ہر دور کے اہلِ دانش اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان اپنے لیے جو شعبہ منتخب کرے‘ اُس پر بھرپور متوجہ ہو اور جس قدر مشق ممکن ہو ضرور کرے۔ یونان کے فلسفی‘ بالخصوص ارسطوکہتے تھے کہ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت بھرپور مشق کے سوا کچھ نہیں۔ انسان جتنی مشق کرتا ہے‘ اُتنا ہی ماہر ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں ہر شعبہ غیر معمولی توجہ چاہتا ہے۔ مقابلہ سخت ہے۔ قدم قدم پر حوصلہ شکن حالات کا سامنا رہتا ہے‘ مثلاً :کوئی ‘اگر کرکٹر بننا چاہتا ہے‘ تو اُسے ہزاروں باصلاحیت نوجوانوں کی بھیڑ سے خود کو الگ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے اُسے الگ سے کچھ سیکھنا پڑے گا‘ الگ سے کچھ کرنا پڑے گا۔ کسی کو دیکھ کر کچھ بننے کی خواہش کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اس پہلے قدم ہی پر دم توڑ دیتے ہیں ‘یعنی زندگی بھر صرف خواہش کے مرحلے میں پھنسے رہتے ہیں۔ کسی سے تحریک پاکر کچھ کرنے کی خواہش کا حامل ہونا بہت اہم سہی‘ مگر اس سے بہت آگے جاکر کچھ کرنا پڑتا ہے‘ صلاحیت اور سکت کا اظہار کرنا پڑتا ہے‘ تب کہیں جاکر دنیا تسلیم کرتی ہے۔
جہانگیر خان نے سکواش کی دنیا میں وہ کیا جو‘ اب تک کوئی نہیں کر پایا اور شاید اب کوئی کر بھی نہ پائے۔ 1981ء سے 1986ء کے دوران انہیں کوئی بھی شکست نہ دے سکا۔ انہوں نے مسلسل 555 مقابلے جیتے جو‘ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق‘ کسی بھی ہائی پروفیشنل کھیل میں کسی بھی کھلاڑی کی بہترین کی کارکردگی ہے۔ جہانگیر خان کی زندگی میں کیا تھا؟ مشق‘ مشق اور صرف مشق۔ وہ اپنے وجود کو سکواش کے لیے وقف کرچکے تھے۔ اُن کی زندگی میں اور کچھ نہیں تھا۔ اُنہیں انٹرویوز دینے کا اور میڈیا میں اِن رہنے کا بھی شوق نہ تھا۔ وہ دن رات سکواش کے بارے میں سوچتے تھے اور جو کچھ سوچتے تھے ‘اُس پر عمل کرنے میں تساہل کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ اور اس طرزِ فکر و عمل کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ہمارے ہاں عمران خان‘ وسیم اکرم‘ وقار یونس اور شعیب اختر جیسے افسانوی شہرت کے حامل باؤلرز پیدا ہوئے ہیں۔ سپنرز میں عبدالقادر اور اقبال قاسم نے اپنے آپ کو منوایا۔ اِن سب کی ساری کی ساری کامیابی مشق کا نتیجہ تھی۔ یومیہ بنیاد پر مشق کرتے رہنے سے اِن کی کارکردگی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔
کرکٹ سے شغف رکھنے والا کون ہوگا‘ جو سچن ٹنڈولکر کو نہ جانتا ہو؟ سچن نے بیٹنگ کے تمام بڑے ریکارڈز اپنے نام کر رکھے ہیں۔ انہوں نے 200 ٹیسٹ کھیلے۔ ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں میں وہ سینچریوں کی سینچری سکور کرنے میں کامیاب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ پریکٹس کے دوران وہ روزانہ 500 گیندوں کا سامنا کرتے تھے! اس کا مطلب یہ ہے کہ پریکٹس کرانے والے باؤلرز یومیہ بنیاد پر اُنہیں 83 اوورز کراتے تھے! اتنی بھرپور مشق کے بعد بیٹنگ میں غیر معمولی مہارت کا حامل ہونا فطری سی بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ ٹنڈولکر نے غیر معمولی مشق کا صِلہ پایا اور کرکٹ کی دنیا میں ریکارڈز پر ریکارڈز بنائے۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کسی میں صلاحیت کا پایا جانا محض خوش نصیبی ہے‘ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ سوال صلاحیت رکھنے کا نہیں‘ بلکہ صلاحیت کو پروان چڑھانے کا ہے۔ سنگِ مرمر قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ سنگِ مرمر کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم سنگِ مرمر سے کیا بنا پاتے ہیں۔ دیکھنے میں مٹی کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں‘ مگر کچھ لوگ مسلسل مشق کے ذریعے مٹی سے کھلونے اور مجسمے بنانے کا ہنر سیکھتے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ مشق کرتے رہنے سے اُن کے ہاتھوں میں جادو کا سا اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ عام سی مٹی لے کر اُسے شاہکار میں تبدیل کرنے لگتے ہیں۔ یہی ہے مشق کا جادو‘ اپنے کام سے بے پناہ عشق کا کمال۔
