"MIK" (space) message & send to 7575

’’غزل‘‘ کہی ہے …

اب کوئی بھی معاملہ کسی نوع کی قید میں نہیں رہا۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ سب نے کسی بھی بندھن کو تسلیم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ماحول آزاد ہے۔ شخصی آزادی کے تصور کو ایسے بے ہنگم طریق سے اپنایا گیا ہے کہ نتائج کا سیلاب دیکھ دیکھ کر دل دَہلتا رہتا ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں اور جو کچھ سوچ رہے ہیں‘ اُسے بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں‘ نہ باک۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اس قدر کیسے سوچ لیتے ہیں۔ پھر خیال آتا ہے کہ ہر چیز اپنے مقام سے ہٹی ہوئی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے: ؎ 
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ ایں و آں سمجھا تھا میں 
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں
یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ لوگ کسی بھی صورتِ حال کو سامنے پاکر بے حواس اور پریشان ہو اٹھتے ہیں اور اسے سوچنا سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں! اور اضافی لطیفہ یہ ہے کہ صریح بدحواسی کے اظہار کو خیالات کا اظہار سمجھ کر دوسروں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے‘ اُسے درست اور برحق تسلیم کرتے ہوئے ''نظریے‘‘ کا درجہ دیا جائے! فی زمانہ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی کہی ہوئی ہر بات کو نظریے سے کم کچھ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ رہی سہی کسر ہندی والوں نے پوری کردی ہے ‘جو معمولی سطح کے موقف کو بھی (دیکھنے کا) ''نظریہ‘‘ کہنے لگے ہیں۔ یہ لفظ پورے برعظیم پاک وہند میں اس قدر عمومی انداز سے بولا جانے لگا ہے کہ اس کی وقعت ہی داؤ پر لگ گئی ہے۔ 
شخصیت کی تشکیل‘ تہذیب اور تطہیر کے لیے خاموش رہنا یا کم بولنا کس حد تک لازم ہے‘ اس کا اندازہ اب کم ہی لوگوں کو ہے۔ ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اُس کے بیشتر معاملات پر غور و خوض ناگزیر ہے۔ بہت سوچنے ہی پر ہمیں کوئی راستہ سُوجھتا ہے‘ آگے بڑھنا ممکن ہو پاتا ہے۔ کوئی بھی انسان سوچے بغیر کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ غور کرنے کے لیے انسان کا خاموش رہنا یا کم بولنا لازم ہے۔ جو لوگ بالعموم خاموش رہتے ہیں یا محض ضرورت پڑنے پر بولتے ہیں‘ وہ بیشتر معاملات میں کوئی ٹھوس رائے قائم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی حوالے سے اپنی رائے ڈھنگ سے بیان بھی کر پاتے ہیں اور جب عمل کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو کامیابی ان کے قدم چُومتی ہے۔ 
مشکل یہ ہے کہ کسی کو خاموش رہنے پر آمادہ کرنا اب جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بہت کچھ دیکھنے اور سُننے کے بعد ذہن کے پیالے میں آنے والے اُبال کو الفاظ کی شکل میں دنیا کے سامنے لانا‘ یعنی کچھ نہ کچھ بولنا لازم ہوگیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کا بھی عمومی چلن یہ ہے کہ مختلف حوالوں سے پریشان اور بدحواس ہوا جائے اور اس حالت میں جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر ابھرے ‘اُسے بلا کم و کاست دنیا کے سامنے لایا جائے۔ جس کے ذہن میں جو کچھ بھی پنپ جائے ‘اُسے وہ سب کے سامنے لائے‘ بغیر سکون کا سانس نہیں لیتا۔ یہ سوچنے کی زحمت کوئی بھی گوارا نہیں کرتا‘ کہ جو کچھ وہ بیان کر رہا ہے‘ اُسے سُن کر دوسروں کے دل و دماغ پر کیا گزرے گی اور وہ سکون کا سانس لینے کے قابل رہ پائیں گے یا نہیں! 
ایک زمانے سے ہم سُنتے آئے ہیں کہ تخلیقی ذہن رکھنے والوں کے ذہن میں جب کوئی نئی چیز ابھرتی ہے تو وہ اُسے دنیا کے سامنے لانے کا سوچتے ہیں۔ تخلیقی رجحان کے حامل افراد کے مزاج میں اِس حوالے سے تھوڑی بہت بے چینی اور کجی بھی پائی جاتی ہے۔ جو لوگ تخلیقی مزاج کے حامل افراد کے قریب رہتے ہیں ‘وہ اُن کے مزاج کی نیرنگی کو سمجھتے ہیں‘ مثلاً: شاعر‘ اگر چند اشعار موزوںکرے یا غزل کہے تو اُسے سکون اُسی وقت ملتا ہے جب وہ اپنے نتائجِ طبع کسی کو سُنادے اور داد بھی پائے۔ اس بات کو قمر جمیلؔ مرحوم نے بے مثال عمدگی سے بیان کیا ہے: ؎ 
میں اس چراغ کا شعلہ بُجھائے دیتا ہوں 
غزل کہی ہے‘ تمہیں بھی سُنائے دیتا ہوں 
یہ شعر اب بہت سے معاملات پر منطبق ہوتا ہے۔ غزل کہنے پر سُنانا اُن شعراء کو زیب دیتا ہے‘ جنہوں نے کوئی کام کی بات کہی ہو۔ پُھسپُھسے اشعار موزوں کرنے کو ''غزل کہی ہے ...‘‘ کے درجے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی معاملہ ہر انسان کا ہے۔ ذہن میں ابھرنے والی ہر چیز معیاری نہیں ہوتی۔ کسی بھی معاملے میں ذہن ؛اگر خلجان کا شکار ہو تو ایسے میں منہ کھولنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ 
یہاں مشکل یہ آن پڑی ہے ‘جو بھی کچھ دیر پریشان رہنے کے بعد اپنے ذہن میں کسی چیز کا ابھرنا محسوس کرتا ہے‘ اُسے دنیا کے سامنے پیش کرنا بھی لازم سمجھتا ہے۔ کسی نے معیاری غزل کہی ہو تو سُنائے۔ کسی نے معرکے کا افسانہ لکھا ہو تو بے شک سماعتوں کی نذر کرے۔ کسی نے کوئی خاص موضوع منتخب کرکے اُس پر محنت کی ہو تو اپنی محنت کا نتیجہ مربوط انداز سے بیان کرے۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ کسی بھی حوالے سے ذہن کی پتیلی میں پکنے والی کھچڑی کو بکواس کی شکل میں منہ سے نکال کر بلا جواز طور پر دوسروں کی سماعتوں کے دستر خوان پر سجادیا جائے! 
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں‘ جس میں کسی بھی موضوع پر بلا تکلف و بلا تکان بولنے کو زندگی کا ایک لازمی عمل تصور کرلیا گیا ہے۔ آج کا انسان جو کچھ دیکھتا اور سُنتا ہے ‘اُس کے حوالے سے اپنی رائے دینا فرض گردانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر معاملے میں رائے دینا معقول طریقِ فکر و عمل نہیں۔ وقت ہمارے پاس ہی نہیں‘ دوسروں کے پاس بھی کم ہے۔ یہی معاملہ توانائی کا بھی ہے۔ غیر متعلق امور پر غور کرکے ہم اپنا وقت اور ذہنی توانائی ضائع کرتے ہیں۔ اور ‘بیان کرنے کی صورت ہم اپنا ہی نہیں دوسروں کا بھی وقت اور توانائی دونوں ضائع کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 
ہم جس عجیب عہد میں جی رہے ہیں ‘اُس کے متعدد تقاضے ایسے ہیں‘ جنہیں نظر انداز کرنے کے ہم کسی طور متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس عہد کا ایک ناگزیر تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے سے گریز کیا جائے۔ اور‘ اس کے لیے لازم ہے کہ غیر متعلق امور میں دلچسپی لینے اور اُن میں الجھنے سے گریز کیا جائے۔ ذہن کو یوں سنبھالنا ہے ‘جیسے کوئی جھاڑیوں سے گزرنے پر دامن بچا بچاکے چلے۔ انسان جب کسی بھی معاملے میں دلچسپی لیتا ہے تو کچھ پڑھتا ہے یا سُنتا ہے۔ جب ذہن میں کچھ داخل ہوتا ہے تو وہاں تھوڑی بہت ہلچل بھی ہوتی ہے ‘یعنی کوئی توانا یا کمزور رائے ضرور بنتی ہے‘ پھر اس رائے کو باہر لانے ‘یعنی دوسروں کے گوش گزار کرنے کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے۔ ہر انسان کو اچھی طرح طے کرنا ہے کہ کیا سوچنا ہے اور اُس میں سے کیا کیا دوسروں تک پہنچانا ہے۔ کبھی کبھی کوئی رائے ہوتی تو مربوط اور توانا ہے‘ مگر غیر متعلق ہونے کے باعث سامع یا سامعین کے لیے کسی کام کی نہیں ہوتی۔ ہر بات سوچنے کی ہوتی ہے نہ بتانے کی۔ جو اِس نکتے کو سمجھنے سے گریز کرتا ہے‘ وہ کسی اور کا نقصان نہیں کرتا ‘بلکہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں