ماہِ صیام کے دوران اب تک اللہ کا خاص کرم رہا ہے کہ گرمی نے اپنا جلوہ نہیں دکھایا۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں موسم خاصا معتدل رہا ہے۔ لوگ ڈر رہے تھے کہ کہیں چار سال پہلے والی ہیٹ ویو نہ آجائے۔ صد شکر کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہاں‘ سیاسی فضاء میں گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ اچھی خاصی کوشش کے باوجود حکومت اب تک درست سمت کا تعین نہیں کرسکی اور اس کا نتیجہ بھی بھگت رہی ہے۔
عمران خان کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوتے ہی شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ مالیاتی سطح پر جو خرابیاں تھیں ‘وہ دور کرنے کی بھرپور کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران اسٹاک مارکیٹ میں ڈیڑھ ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے‘ جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے آنے والی امداد بھی اب تک اپنا جادو جگانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ سعودی عرب سے تیل اُدھار مل رہا ہے‘ مگر اس سے اہلِ پاکستان کو اب تک کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا۔ یو اے ای نے بھی دستِ تعاون دراز کیا ہے۔ چین بھی پیچھے نہیں رہا۔ اس کے باوجود کوئی حقیقی ٹھوس نتیجہ تاحال برآمد نہیں ہوسکا۔
کیوں؟ اس ''کیوں‘‘ نے وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ قوم ہر معاملے میں ''کیوں‘‘ کا ڈول ڈال رہی ہے۔ قوم سوال پر سوال کر رہی ہے اور حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ ؎
نظر میں الجھنیں‘ دل میں ہے عالم بے قراری کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سکوں پانے کہاں جائیں؟
دوسری طرف اپوزیشن ہے ‘جو ہر گزرتے ہوئے لمحے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کرتی جارہی ہے۔ اب محسوس کیا جارہا ہے کہ عیدالفطر کے بعد کچھ کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ اختلافات معمولی ہوں یا غیر معمولی‘ اُنہیں ایک طرف ہٹاکر ایک پیج اور ایک پلیٹ فارم پر آنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ہی نے بظاہر ذہن بنالیا ہے کہ اب حکومت کو کچھ کرنے نہیں دینا‘ چلنے نہیں دینا۔
یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ اپوزیشن اُس حکومت کو کچھ کرنے نہیں دینا چاہتی ‘جو کچھ کر ہی نہیں پارہی! بہت سوں کے خیال میں تو اپوزیشن کی طرف سے چلائی جانے والی کوئی تحریک ''مرے کا مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف ہوگی! بعض سیانے کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کچھ نہ کرے یعنی خواہ مخواہ ''قتل‘‘ کا الزام اپنے سَر نہ لے! یعنی یہ کہ اس حکومت کو اپنے ہی بوجھ تلے گِر جانے دے۔ واضح رہے کہ بوجھ والی بات وزیر اعظم کی ٹیم میں فردوس عاشق اعوان کی شمولیت کی بنیاد نہیں کہی جارہی! حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنے سَر کا بوجھ خود بڑھا رہی ہے۔
قوم زبانِ بے زبانی سے کہہ رہی ہے ؎
ہم آس لگائے بیٹھے ہیں‘ تم وعدہ کرکے بھول گئے
یا صورت آکے دکھا جاؤ‘ یا کہہ دو ہم کو یاد نہ کر
وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی ٹیم پریشان ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ قدم قدم پر الجھنوں کا سامنا ہے اور جو کچھ اُس کی کیفیت ہے اُس پر غلام ربّانی تاباںؔ کا شعر یاد آتا ہے ؎
کچھ بتاؤ تو آخر‘ کیا جواب دوں اُس کو
اِک سوال کرتا ہے روز مجھ سے گھر میرا
حکومت کی اب تک کی جو ''کارکردگی‘‘ رہی ہے‘ اُس کے حوالے سے کچھ کہنا بہت ہمت کی بات ہے۔ بات ؛اگر حکومت کی کارکردگی کی ہو ‘تو وفاقی کابینہ کے ارکان کی بڑھکوں اور دعووں سے ہٹ کر میرزا نوشہ یاد آجاتے ہیں ۔ ع
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!
عمران خان کی پارٹی نے خیبر پختونخواکو چلایا تھا۔ اُن کی پارٹی کو صوبہ چلانے کا تجربہ تھا‘ مگر اس تجربے کو عمران خان کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ عمران خان انتظامی امور کی انجام دہی کے حوالے سے کورے رہے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنے اور حکومتی کام کاج سنبھالنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ حقیقت عمران خان اب بھی تسلیم کرلیں تو غنیمت ہے۔ وہ اب تک خود کو پارٹی یا حکومت کا قائد سمجھنے کی بجائے کپتان سمجھ رہے ہیں۔ چلئے‘ اگر وہ کپتان ہی ہیں ‘تب بھی میدان تو وہ نہیں! کرکٹ کے میدان میںکپتان کے ایک اشارے پر فیلڈ تبدیل ہو جاتی ہے۔ باؤلر تبدیل ہو جاتا ہے‘ بیٹسمین کا نمبر بدل جاتا ہے۔ حکومتی معاملات میں ایسا کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ کرکٹ یا کسی اور کھیل کے میدان میں اپنائی جانے والی حکمتِ عملی کو حکومتی معاملات پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان نے حکومت چلانے کے لیے جو ٹیم بنائی ہے وہ میرٹ کی بنیاد پر تو ہرگز نہیں۔ ہاں‘ مصلحتوں کی بنیاد پر ضرور ہے۔ اب‘ یہی دیکھیے کہ قوم کی طرف سے مطعون کیے جانے پر بھی وہ حکومتی معاملات سے جہانگیر ترین کو دور رکھنے میں تاحال ناکام رہے ہیں۔ اُن کی مجبوریاں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت بھی تو اپنی جگہ کہ جہانگیر نا اہل قرار دیئے جاچکے ہیں اور اب انہیں حکومت معاملات میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کی مجبوریوں کی یہ ایک معمولی مثال ہے۔
جنہیں سیاسی میدان میں ہونے والی معرکہ آرائی دیکھنے کا شوق ہے‘ وہ تو بہت خوش ہیں کہ میٹھی عید کے فوراً کڑوا ماحول پیدا ہونے والا ہے۔ یہ تماشا قوم ڈھائی تین عشروں سے دیکھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں کیا دے پاتا ہے؟ یا کیا دیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ حکومت کو گرانے کے حوالے سے اپوزیشن کی کوششیں میڈیا کے محاذ پر گرما گرمی پیدا کرتی ہیں اور قوم یہ تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ بہت سے پاکستانی اس تماشے کے عادی‘ بلکہ ''دھتّی‘‘ ہوچکے ہیں۔ اس تماشے کا کوئی نقصان اگر پہنچتا ہے تو صرف قوم کو۔ اور ظاہر ہے ملک کو بھی۔ قوم یعنی غرباء بلکہ غریب الغربائ۔ جن کے پیٹ بھرے ہیں‘ اُن پر کس بات کا اثر مرتب ہونا ہے؟ جس کے پَلّے کچھ نہیں اُس کی شامت آتی ہے۔ خیر‘ حکومت کو بہت کچھ سوچنا ہے۔ ماہِ صیام کی بابرکت اور روح پرور ساعتوں میں عمران خان خوب سوچیں اور اُس تلخی کا توڑ ابھی سے تیار کریں جو میٹھی عید کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اپوزیشن اگر اپنا کام کر رہی ہے تو وزیر اعظم بھی اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کچھ کریں۔ حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے وہ بڑھکوں‘ دعووں اور وعدوں کے چیستان سے باہر آئیں اور زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ یہ پہلا سال ہے اور مینڈیٹری اوورز شروع ہوتے دکھائی دے رہے ہیں!
غلط فیصلوں سے گریز لازم ہے۔ سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کھدائی غلط فیصلہ تھا۔ قوم کو 14 ارب روپے کا جھٹکا یا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ ایسا ایک آدھ اور غلط فیصلہ کام تمام کردے گا۔ عیدالفطر کے بعد اپوزیشن جو کچھ کرنے والی ہے اُس کے حوالے سے عمران خان اور اُن کی ٹیم کو محض بیانات‘ انٹرویوز اور چینلز پر بحث و تمحیص کی سطح سے بلند ہوکر کچھ ٹھوس کرنا ہوگا۔ عمران خان سپورٹس مین ہیں۔ اُن سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ کارکردگی بولنی چاہیے! وقت آگیا ہے کہ اُن کی اور اُن کے ٹیم کی کارکردگی بولنا شروع کرے۔ گونگے بنے رہنا کسی بھی درجے میں آپشن نہیں۔ وزیر اعظم کو کسی نہ کسی طور عوام کے لیے کچھ ریلیف کا اہتمام کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے آغوش میں سماکر عوام کی حق تلفی کرتے چلے جانا‘ اُن کی حکومت کی بنیادیں ہلادے گا۔ ذہن نشین رہے کہ بنیادی سہولتوں پر اضافی نرخوں کا کلہاڑا چلاکر عمران خان کسی اور چیز پر نہیں‘ بلکہ اپنی حکومت کی جڑوں پر کلہاڑا چلائیں گے۔