نئی نسل کو خصوصی طور پر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ باصلاحیت ہونا ؛اگرچہ اہم ہے‘ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی‘ جسے بھی رب نے اِس دنیا میں بھیجا ہے ‘اُسے کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور بخشی ہے۔ ہر انسان اس دنیا کے لیے کسی نہ کسی حیثیت میں کارآمد ہے‘ مگر وہ کارآمد اُسی وقت ثابت ہوسکتا ہے جب اپنے آپ کو پہچانے‘ وقت یا حالات کے تقاضوں کے مطابق‘ محنت کرے‘ مشق کے ذریعے اپنی صلاحیت یا صلاحیتوں کو پروان چڑھائے اور دنیا کے سامنے اِس طور آئے کہ لوگ دیکھیں اور حیران رہ جائیں۔
کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت پیدا کرنے کے لیے مشق لازم ہے اور مشق کے لیے نظم و ضبط ناگزیر ہے۔ شُترِ بے مہار کے مانند زندگی بسر کرنے والوں کی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کے لیے کچھ کیا کریں گے‘ اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالات پڑھ دیکھیے‘ اندازہ ہوگا کہ نظم و ضبط کی راہ پر گامزن ہوکر ہی وہ کچھ بن پائے۔ اپنی مرضی کی‘ ڈھیلی ڈھالی زندگی اور بے لگام سی زندگی بسر کرنے والے اپنی صلاحیت کو پروان چڑھا پاتے ہیں‘ نہ اپنی سکت ہی کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ نظم و ضبط نہ ہو تو انسان کسی بھی معاملے کو منطقی طریقے نمٹانے میں ناکام رہتا ہے۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین انسانوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نظم و ضبط کے دائرے میں آنے کے بعد ہی وہ بھرپور مشق کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے قابل ہو پائے۔
ہم جس دنیا کا حصہ ہیں‘ اُس میں ایسا بہت کچھ ہے‘ جو انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ بہت سے نوجوان کچھ کرنے کا سوچتے ہیں‘ مگر اُنہیں راہ نہیں مل پاتی۔ پہلا سوال ''مینٹورنگ‘‘ کا ہے‘ یعنی اُنہیں ایسے استاد نہیں ملتے‘ جو پوری دیانت اور توجہ کے ساتھ کچھ سکھائیں۔ دوسرا مرحلہ سنجیدگی کا ہے۔ کوئی بھی نوجوان جب اپنی صلاحیت کو پہچان لے تو اُسے آگے بڑھنے اور دنیا سے اپنا آپ منوانے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔ سنجیدگی اپنائے بغیر کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ سنجیدگی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے کے لیے ایک الگ طرزِ حیات منتخب کرے‘ نظم و ضبط کو اپنائے اور غیر متعلق سرگرمیوں میں الجھنے سے گریز کرے۔ جو لوگ اس حوالے سے بھرپور ذہنی تیاری کرتے ہیں ‘وہی حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہو پاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں مقابلہ ؛چونکہ سخت ہے‘ اس لیے جو نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلسل مشق ہی سے مہارت پیدا ہوتی ہے اور مہارت ہی کی بنیاد پر کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ ہر شعبے میں باصلاحیت نوجوانوں کی آمد جاری رہتی ہے ‘مگر سنجیدگی نہ اپنانے پر بہت سوں کو بہت جلد دل برداشتہ ہوکر باہر کا راستہ دیکھنا پڑتا ہے۔ جس نے کچھ کرنے کا طے کرلیا ہے‘ وہ صرف اتنا یاد رکھے کہ یومیہ بنیاد پر کی جانے والی مشق ہی سے صلاحیت پروان چڑھتی اور نکھرتی ہے۔ مہارت کا حصول مشق کے بغیر ممکن نہیں۔ اور ‘مشق بھی وہ جو کوچ کی ہدایات کے مطابق ہو۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کا یہی راز ہے کہ کوچ سے راز کی باتیں جانیے اور مشق کی راہ پر چل کر مہارت کی منزل تک پہنچئے۔ بامقصد زندگی بسر کرنے کا یہی سب سے کارآمد طریقہ ہے۔