صد شکر کہ سرفراز الیون نے قومی مزاج کا بھرم رکھ لیا۔ ہمارا قومی مزاج کیا ہے؟ دن چڑھے جاگنا‘ آخری لمحات میں معاملات درست کرنے کی اپنی سی کوشش کرنا‘ کھڑی بس کو دیکھتے رہنا اور جب وہ چلنا شروع کرنے کے بعد رفتار پکڑنا بھی شروع کردے تب لپک کر سوار ہونا!
1992 ء میں بھی ہم نے کرکٹ ورلڈ کپ کی بس کو اِس طور پکڑا تھا کہ چُھوٹتے چُھوٹتے رہ گئی تھی۔ اب کے بھی کچھ ایسا ہی ہونے جارہا تھا کہ عین وقت پر ہوش آگیا اور سرفراز الیون نے معاملات کو درست کرنے کی ٹھانی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں ہمیں راؤنڈ رابن لیگ کا مشکل ترین میچ آخر میں کھیلنا پڑا تھا اور اب کے نیوزی لینڈ کو ہراکر ہم اس مرحلے سے دو میچ پہلے گزر گئے ہیں۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کے لیے امکانات ختم نہیں ہوئے۔ سرفراز الیون کو باقی دو میچ بھی جیتنے ہیں اور معقول مارجن سے جیتنے ہیں‘ تاکہ رن ریٹ کی بنیاد پر مسابقت میں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ سات دہائیوں کا قصہ ہے‘ کوئی پل دو پل کی بات نہیں کہ ہم اُس وقت جاگتے ہیں‘ جب سورج سر پر آچکا ہوتا ہے‘ پانی سر سے گزرنے لگتا ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہماری اجتماعی روشِ فکر و عمل یہی رہی ہے۔ کڑی سے کڑی آزمائش بھی ہمیں اِس روش سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ سلسلہ کھیلوں کا ہو یا تفریحی سرگرمیوں کا‘ تعلیم کا ہو یا صحت کا‘ فطری علوم و فنون کا ہو یا فنونِ لطیفہ کا‘ سیاست کا ہو یا معیشت کا‘ عالمی اداروں سے ربط کا ہو یا بین الریاستی تعلقات کا ... کون سا معاملہ ہے‘ جس میں ہم وقت پر جاگ پائے ہیں؟ جب سبھی کچھ ہاتھ سے جانے لگتا ہے تب ہم بیدار ہونے کا سوچتے ہیںاور اگر بیدار ہوگئے تو ٹھیک‘ ورنہ سنگین نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ تماشا اب ہماری نفسی ساخت میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ کسی بھی پہلو سے دیکھنے پر حیرت ہوتی ہے‘ نہ افسوس۔ معمول سے کوئی حیران نہیں ہوتا‘ پھر ہم کیوں ہوں؟ وقت پر نہ جاگنا اب معمول ہے۔ یہ معمول ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ دن چڑھے جاگنے سے جو نقصان پہنچتا ہے وہ پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں نقصان کے حوالے سے زیادہ سوچا نہیں جاتا کیونکہ جو ہوچکا ہے وہ تو ہو ہی چکا ہے‘ پھر سوچ سوچ کر کُڑھنے سے کیا حاصل؟
خیر‘ اب کے بھی ورلڈ کپ شروع ہوا تو قوم کو اندازہ تھا کہ معاملات ابتداء ہی میں کچھ نہ کچھ گڑبڑا جائیں گے۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ہاتھوں قومی ٹیم کا جو حشر ہوا تھا اُسے دیکھتے ہوئے کم ہی لوگوں کو امید تھی کہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاسکے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے مقابل کارکردگی ایسی رہی کہ قوم نے خفیف سی بھی امید کا دامن نہ تھامنے کی قسم کھالی۔ ویسٹ انڈیز ٹورنامنٹ کی کمزور ترین ٹیموں میں سے ہے اور اُسے ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ سے گزرنے کی ذِلّت بھی برداشت کرنا پڑی تھی! ایسی گئی گزری ٹیم سے ہم جس شرم ناک انداز سے ہارے وہ پوری قوم کو شدید قنوطیت سے دوچار کرنے کے لیے کافی تھا۔
مگر پھر اگلے ہی میچ میں سرفراز الیون نے حقیقی پاکستانی سائیڈ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ٹورنامنٹ کی سب سے فیورٹ ٹیم ‘یعنی انگلینڈ شرم ناک انداز سے خاک چٹادی! دنیا حیران رہ گئی۔ کہاں تو ویسٹ انڈیز سے اِس طور ہارنا گویا کلب لیول کا کوئی میچ ہو رہا ہو اور کہاں انگلینڈ جیسی ٹیم کو اُس کے ہوم گراؤنڈ پر یوں ہرانا گویا وہ کوئی ٹیم ہی نہ ہو! اِس میچ نے ورلڈ کپ کے لیے قومی ٹیم کے حوالے سے قوم کی امنگوں اور آرزوؤں کو پھر سے جوان کردیا۔ مگر اگلے ہی میچ میں بارش نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ایک پوائنٹ تک محدود رکھا۔ اس میچ میں پاکستان فیورٹ تھا اور دو پوائنٹ لے سکتا تھا۔ خیر‘ اِس کے بعد پہلے آسٹریلیا اور پھر بھارت کے ہاتھوں شکست نے قوم کو پھر مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ سوشل میڈیا پر تو تنقید کا طوفان آگیا۔
اب لازم ہوگیا کہ باقی تمام میچ جیتے جائیں اور قوم کی امیدوں کو نئی زندگی بخشی جائے۔ جنوبی افریقا کو ہراکر سرفراز الیون نے ایونٹ میں واپسی کا ٹکٹ خریدا۔ یہ میچ تو خیر اہم تھا ہی ‘مگر اس سے زیادہ اہم تھا نیوزی لینڈ سے ٹاکرا۔ بھارت کے ساتھ نیوزی لینڈ بھی ٹورنامنٹ کی ناقابلِ شکست ٹیم تھی۔ بدھ کو اُس سے یہ اعزاز چِھن گیا۔ ایونٹ کی سب سے ناقابلِ یقین ٹیم نے وہی کر دکھایا جو اُس نے اب تک کیا ہے‘ یعنی ہارنا ہو تو کمزور ٹرین ٹیم سے ہار جاؤ اور پچھاڑنے پر آؤ تو مضبوط ترین ٹیم کو بھی زمین پر دے مارو۔ نیوزی لینڈ پر پاکستان کو ورلڈ کپ کے حوالے سے نفسیاتی برتری حاصل رہی ہے۔ بدھ کو ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستانی ٹیم چاہے تو کسی کو بھی پچھاڑ سکتی ہے۔ سوال صرف چاہنے کا ہے۔ ہر بڑے ایونٹ میں پاکستان کا یہی معاملہ رہا ہے۔ قوم پہلے مایوسی کے دریا میں غوطہ خوری پر مجبور ہوتی ہے۔ پھر قومی ٹیم کو کچھ رحم آتا ہے اور وہ بہتر کارکردگی کے ذریعے اوپر آکر قوم کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے‘ آرزوؤں اور امیدوں کو نئی توانائی بخشنے کا اہتمام کرتی ہے۔ تھوڑا کھٹّا‘ تھوڑا میٹھا۔ قوم کھٹّے میٹھے کے درمیان رہتی ہے۔ ہر طرح کی صورتِ حال میں مسکراتے ہوئے آگے بڑھنا ہمارا مزاج رہا ہے ؎
مسکراتے ہوئے جیے ہیں جناب
ہم اِسی طور کے سدا سے ہیں
اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے جیتنے کے پہلو بہ پہلو دوسروں کا ہارنا بھی ناگزیر ہے۔ اتوار کو انگلینڈ کا ٹاکرا بھارت سے ہے۔ انگلینڈ کو مزید دو میچ کھیلنے ہیں اور دونوں ہی میں اُس کی شکست سے ہمیں سیمی فائنل کی بس پکڑنے کا موقع مل سکے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو معاملہ رن ریٹ کے مرحلے میں پھنس جائے گا جو اِس وقت ہمارے لیے ''اگنی پریکشا‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ گویا ع
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے!
پاکستان کو اب افغانستان اور بنگلہ دیش سے ٹکرانا ہے۔ افغانستان تو خیر جملۂ معترضہ ہے‘ بنگلہ دیش پر بھی پاکستان کو غیر معمولی نفسیاتی برتری حاصل رہی ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیم آج کل فارم میں ہے مگر اُس کے مقابل پاکستان کا ریکارڈ شاندار رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کی طرح بنگلہ دیش کی ٹیم بھی 5 جولائی کو مغلوبیت کے شدید احساس کے ساتھ پاکستان کے مقابل میدان میں اُترے گی۔ قوم کے لیے اضافی ٹریٹ یہ ہے کہ افغانستان اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں‘ سیاسی و سفارتی اختلافات و کشیدگی کے باعث‘ پاکستان کے لیے شدید نوعیت کی ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ اب تک بھارت روایتی حریف تھا۔ اب یہ دونوں ٹیمیں بھی خود کو پاکستان کے روایتی حریف کے منصب پر فائز کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایسے میں قوی امکان اِس بات کا ہے کہ پاکستان کو ہرانے کے لیے یہ دونوں ٹیمیں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گی‘ یعنی فائنل سے بہت پہلے یہ دونوں میچ پاکستان کے لیے فائنل کا درجہ رکھتے ہیں! کھیل کی ہنڈیا میں جب اور بہت کچھ ڈَل جائے تو ایسی ہی کھچڑی پکا کرتی ہے!
ورلڈ کپ میں یہاں تک پہنچنا خاصا جاں گُسل ثابت ہوا ہے: ؎
کچھ ہم ہی جانتے ہیں جتن ہم نے جو کیے
اُن کی جبیں کا کتنی مشقّت سے بل گیا
دعا ہے کہ سوشل میڈیا پر سرفراز الیون کو بُرا بھلا کہنے والے منہ کی کھائیں اور قوم کے لیے سُکونِ قلب کا سامان ہو۔