"MIK" (space) message & send to 7575

تودا …ہل رہا ہے

کہانی یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی جگہ لینے کی تیاری کرنے والے تیزی اور زور پکڑ رہے ہیں۔ امریکا کے پڑوس میں‘ یعنی جنوبی امریکا میں برازیل بھی اپنی حیثیت منوانے کو بے تاب ہے۔ دوسری طرف چین تیزی سے اپنی حیثیت منواتا جارہا ہے۔ اُس کے پہلو بہ پہلو روس بھی چاہتا ہے کہ اُس کی کھوئی ہوئی حیثیت تھوڑی بہت تو بحال ہوجائے۔ روسی قیادت جانتی ہے کہ وہ عالمی سیاست میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ مگر پھر بھی وہ علاقائی سطح پر تو کسی حد تک اپنی پوزیشن بحال کر ہی سکتی ہے۔ 
امریکا کے لیے یہ سب کچھ سوہانِ روح ہے۔ اُس کی کم و بیش ایک عشرے کی چودھراہٹ خطرے میں پڑگئی ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک نے ڈھائی تین سو سال کے دوران بڑی طاقت ہونے کے مزے لوٹے ہیں۔ اس دوران یورپی طاقتیں مختلف مراحل سے گزری ہیں اور پنپتی رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ خود کو بدلنے میں کامیاب ہونے پر یورپی طاقتیں آج کی دنیا میں اچھی طرح ایڈجسٹمنٹ کے قابل ہوسکی ہیں۔ یورپ نے اپنا راستہ مجموعی طور پر الگ کرلیا ہے۔ چین کی طرح وہ بھی اب بہت حد تک ''نرم قوت‘‘ کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ فی زمانہ پنپنے کا یہی اچھا طریقہ ہے۔ 
امریکا نے کم و بیش سات عشروں تک ہر خطے میں خرابیوں کا بازار گرم کیا ہے۔ ''سخت قوت‘‘ یعنی عسکری سکت کے ذریعے وہ کمزوروں کو دباتا آیا ہے اور ہر خطے میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش متعدد ممالک کے حالات اس حد تک خراب کیے ہیں کہ اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں ہو پارہے۔ امریکی قیادت کو اس بات کی چنداں پروا نہیں رہی کہ اُس کی مرتب کی ہوئی پالیسیوں کے ہاتھوں کس پر کون سی قیامت گزرتی ہے۔ سارا زور اِس بات پر ہے کہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے۔ 
مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کے دوران کبھی کبھی ہاتھ اوچھا بھی پڑ جاتا ہے۔ افغانستان میں یہی ہوا۔ طالبان کی حکومت ختم کرکے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بھرپور خرابی مسلط کی۔ اس کے نتیجے میں پورا خطہ متاثر ہوا۔ اب امریکا کو اپنی ہی پالیسی کے ہاتھوں ہزیمت و ذلت کا سامنا ہے۔ امریکی قیادت کو افغانستان سے پنڈ چھڑانے کے لیے طالبان سے بات چیت پر آمادہ ہونا پڑا ہے۔ مذاکرات کی میز پر طالبان نے اب تک پکڑائی نہیں دی۔ وہ کسی بھی معاملے میں غیر ضروری طور پر جھکنے کیلئے تیار نہیں۔ طالبان کے ہاتھوں‘ جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ اُس کے لیے امریکی قیادت پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان نے امریکیوں سے جو سلوک کیا ہے ‘اُس کی طاقت اُن میں اُسی وقت پیدا ہوسکتی تھی ‘جب پاکستان پشت پر ہوتااور ایسا ہی ہوا۔ افغانستان ہمارے لیے ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ طالبان کو ہماری ضرورت رہی اور ہمیں طالبان کی۔ 
پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام اپنی جگہ‘ مگر اس حقیقت سے بھی تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ امریکا نے بھی ہم سے ڈبل گیم کھیلنے میں کبھی تساہل سے کام لیا ہے ‘نہ تاخیر سے۔ امریکی پالیسیوں کو جس قدر پاکستان نے بھگتا ہے ‘اُتنا خطے کے کسی اور ملک نے شاید ہی جھیلا ہو۔ سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد افغانستان کو آزاد کرانے کے نام پر پاکستان کو بروئے کار لایا گیا۔ سابق سوویت یونین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ہمارے سامنے کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ اس مجبوری کا امریکا اور یورپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 
