"MIK" (space) message & send to 7575

بچ کر تو گزرنا ہے‘ مگر …!

کسی بھی ماحول یا مجموعی طور پر پورے معاشرے میں ہر رجحان ''چین ری ایکشن‘‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کرتا ہے‘ یعنی ماچس کی ایک ڈبیا کو گرائیے تو کھڑی کی ہوئی ہر ڈبیا گرتی چلی جاتی ہے۔ اگر‘ کہیں بہت سی بائیسکلز قطار میں کھڑی کی ہوئی ہوں تو ایک بائیسکل کے گرنے سے تمام بائیسکلز گرتی چلی جاتی ہیں۔ رجحان کا معاملہ بھی تو یہی ہے۔ لوگ دیکھا دیکھی بہت کچھ کرنے لگتے ہیں۔ اچھے اور بُرے تمام معاملات کا یہی حال ہے۔ 
کسی بھی معاشرے میں سوچ کا رخ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ لوگ کس طرف جائیں گے ... توازن‘ استحکام اور خوش حالی کی طرف یا پھر مکمل بدحالی اور انتشار کی طرف۔ جنہیں معاشرے کی فکر لاحق ہوتی ہے‘ وہ سوچ کا رخ متعین کرنے پر غیر معمولی محنت کرتے ہیں‘ متوجہ رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ غلط‘ بے بنیاد یا کمزور سوچ پورے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ سوچنے اور لکھنے والے اس حوالے سے متحرک رہے ہیں۔ 
ڈیوڈ پولے نے اپنی ''دی لا آف دی گاربیج ٹرک‘‘ میں یہ نکتہ بالتصریح بیان کیا ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہماری زندگی میں منفی سوچ رکھنے والے نہ ہوں۔ منفی سوچ رکھنے والوں سے نمٹنے کے لیے ڈیوڈ پولے نے کچرے کی گاڑی کا اصول بیان کیا ہے۔ اُن کی کتاب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جب کچرے کی گاڑی گزرتی ہے تو ہم ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں اور اُسے گزرنے دیتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کچرے کی گاڑی اُس کے نزدیک رُکے اور وہ اُس کا جائزہ لے۔ کچرے کی گاڑی میں ہمارے لیے بدبو کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ منفی سوچ رکھنے والے بھی کچرے کی گاڑی کے مانند ہوتے ہیں۔ اُن کی سوچ میں پائی جانے والی بدبو ہمارے کسی کام کی نہیں ہوتی۔ ہو بھی نہیں سکتی۔ دانش کا تقاضا ہے کہ کچرے کی گاڑی کو گزرنے دیا جائے اور تب تک بدبو سے بچنے کا بھی اہتمام کیا جائے۔ یہی معاملہ منفی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ اُن کے خیالات میں پائی جانے والی بدبو (کبھی کبھی تعفّن) سے بچنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جانی چاہیے۔ 
مرتے دم تک ہمارا واسطہ ہر طرح کی سوچ رکھنے والوں سے پڑتا رہتا ہے۔ کسی کی سوچ بالکل مثبت ہوتی ہے اور کسی کی بالکل منفی۔ کچھ لوگ بَین بَین چلتے ہیں‘ یعنی مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہوئے بھی ضرورت پڑنے پر منفی سوچ کو گلے لگانے سے اجتناب نہیں برتتے۔ یہی حال اُن کا ہے‘ جو بالعموم منفی سوچ کی طرف جُھکے رہتے ہیں ‘مگر کبھی کبھی مثبت سوچ بھی اپنالیتے ہیں۔ 
پاکستانی معاشرے کا عمومی رجحان یہ ہے کہ ہر معاملے میں لگی بندھی ہی نہیں‘ خاصی منفی سوچ اپنائی جائے۔ حالت یہ ہے کہ اپنے پڑوس میں‘ علاقے میں اور شہر میں کچھ تبدیل ہوتا ہوا دیکھنے پر بھی لوگوں کو تبدیل ہونے کا خیال نہیں آتا۔ عمومی چلن یہ ہے کہ زندگی جس طور گزر رہی ہے‘ گزرنے دی جائے۔ جب انسان زندگی کے حوالے سے کوئی واضح اور ٹھوس سوچ نہیں اپناتا‘ تب بہت کچھ خرابی کی طرف رواں رہتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں درستی کی طرف جانے کے لیے غیر معمولی توجہ کے ساتھ بھرپور محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر‘ معاملات کو خرابی کی نذر ہونے دینا ہو تو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہی معاملہ سوچ کا بھی ہے۔ مثبت سوچ کو پروان چڑھانا اور اُس پر عمل کرنا انتہائی دشوار ہے۔ ساری محنت اس کام ہی پر لگانا پڑتی ہے۔ منفی سوچ کو اپنانے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ جہاں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے پر توجہ نہ دی جائے وہاں منفی سوچ خود بخود پنپنے لگتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں ہر طرف بالعموم منفی سوچ ہی کارفرما دکھائی دے رہی ہے۔ لوگ ہر معاملے میں خرابی کی طرف مائل ہیں۔ درستی اور اصلاحِ نفس کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے‘ دل پر اچھا خاصا جبر کرنا پڑتا ہے۔ تو پھر کوئی اصلاحِ نفس اور مثبت سوچ کی راہ پر کیوں گامزن ہو؟ 
منفی سوچ کسی خاص طبقے یا گروہ کا مسئلہ نہیں‘ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو بھی اپنے گھر‘ حلقۂ احباب اور خاندان میں ایسے متعدد افراد کا سامنا ہو ‘جن کی سوچ یکسر منفی ہو۔ یہ امر افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔ منفی سوچ کا پنپتے جانا فطری امر ہے‘ کیونکہ اس کے لیے محنت نہیں کرنا پڑتی اور عمومی سطح پر عام آدمی کو یہ اطمینان بھی رہتا ہے کہ جیسے سب ہیں ویسا ہی وہ بھی ہے! اہلِ دانش کہتے ہیں کہ انسان کو معاشرے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ اگر سب کی سوچ منفی ہو تو آپ بھی منفی سوچ اپنائیں؟ جی نہیں‘ یقیناً نہیں۔ معاشرے سے ہم آہنگ ہونا اُس وقت لازم ہے جب اُس کا عمومی چلن درست ہو‘ مثبت سوچ پنپ چکی ہو اور لوگ زندگی کا معیار بلند کرنے والے اعمال میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوں۔ جب بہت کچھ درست ہو رہا ہو تو انسان کو درستی کی راہ پر چلنا پڑے گا۔ ایسے معاشرے میں اگر‘ کوئی منفی سوچ پروان چڑھائے اور اُس پر عمل کرے تو عجیب لگے گا۔ 
کئی عشروں کے دوران پنپنے والی بے دِلی‘ بے ذہنی اور بے حِسی کے باعث پاکستانی معاشرے میں خرابیوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں معاملات کا بگاڑ اِتنا بڑا ہے کہ اب کچھ بھی اپنے مقام پر دکھائی نہیں دے رہا۔ جن کی سوچ واضح طور پر درست ہو ‘وہ عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ منفی سوچ اس حد تک پھیل چکی ہے کہ مثبت سوچ کا مظاہرہ کرنے والے کسی اور دنیا کے محسوس ہوتے ہیں! 
یہ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ ریاستی سطح پر نوٹس لیا جانا لازم ہے۔ صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ معاملہ جسم تک محدود نہیں۔ قوم کی ذہنی صحت کا معیار بلند کرنا اور بلند رکھنا بھی ریاست کی ذمہ داروں میں شامل ہے۔ تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ بچوں کو چھوٹی عمر سے غیر محسوس طور پر ایسی تعلیم بھی دیں ‘جس سے اُن کی ذہنی صحت درست رہے اور جب وہ عملی زندگی کا آغاز کریں تب مثبت سوچ کے ساتھ عمل پسند رویہ اپناکر اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے کی سمت رواں ہوں۔ شخصی ارتقائ‘ تحریک و تحرّک اور مثبت سوچ ایسے معاملات ہیں جو بچپن ہی میں بتائے جانے چاہئیں۔ چھوٹی عمر ہی سے ذہن پر وجود کی اہمیت اور ماحول سے تعلق واضح ہو جائے ‘تو معیاری زندگی بسر کرنے کی راہ آسانی سے ہموار کی جاسکتی ہے۔ 
ڈیوڈ پولے نے جو مشورہ دیا ہے وہ اپنی جگہ صائب سہی ‘مگر اس پر عمل میں احتیاط لازم ہے‘ کیونکہ ذرا سی عدمِ توجہ سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والوں سے دور رہنا ہے‘ ذرا بچ کر گزرنا ہے مگر اِس طور کہ اُنہیں یہ بات محسوس نہ ہو اور اگر محسوس ہو بھی تو اس حد تک نہیں کہ طبعِ نازک پر گراں گزرے۔ ہمیں گھوم پھر کر رہنا تو اپنے ماحول ہی میں ہے۔ ہم اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ منفی سوچ سے بچنے کی ہر کوشش اِس عزم کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ہم متعلقین کی سوچ کو مثبت بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں