"MIK" (space) message & send to 7575

لیجیے‘ پھر آگئی عید شاپنگ !

1940ء کی دہائی کے اوائل میں سہراب مودی نے ایک شاہکار فلم بنائی تھی۔ ''پکار‘‘ کی کہانی منفرد تھی۔ اس میں دِکھایا گیا تھا کہ شہنشاہ جہانگیر کے چلائے ہوئے تیر سے ایک دھوبن کا شوہر ہلاک ہو جاتا ہے۔ دھوبن اپنا کیس لے کر جب دربار تک آتی ہے‘ تب بات ''مغل انصاف‘‘ تک پہنچ جاتی ہے۔ فلم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مغل اپنی آن بان اور شان کا خیال تو رکھتے ہی تھے‘ انصاف کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر نے تو ایک زنجیر بھی لٹکا رکھی تھی‘ جسے ہلانے پر گھنٹہ بجتا تھا۔ انصاف کے حصول کیلئے کسی بھی شخص کو یہ زنجیر ہلانے کی اجازت تھی۔ خیر‘ بات ہو رہی تھی ''پکار‘‘ کی۔ اس فلم میں پری چہرہ نسیم بانو کے گائے ہوئے ایک گیت کا مطلع تھا ؎ 
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے 
بج رہا ہے اور بے آواز ہے 
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ختم ہونے کو ہے۔ بازاروں کی رونقیں نقطۂ عروج کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ شوہروں کی حالت کیا زیادہ ہے ۔ قابلِ غور یا قابلِ رحم! زن کے وجود سے جب پوری تصویرِ کائنات میں رنگ ہے‘ تو پھر بازاروں کی رونق اُن کے دم سے کیوں نہ ہو؟ خواتین کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں اور شوہر بے چارے بچے اور خریدے ہوئے سامان کے پیکٹ سنبھالنے کی ڈیوٹی انجام دے دے کر ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا کہ زندگی کا ساز ایسا عجیب ہے کہ بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔ شوہر کی مثال بھی زندگی کے ساز کی سی ہے۔ وہ بھی بج رہا ہے اور آواز نہیں آرہی۔ ''باوثوق ذرائع‘‘ کا کہنا ہے کہ بیویوں کے ہاتھوں مردوں‘ یعنی شوہروں کی ایسی درگت بنی ہوئی ہے کہ معاملہ کچھ کا کچھ ہوچکا ہے۔ شوہر پہلے کوئی اور ساز ہوا کرتے تھے‘ مگر بجتے بجتے اب ڈھول میں تبدیل ہوچکے ہیں! 
مہنگائی نے قیامت ڈھا رکھی ہے‘ کمر توڑ رکھی ہے۔ قیامت کا تو ہمیں کچھ خاص علم نہیں‘ کمر کا اگر پوچھنا ہے تو کسی بھی شوہر سے پوچھ دیکھیے ‘کیونکہ کمر تو اُس بے چارے ہی کی ٹوٹی ہے۔ بیگمات کی کمر سلامت ہے ‘تبھی تو عید شاپنگ کے نام پر بازاروں کے چکر پہ چکر لگ رہے ہیں۔ عید شاپنگ کے نام پر خواتین ڈی کے موڑ سے گول کرنے پر یقین رکھتی ہیں ‘یعنی ابھی شوہر اندازے ہی لگا رہے ہوتے ہیں کہ کب اور کتنی خریداری کی جائے اور خواتین خریداری کر بھی چکتی ہیں! ڈی کے موڑ سے کیے جانے والے گول ایسے تیز رفتار ہوتے ہیں کہ شوہر بے چارے ''گولچی‘‘ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے کِٹ ہی تیار کر رہے ہوتے ہیں کہ گیند جال کو چُھو جاتی ہے! 
مرزا تنقید بیگ ایسی صورتِ حال کے حوالے سے ہمیشہ نالاں رہے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ بھابھی بھی عورت ہی ہیں اور وہ عورت ہی کیا جو عید‘ بقر عید کے موقع پر شوہر کو آزمائش میں نہ ڈالے! 
رمضان کا دوسرا عشرہ ختم ہوتے ہوتے مرزا کی بھی دوڑیں لگنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بھابھی انہیں ساتھ لے کر بازار بازار گھومتی ہیں۔ کہیں ایک چیز رہ جاتی ہے تو دوبارہ جانا پڑتا ہے۔ کبھی کچھ بدلوانا ہو تو پھر جانا پڑتا ہے۔ اور مرزا بے چارے ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ کی تصویر بنے بھابھی کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے ہیں۔ ''مغل اعظم‘‘ میں پرتھوی راج کپور (شہناہ اکبر) نے دلیپ کمار (شہزادہ سلیم) سے کہا تھا ''اور تم کر بھی کیا سکتے ہو؟‘‘ اس کے جواب میں دلیپ کمار کا کہنا تھا ''ایک عظیم الشان شہنشاہ کے سامنے کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟‘‘ بالکل ایسا ہی معاملہ بھابھی (ملکۂ عالیہ) اور مرزا (خادمِ خاص) کا بھی ہے! دنیا چاہے اِدھر کی اُدھر ہو جائے اور سب کچھ بدلتا ہے تو بدل جائے ‘مگر ایک چیز نہیں بدلتی۔ یہ ہے؛ عید کی شاپنگ! شہر کے بازاروں میں کچھ دیر گھوم پھر کر دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ ٹی وی چینلز پر معیشتی بحران کے حوالے سے کی جانے والی ہر بحث لایعنی سی ہے۔ ماہرین ملک کیلئے خدا جانے کیسے کیسے خطرات گِنوا رہے ہیں۔ حکومت کبھی اس در پر جارہی ہے اور کبھی اُس در پر۔ جیسے تیسے ملک کو چلتا رکھنے کا انتظام و اہتمام کیا جارہا ہے اور اِدھر عوام ہیںکہ کچھ سیکھنے کو تیار نہیں اور عوام میں بھی بالخصوص خواتین۔ عید کی شاپنگ نہ ہوئی‘ راجپوت کی آن ہوگئی کہ جان جاتی ہے تو جائے‘ آن نہ جائے! 
باقی سب کچھ ایک طرف اور عید کی شاپنگ ایک طرف۔ شوہر اور بالخصوص تنخواہ دار شوہر رمضان کا آخری شروع ہوتے ہی سوچتے ہیں ع 
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو 
عید کے تین دنوں کا اہتمام کرنے کے حوالے سے خواتین کی محنت دیکھ کر خیال آتا ہے ‘اگر اتنی ہی محنت ہم سب اپنی زندگی کو بہتر اور ملک کو مضبوط بنانے کیلئے بھی کرلیا کریں تو دنیا ہماری مثال دیتے نہ تھکے۔ ہماری مثال تو وہ ہے کہ ؎ 
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آن سمجھا تھا میں 
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں 
بات ہو رہی ہے‘ عید شاپنگ کی۔ یہ خیر سے ایسی مد ہے کہ باقی ساری مدیں اس میں گم ہوکر رہ جاتی ہیں۔ کوئی کتنا ہی بڑا ماہرِ معاشیات ہو‘ اگر عید شاپنگ کا بجٹ بنانے بیٹھے تو خواتین اُس پر بجٹ خسارے کا الزام لگادیں! مرزا کہتے ہیں ''عید کی شاپنگ وہ بھٹی ہے ‘جس میں کسی سلطان کا خزانہ بھی جھونک دیا جائے تو کم ہے۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ خزانہ اپنی جان سے جائے گا اور خواتین کو مزا نہ آئے گا۔ ہماری جو کچھ بھی آمدنی ہے تم جانتے ہی ہو۔ وہی ہمارا خزانہ ہے اور ہم اپنا خزانہ ہر سال باقاعدگی سے اس بھٹی میں جھونکتے آرہے ہیں۔‘‘ ہم نے مرزا کو دلاسا دیتے ہوئے یاد دلایا کہ ہم بھی شادی شدہ ہیں ‘اس لیے اُن کا درد محض سمجھتے نہیں‘ بلکہ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں! کیسے نہیں سمجھیں گے؟ ایک ہی کشتی کے سوار تلاطم کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ 
مرزا نے اس معاملے کو کچھ زیادہ ہی دل پر لے لیا ہے۔ کبھی کبھی تو اس معاملے کو بیان کرتے کرتے اُن کا گلا رُندھ سا جاتا ہے‘ (ان کا) دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایک بار اُنہوں نے عید شاپنگ کی داستان بیان کرتے ہوئے خاصے دُکھی دل سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش! انشورنس کمپنیاں عید شاپنگ کے حوالے سے بھی انشورنس کیا کریں‘ تاکہ مہنگائی کے مارے شوہر بیویوں کو کارڈ تھماکر سکون کا سانس لیا کریں! ہمیں یقین ہے کہ اگر انشورنس کمپنیوں کو اس نوعیت کی کوئی باضابطہ تجویز پیش کی گئی تو وہ بوریا بستر لپیٹ کر ایسی غائب ہوں گی کہ ع 
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر 
والی کیفیت پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی 
تفنّن برطرف‘ جو ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے‘ جس نے گھر بسایا ہے‘ اُسے عید شاپنگ کی سرنگ سے تو گزرنا ہے۔ یہ سَودا اپنی مرضی کا تو ہے نہیں۔ نہ لینے کا آپشن ہے ہی نہیں۔ کبھی کبھی یہ احساس ابھرتا ہے کہ ع 
جو ہم پہ گزرنی ہے اک بار گزر جائے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں