ہر معاشرہ چند ایک رجحانات سے متصف ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں چند واضح رجحانات نہ پائے جائیں۔ ہاں‘ یہ ضرور ممکن ہے کہ رجحانات کمزور حیثیت کے حامل ہوں۔ پاکستانی معاشرہ بھی اس اعتبار سے انوکھا نہیں۔
ایک زمانے سے ہمارے ہاں منفی رجحانات کا زور رہا ہے۔ چند منفی رجحانات اتنی شدت کے ساتھ موجود رہے ہیں کہ اُن سے گلو خلاصی اب ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ بہت کوشش کرنے پر بھی نجات کی راہ نہیں سُوجھتی۔ مستقبل کے حوالے سے کچھ نہ سوچنے کے رجحان ہی کو لیجیے۔ یہ رجحان پاکستانی معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ اس کے مظاہر قدم قدم پر موجود ہیں۔ بیشتر پاکستانیوں کا حال یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچنے اور تیاری کرنے کو کو گناہ کے درجے میں رکھتے ہیں! اسی طور اور بہت سے معاملات میں بھی وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات‘ البتہ کوئی نہیں بتاتاکہ اس طور بچایا جانے والا وقت کس مد میں بروئے کار لایا جاتا ہے!
کیریئر کے حوالے سے سوچنا اور منصوبہ سازی کرنا بھی ایک ایسا معاملہ ہے‘ جس سے دامن چھڑانے کی بھرپور کوشش‘ ہمارے ہاں بنیادی رجحانات میں سے رہی ہے۔ لوگ ہنر سیکھنے کے معاملے میں کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کو گناہ کے درجے میں رکھتے ہیں اور مرتے دم تک تلمیذ الرحمن کہلانے کو سعادت گردانتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ کیریئر کے حوالے سے سنجیدہ ہو پاتے ہیں‘ نہ کچھ خاص تیاری کر پاتے ہیں۔ ویسے مثبت اور کارآمد رجحانات سے دامن کش رہنا بھی ہمارے ہاں ایک بنیادی رجحان ہے! لوگ چاہتے ہیں کہ بہت کچھ مل جائے‘ مگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے جو کچھ کرنا ہے‘ اُس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کرتے۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں‘ کیونکہ درجنوں عوامل نے مل کر ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ سوچنے والوں کو بہت سوچنے پر بھی چند بڑے اور اصل معاملات یا محرکات کا سِرا نہیں ملتا۔
جن معاشروں میں خرابیوں کو خطرناک یا تباہ کن حد تک اپنالیا جاتا ہے‘ وہاں عجیب ہی رجحانات پنپنے لگتے ہیں۔ لوگ زندگی کو داؤ پر لگانے کیلئے سو جتن کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کو ترقی اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے جتنی محنت کرنا پڑتی ہے‘ اُتنی ہی محنت پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ بربادی کو برقرار رکھنے پر کرتے ہیں! شدید منفی رجحانات کے ہاتھوں تاریکی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایسے میں‘ اگر کوئی چراغ ہاتھ میں لے کر نکلے تو کیفیت یہی ہوتی ہے کہ ع
چراغ لے کے ہوا سامنے ہوا کے چلے
جب بیشتر معاملات میں منفی طرزِ فکر کو گلے لگالیا گیا ہو‘ تب کسی ایک معاملے کو درست رکھنا بھی انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے کا یہی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ بیشتر معاملات اس بُری طرح بگڑ چکے ہیں کہ درستی کا بیڑا اٹھانے والوں کی عمریں کھپ جاتی ہیں ‘مگر خرابیاں دور ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ معاشرتی خرابیوں پر نظر دوڑائیے تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر شعبے میں خرابیوں کا گراف اس قدر بلند ہے کہ حوصلہ اٹھ ہی نہیں پاتا۔ کچھ درست کرنے کا سوچیے تو سمجھ نہیں آتا کہ آغاز کہاں سے کیا جائے۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو عام آدمی بہت کوشش کرنے پر بھی اپنی مرضی کے مطابق ‘یعنی مطلوب سہولتوں کے ساتھ بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو پاتا اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں‘ جو کچھ خاص نہیں کرتے ‘مگر زندگی ہے کہ مزے سے گزرتی ہے۔ ہم ریاست کی انتظامی مشینری کے کرپٹ پُرزوں کی بات نہیں کر رہے۔ کرپشن اب کچھ ریاستی مشینری تک محدود نہیں رہی۔ یہ تو اب پورے معاشرے کا معاملہ ہے‘ جسے جہاں موقع ملتا ہے؛ ''کاری گری‘‘ کا مظاہرہ کر جاتا ہے!
مگر ‘خیر دیانت سے عاری طرزِ فکر و عمل الگ چیز ہے اور بے عمل رہ کر جینا بالکل الگ معاملہ ہے۔ معاشرے میں ایک طرف وہ لوگ ہیں‘ جو متعلقین کے لیے معقول طرزِ زندگی یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں‘ مرتے دم تک محنت کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ایسا اس لیے ہے کہ وسائل کم ہیں اور مسائل زیادہ۔ ہر شعبے اور ہر معاملے میں مارا ماری کی کیفیت ہے‘ جسے جتنا حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے ‘وہ اُتنا حاصل کرکے دم لیتا ہے۔ کم ہی ہیں جو ایسے میں جو اپنے مزاج اور کردار کو متوازن رکھ پاتے ہیں اور مطلوب دیانت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ لوگ جب ہر طرف اور ہر معاملے میں خرابیاں دیکھتے ہیں تو ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور دوسروں کی ہی طرح خرابیوں سے مزین زندگی بسر کرنے کو زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں۔
معاشرے کی مجموعی روش یا چلن دیکھتے ہوئے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ آج بھی لاکھوں افراد کچھ کیے بغیر یا کچھ خاص کیے بغیر نا صرف یہ کہ جی رہے ہیں‘ بلکہ وسائل میں اُن کا حصہ محنت کرنے والوں سے کچھ زیادہ ہی دیکھا گیا ہے! غیر معمولی معاشی پیچیدگیاں بھی پاکستانی معاشرے کے ایک بنیادی المیے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ المیہ ہے کم و بیش ہر گھرانے میں چند افراد کا بے عمل رہتے ہوئے جینا اور دوسروں کی کمائی پر عیش کرنا۔ اس میں شہری اور دیہی کی کچھ تخصیص نہیں۔ ہر طرح کے معاشرتی سیٹ اپ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں‘ جو زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے کوئی سوچ نہیں رکھتے اور مزے کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ایک فرد کماتا تھا اور گھر کے تمام افراد کھاتے تھے۔ وہ زمانہ تو اب ہوا ہوچکا ۔ حالات نے کام کرنے کی صلاحیت و سکت رکھنے والے ہر فرد کو کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ اِس مجبوری کو غُچّہ دینے میں کامیاب ہیں۔ شہری اور دیہی دونوں ہی طرح کے معاشرتی نظام میں آج بھی اُن لوگوں کو سیدھا کرنے کی کوشش میں وقت اور توانائی صرف کی جارہی ہے‘ جو بظاہر طے کرچکے ہیں کہ اُنہیں کچھ کرنا ہے ‘نہ سیدھی راہ پر چلنا ہے۔ یہ فراغت کا ایسا دھندا ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لیتا۔ جو پوری دیانت اور سنجیدگی کے ساتھ دن رات محنت کرتے ہیں وہ اس بات کو ترستے ہی رہتے ہیں کہ کہ مثبت طرزِ فکر و عمل کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر کوئی اُنہیں سراہے۔ اس کے برعکس اُنہیں بہلانے‘ پھسلانے اور عمل کی تحریک دینے پر زیادہ محنت کی جاتی ہے‘ جو کچھ نہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور‘ اگر مجبوری کی حالت میں محنت کرنی ہی پڑے تو گزارے کی سطح سے زیادہ محنت نہیں کرتے اور زندگی کے تمام مزے دوسروں کی کمائی سے لُوٹنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ پورا معاشرہ صرف اور صرف عمل کو چاہے اور عمل کی راہ پر چلنے والوں کو سراہے۔ جنہوں نے عمل کی راہ پر گامزن نہ ہونے کا طے کرلیا ہے‘ اُن پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ہر اُس انسان کے لیے توقیر کا سامان کیا جانا چاہیے ‘جو بھرپور محنت کے ذریعے اپنی اور متعلقین کی زندگی کا معیار‘ بلند کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ عمل سے کنارہ کش رہنے والوں کو منانے اور تحریک دینے کے نام پر جو وقت ضائع کیا جاتا ہے‘ وہ سارا وقت عمل سے محبت کرنے والوں کو باعمل رہنے کی تحریک دینے پر صرف کرنا ہی اس وقت پاکستانی معاشرے کی حقیقی خدمت ہے۔