہ قدر نہ ہو تو بہت کچھ ملیا میٹ ہوجائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جنہیں اللہ نے بڑا دل دیا ہے وہ جب دینے پر آتے ہیں تو سوچے سمجھے بغیر‘ شہنشاہ کی طرح‘ جس تِس کو نوازنے لگتے ہیں۔ ایسے میں مستحقین تو شرم اور ہچکچاہٹ کے مارے ایک طرف کھڑتے رہ جاتے ہیں یا کونوں کُھدروں میں دُبک جاتے ہیں اور کسی ضرورت یا جواز کے بغیر اپنی جیبیں بھرنے والے سامنے آکر سارا مال لے اُڑتے ہیں۔ ایک طبقہ تو پیشہ ور بھکاریوں کا ہے جو ہمیں سڑکوں پر اور گلیوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرا طبقہ اُن کا ہے جو باضابطہ بھیک تو نہیں مانگتے مگر ہر سخی اور فیاض انسان پر نظر رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی اُلٹی سیدھی رام کہانی سناکر مال لے اُڑتے ہیں۔ ایسے لوگ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
والی سوچ کے اسیر ہوتے ہیں یعنی کسی نہ کسی طور جیب بھری رہنی چاہیے اور زندگی بھرپور سہولت کے ساتھ گزرنی چاہیے۔ زور اس نکتے پر رہتا ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرتعیش بنانے کا تقریباً پورا انتظام و اہتمام دوسروں کی کمائی سے کیا جائے۔
جنہیں اللہ نے خوب نوازا ہے اور ایثار کا جذبہ بھی رکھتے ہیں انہیں اللہ کی راہ میں کچھ بھی خرچ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو کچھ بھی اُن کی جیب سے نکل رہا ہے وہ حقیقی مستحقین تک پہنچے۔ اور حقیقی مستحقین کو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کی جانے والی رقم لینے سے بلا جواز طور پر مجتنب نہیں رہنا چاہیے۔