امریکی قیادت کو اب اس بات کا شدت سے احساس ہوچلا ہے کہ جو کچھ سات عشروں کے دوران کیا گیا‘ وہ اب نہیں کیا جاسکتا۔ طاقت میں کمی تیزی سے واقع ہو رہی ہے۔ یورپ اس بات کو بہت پہلے سمجھ چکا تھا۔ امریکا نے سمجھنے میں کچھ دیر لگائی ہے۔ ایسے میں بدحواسی کا پیدا ہونا لازم ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لارہا ہے‘ جن کے نتیجے میں معاملات کو زیادہ سے زیادہ بگاڑا جاسکے۔ جنوبی ایشیا اور وسطِ ایشیا کے حوالے سے امریکی پالیسی اب یہ ہے کہ مالیاتی اور معاشی محاذ پر زیادہ سے زیادہ خرابیاں پیدا کی جائیں۔ ترکی میں مالیاتی بحران پیدا کیا گیا‘ تاکہ اُس کی معیشت ڈانواں ڈول ہوجائے۔ صدر رجب طیب اردوان نے سَر جھکانے سے انکار کیا تو یورپی یونین کو اُن کے خلاف ورغلایا گیا۔ ترک کرنسی کے لیے شدید بحران پیدا کیا گیا۔ ترکی نے صورتِ حال کو کسی نہ کسی طور کنٹرول کرلیا۔ 
اب پاکستان کی باری ہے۔ گزشتہ برس پی ٹی آئی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کو زیادہ سے زیادہ مشکلات سے دوچار کرنے میں مالیاتی بحران نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ معیشت کی دیگر الجھنیں اپنی جگہ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ مالیاتی بحران حکومت کی جڑوں میں بیٹھ گیا اور اُسے بہت سے معاملات میں مجبور ہوکر عوام مخالف فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اور سب سے بری بات یہ ہوئی ہے کہ ایک بار پھر آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہونا پڑا ہے۔ یہ سو ‘خرابیوں کی ایک خرابی ہے۔ 
امریکا فی الحال صرف اتنا چاہتا ہے کہ جنوبی ایشیا اور وسططی ایشیا میں مالیاتی اور معیشتی بحران برقرار رہے‘ تاکہ کوئی بھی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر منہ دینے کے قابل نہ رہے۔ پاکستان محلِ وقوع کے اعتبار سے بہت کچھ کرنے کے قابل ہے ‘مگر اُس کی صلاحیت اور سکت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے ذریعے امریکا اور اُس کی ہم نوا قوتیں معاملات کو الجھانے کی بھرپور اور کامیاب کوششیں کر رہی ہیں۔ 
طالبان کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد اب امریکی قیادت پاکستان کو سبق سکھانے پر تُل گئی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے انتہائی پریشان کن ہے ‘کیونکہ معیشت کو پہلے ہی شدید نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ ایسے میں مالیاتی بحران کا برقرار رہنا خرابیوں کو دوچند کرے گا۔ پاکستان کو خرابیوں سے دوچار رکھنے میں کامیابی امریکا کو بہت سے دوسرے معاملات میں غیر معمولی ایڈوانٹیج دے گی۔ خطہ غیر مستحکم رہے گا اور چین کو بھی پریشان کرنا ممکن ہوسکے گا۔ یہ وقت غیر معمولی فیصلوں کا ہے۔ ترکی نے ہمت دکھائی ہے۔ ایسے میں پاکستانی قیادت کو بھی غیر معمولی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معاملات پر نظرِ ثانی کرنا پڑے گی۔ حالات غیر معمولی ہوں تو فیصلے بھی غیر معمولی کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوگا‘ جب ہم اپنے وجود سے مخلص ہوں گے۔ امریکا اپنی طاقت میں رونما ہوتی ہوئی کمزوری سے پریشان اور متفکر ہے۔ اس وقت وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے ‘وہ دراصل معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ایسے میں ہماری قیادت کو پختہ شعور ہی مفید فیصلے کرنے کی توفیق عطا کرسکتا ہے۔ امریکا ایک بڑے تودے کی مانند ہے ‘جو ہل رہا ہے۔ اس کے گرنے سے نقصان بھی بہت ہوگا مگر خیر‘ گرے گا تو طاقت کا خلاء بھی پیدا ہوگا اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے لیے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ ہمیں اُس وقت کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ 
خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں ہماری قیادت کو جو کچھ بھی کرنا ہے‘ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ امریکا اپنی جگہ ‘مگر تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقتوں سے بہتر مراسم استوار رکھنا بھی لازم ہے۔ اس معاملے میں کوتاہ نظری کی گنجائش نہیں۔ دس پندرہ سال بعد کی دنیا میں نئی طاقتیں دکھائی دیں گے۔ ہمیں اب امریکا اور اس کے ہم نواؤں سے خوفزدہ ہونے سے زیادہ اُس وقت کے بارے میں سوچنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں