"MIK" (space) message & send to 7575

بیک فُٹ پر رہنا ہے

برمے کی مدد سے کنویں سے پانی نکالنا ہو تو؟ پہلے برمے میں تھوڑا پانی ڈالا جاتا ہے۔ یہ پانی کھینچ نکالنے کی تکنیک کا حصہ ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ ہم سے ایسی ہی اپروچ کا تقاضا کرتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں فرنٹ فُٹ پر جانے کے لیے پہلے بیک فُٹ پر جانا پڑتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بیک فُٹ پر اچھا کھیلنے والے ہی فرنٹ فُٹ پر بھی اچھا کھیل پاتے ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات وزیر اعظم کو سمجھانے کی ہے؟ کبھی کبھی‘ یعنی ضرورت پڑنے پر بیک فُٹ پر رہنے کی اہمیت اُن سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ اُنہوں نے عمر کا معقول حصہ کرکٹ کو دیا ہے۔ کرکٹ یا کسی بھی اور کھیل کا کوئی بھی مقابلہ کسی ایک تکنیک کی مدد سے نہیں جیتا جاسکتا۔ مقابلے کے دوران بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق تکنیک بدلنی پڑتی ہے۔ کبھی دفاعی پوزیشن میں آنا پڑتا ہے اور کبھی آگے بڑھ کر‘ جارحانہ انداز سے کھیلتے ہوئے مدِمقابل پر حاوی ہونا پڑتا ہے۔ اِس بنیادی اصول کو نظر انداز کرنے والے جیتتے جیتتے بھی مات کھا جاتے ہیں۔ 
عمران خان کو بھی یہی کرنا تھا اور یہی کرنا ہے‘ مگر وہ کر کچھ اور رہے ہیں۔ کبھی فرنٹ فُٹ پر اور کبھی بیک فُٹ پر کھیلنے کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے ‘مگر وہ فرنٹ فُٹ پر رہتے ہوئے ابتدائی اوورز ہی میں ہارڈ ہٹنگ کی تکنیک اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اُن کا ایک بنیادی مسئلہ یہی تو ہے۔ اُنہوں نے تمام پوٹلے ایک ساتھ کھول ڈالے ہیں! ؎ 
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے 
ستم ظریف بہت جلدباز ہوتے ہیں 
بہت سے معاملات میں سارے بنتے کام عجلت پسندی سے بگڑ جاتے ہیں۔ حکومتی امور میں تو خیر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اِس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابی جلسوں میں کیے جانے والے وعدے محض بڑھک کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان بڑھکوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔ کیا جائے تو مطلوب نتائج رہے ایک طرف‘ ممکن نتائج بھی ممکن نہیں رہ پاتے۔ اہلِ سیاست اِن باتوں کو سمجھتے ہیں اِس لیے اقتدار ملنے پر بہت سی بڑھکوں کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ وعدے اور بڑھک کا فرق اُن سے بڑھ کر کون جانتا ہے؟ اور قول و فعل کا فرق بھی وہی خوب جانتے ہیں! 
عمران خان اہلِ سیاست میں سے نہیں۔ اُن کے ذہن میں کرکٹ تھی اور کرکٹ ہے۔ سیاست میں بہت کچھ صرف کہنے کے لیے ہوتا ہے‘ کرنے کے لیے نہیں۔ سیاست دان عوام سے رابطہ برقرار رکھنے اور عوام کی توجہ کے ریڈار پر رہنے کے لیے خدا جانے کیا کیا کہتے پھرتے ہیں؛ اگر کوئی کسی ایک بات پر عمل کرنے کا ذکر کر بیٹھے ‘تو وہ مسکراتے ہوئے کچھ اور کہہ کر ٹال جاتے ہیں۔ یہی سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ کبھی کبھی یہ وتیرہ کام کا بھی ثابت ہوتا ہے۔ ہر بات کا جواب دینا لازم نہیں ہوا کرتا۔ کبھی کبھی بات کو ٹالنے ہی میں بھلائی ہوتی ہے۔ یہ بات وہی بہتر طور پر سمجھتے ہیں‘ جن کی زندگی سیاست کے خار زاروں میں گزری ہو۔ سیاست جن کی گُھٹّی میں ہو‘ وہ معاملات کو خرابیوں سے بچاتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ 
عمران خان نے سیاست میں کم و بیش ربع صدی گزار دی ہے‘ مگر وہ اب تک آدرشوں کی‘ بلکہ خاصی ناپختہ سی خوش خیالی کی دنیا میں رہتے ہیں۔ خوش گمانی اور خوش خیالی کی سیاست میں زیادہ گنجائش پائی نہیں جاتی۔ یہاں جو کچھ بھی کرنا ہے‘ زمینی حقیقت کی بنیاد پر کرنا ہے۔ جو کچھ بہت اچھا لگ رہا ہو ‘وہ کرنے سے کہیں بڑھ کر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ہم دراصل کر کیا سکتے ہیں‘ سکت کیا کہتی ہے۔ صلاحیت اور سکت ہی طے کرتی ہے کہ کوئی سیاست میں کہاں تک جائے گا۔ جس نے بھی یہ نکتہ فراموش یا نظر انداز کیا‘ اُس کی پتنگ کَنّوں سے کٹ گئی۔ 
بجٹ عمران خان کی حکومت کی بڑی آزمائش تھا۔ اس میں اعلان کردہ اقدامات کے اثرات سے بہت کچھ طے ہوگا۔ اس کے نتیجے میں؛ اگر عوام کے لیے ریلیف کا اہتمام نہ ہو سکا تو عمران خان کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ عوام سے ؛اگر کچھ لینا ہے تو اُنہیں کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ اس وقت اُن کے لیے بنیادی سہولتوں کا بھی ڈھنگ سے اہتمام نہیں کیا جارہا۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے شعبوں کا بھی بہت بُرا حال ہے۔ مواصلات کا معاملہ بھی مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی کا بلند ہوتا ہوا گراف عوام کے حوصلے پست کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں خرابی کا عمل جاری ہے۔ ڈالر بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ یہ سب کچھ حکومت کے خلاف جارہا ہے‘ مگر حکومت کے خلاف سب سے زیادہ جانے والی بات ہے‘ عجلت پسندی۔ 
تحمل چاہیے‘ مگر وہ ہو نہیں پارہا۔وزیر اعظم عمران خان نے کئی محاذ ایک ساتھ کھول رکھے ہیں۔ ایک طرف وہ معیشت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف احتساب کا عمل بھی تیز کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا۔ حکومت نے اپوزیشن میں سے بڑی گردنوں کو شکنجے میں کَسنے کی تیاری کی ہے تو اپوزیشن کی طرف سے جوابِ آں غزل کے طور پر حکومت مخالف تحریک کا اعلان کیا گیا ہے اور اب آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں حکومت مخالف تحریک چلائے جانے کا امکان قوی تر ہوگیا ہے۔ 
وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ کے لیے یہ لمحہ ٔ فکریہ ہے۔ کئی محاذوں پر بیک وقت لڑنا ممکن ہے؟ اگر عمران خان اور اُن کی ٹیم کا خیال یہ ہے کہ کئی محاذوں پر بیک وقت لڑا جاسکتا ہے تو یقینایہ خام خیالی ہے۔ کسی بھی سیاسی ٹیم کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر فتح یاب ہونا تو دور کی بات رہی‘ ڈھنگ سے لڑنا اور منہ دینا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم عمران خان کیلئے ابتدائی دو برس کی بہترین حکمت ِعملی یہ ہوسکتی ہے کہ چند ایک معاملات پر پوری طرح متوجہ ہوکر درستی کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اس محاذ پر فتح نصیب ہوجائے تو آگے کا سوچا جائے۔ چند ایک معاملات کو جان بوجھ کر ڈھکا چھپا رکھنا ہے‘ کم آمیزی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہر معاملے میں بڑبولاپن نہیں چلتا۔ مصلحت خاموشی کی متقاضی ہو تو خاموشی ہی اختیار کرنی چاہیے۔ سیاست کی بازی میں تمام کارڈ ایک ساتھ شو نہیں کیے جاتے۔ وزیر اعظم عمران خان سیاست کے اس بنیادی اصول کو یکسر نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ 
وزیر اعظم عمران خان نے ایک ساتھ کئی کارڈ شو تو کردیئے ہیں‘ مگر اب تک یہ نہیں بتایا کہ اُنہیں سیاسی اُمور کے حوالے سے مشوروں سے نواز کون رہا ہے۔ جہاں بیک فُٹ پر رہنا ہو ‘وہاں وہ فرنٹ فُٹ پر دکھائی دیتے ہیں اور جن معاملات میں فرنٹ فُٹ پر رہنا ہو ‘اُن میں وہ پیچھے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آثار بتاتے ہیں کہ اُنہیں مشورے دینے والے یا تو غیر معمولی ذہانت کے حامل نہیں یا پھر انتہائی بدنیت ہیں۔ لازم ہے کہ سیاسی مشیروں کی ٹیم بدلی جائے۔ وزیر اعظم عمران خان سیاسی مشاورت کیلئے بہترین اور متوازن اذہان کا انتخاب کریں اور ایسے تمام لوگوں سے بچیں جن کیلئے غالبؔ نے کہا تھا : ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں