"MIK" (space) message & send to 7575

عرفانِ ذات سے قبولِ عام تک

یہ دنیا کسے قبول کرتی ہے؟ سُنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ دنیا چڑھتے سُورج کی پوجا کرتی ہے۔ اور یہ کہ دنیا کو لات مارو‘ دنیا سلام کرے۔ پوری دنیا میں پائی جانے والی سب سے عام رائے یہ ہے کہ یہ دنیا اُنہیں سلام کرتی ہے‘ جو اسے جُوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ جب کسی کے عروج کا زمانہ شروع ہوتا ہے تو لوگ دیوانہ وار اور والہانہ انداز سے اُس کی طرف لپکتے ہیں‘ سراہتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً پرستش کرنے لگتے ہیں۔ 
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ دنیا چڑھتے سُورج کی پُوجا کیوں کرتی ہے اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو سراہنے کے معاملے میں لوگ دیوانگی کی حد کو کیوں چُھونے لگتے ہیں؟ اور یہ کہ کامیابی کی صورت میں نک چڑھے پن کا مظاہرہ کرنے والوں کو لوگ سَر آنکھوں پر کیوں بٹھاتے ہیں؟ یہ دونوں سوال نفسی حقیقتوں سے متعلق ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ دنیا کا ہر انسان کامیابی کے لیے ادا کی جانے والی قیمت اچھی طرح جانتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے اور خود کو منوانے کے لیے انسان کو سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ ہم مقابلے کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ قدم قدم پر مسابقت کا سامنا ہے۔ ذرا سی لغزش سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوئی اگر‘ اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کا نہ سوچے تو دوسرے بہت تیزی سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے شعبے میں پیش رفت یقینی بنائے رکھنے کے لیے انسان کو مسلسل کام کرنا پڑتا ہے‘ مسابقت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کلیے سے کسی کو استثناء حاصل نہیں۔ کوئی کیسا ہی صاحبِ حیثیت ہو‘ اُسے‘ اگر شخصی ارتقاء یقینی بنانا ہے تو اپنے پورے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقل بنیاد پر محنت کرنا پڑے گی۔ 
غیر معمولی سطح کی مسابقت سے دوچار ہونے پر انسان کو غیر معمولی توجہ کے ساتھ بھرپور محنت کرنا پڑتی ہے۔ دن رات ایک کرکے جب کوئی کامیابی حاصل کرتا ہے تو اُسے برقرار رکھنے کے لیے بھی اپنے پورے وجود کو مصروفیت سے ہم کنار کردیتا ہے۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد سے پوچھ دیکھیے۔ وہ کامیابی سے متعلق اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے حوالے سے جدوجہد کے بارے میں بتائیں گے ‘تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ کامیابی کے لیے انسان کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ کس قدر تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ کامیاب افراد کی آپ بیتیاں پڑھنے سے آپ کو یہ اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے کہ زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لیے منصوبہ سازی کس طور کی جاتی ہے اور پھر عمل کی دنیا میں کس طرح قدم رکھا جاتا ہے۔ 
کسی بھی شعبے میں فقید المثال کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں کو شہرت اور مقبولیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ شہرت اور مقبولیت کسی جواز کے بغیر نہیں ہوتی۔ لوگ‘ اُسی کا احترام کرتے ہیں جس نے اپنے آپ کو احترام کے قابل بنایا ہو۔ اب‘ آئیے اس سوال کی طرف کہ کسی بھی شعبے میں کامیاب کون ہوتے ہیں۔ کامیابی صرف اُنہیں ملتی ہے جو اپنے آپ کو پہچاننے اور سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ؎ 
اُنہی کو جانتا ہے یہ زمانہ 
جو اپنے آپ کو پہچانتے ہیں 
جس نے اپنے وجود کو پہچانا وہی کامیاب ہوا۔ کامیابی کی طرف بڑھنے کے لیے مکمل مطابقت رکھنے والی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ اس تیاری کا پہلا مرحلہ ہے‘ اپنے آپ کو پہچاننا‘ یعنی اپنے رجحانات‘ میلانات‘ لگن‘ صلاحیت اور سکت کا درست اندازہ لگانا۔ جب انسان اپنے مزاج کے جُھکاؤ کو جانتا ہے تب ہی یہ بھی سمجھ پاتا ہے کہ بھرپور کامیابی کے لیے کیا اور کس طور کرنا ہے۔ جو اپنے مزاج کو سمجھنے میں ناکام رہے وہ اور کچھ تو پاسکتا ہے‘ حقیقی کامیابی نہیں پاسکتا۔ دنیا بھر میں ایسے کروڑوں افراد ہیں‘ جو اپنے آپ کو سمجھنے میں ناکام رہنے پر عملی زندگی میں ناکام رہے اور صلاحیت و سکت رکھنے کے باوجود وہ سب کچھ نہ کر پائے ‘جس کا انہوں نے ارادہ بھی کر رکھا تھا۔ 
دنیا کامیاب افراد کو قدر کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے؟ دنیا کی تفہیم کے حوالے سے یہ ایک اہم سوال ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں‘ جو دوسروں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فتح یاب ہونے کے لیے کسی کا شکست سے دوچار ہونا لازم ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دو حریف میدان میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں اور دونوں ہی فاتح کہلائیں۔ حتمی تجزیے میں کسی ایک کا ہارنا لازم ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ حتمی تجزیہ ہر اعتبار سے خالص ہونا چاہیے۔ سبھی جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کچھ بننا‘ کچھ کر دکھانا کتنا مشکل ہے۔ کسی بھی شعبے میں انٹری کوئی مسئلہ نہیں‘ مگر نام کمانا اب جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ جو لوگ کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں ‘وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھرپور کامیابی کے لیے ان تھک محنت کرنا پڑتی ہے۔ اور اس سے قبل متعلقہ شعبے میں غیر معمولی مہارت کا حصول بھی لازم ہے۔ یہی سبب ہے کہ کامیابی کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود بیشتر افراد اپنے شعبے میں کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ وہ چونکہ کامیابی کی قیمت جانتے ہیں‘ اس لیے جو یہ قیمت ادا کرے‘ اُسے احترام کی نظر سے ضرور دیکھا جاتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والے یہ نکتہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنہوں نے کامیابی حاصل کی ہے ‘انہوں نے پہلے اپنے آپ کو سمجھا ہے‘ پھر ماحول اور متعلقہ شعبے کے حالات کو سمجھا ہے اور یوں اپنی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنے کے بعد بہت سے معاملات میں ایثار سے کام لیا ہے‘ قربانی دی ہے‘ تب کہیں جاکر کامیابی کا منہ دیکھا ہے۔ 
عرفانِ ذات کے بغیر حقیقی کامیابی ہاتھ نہیں لگتی۔ جو اپنے وجود کے ہر پہلو کو اچھی طرح جانتے ہیں وہی کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں اور پھر اُن کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ عرفانِ ذات کی منزل سے گزر کر ہی انسان دنیا کو بھی سمجھنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے لیے سب سے بڑھ کر ہمارا اپنا وجود ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ وہ ہم پر اثر انداز ہوتا ہے اور جواباً ہم بھی اس دنیا کو تبدیل یا متاثر کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ جس نے بھی اپنے شعبے میں مثالی نوعیت کی کامیابی پائی ہے ‘وہ پہلے اپنی ذات کی گہرائی میں اُترا ہے۔ اپنے وجود کا تعمّق سمجھنے کے بعد جب تگ و دَو کا آغاز کیا جاتا ہے‘ تب دنیا تماشائی ہوتی ہے۔ معاملہ علم و ادب کا ہو فطری علوم و فنون کا‘ کھیلوں کا ہو یا صنعت و تجارت کا‘ سماجی خدمات کا ہو یا فنونِ لطیفہ کا ‘ ہر شعبے میں وہی کامیاب ہوتے ہیں‘ جو اپنی ذات میں ڈوبنے کے بعد اُبھرتے ہیں اور اپنی تفہیم سے مطابقت پیدا کرنے کے بعد دنیا کو کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
دنیا ؛چونکہ اس بات کو جانتی‘ مانتی اور سمجھتی ہے کہ اپنے آپ کو سمجھے بغیر حقیقی کامیابی ممکن نہیں‘ اس لیے مثالی کامیابی حاصل کرنے والوں کی طرف لپکتی ہے‘ اُنہیں سراہتی ہے‘ اُن سے کچھ سیکھنا اور پانا چاہتی ہے۔ ہم چڑھتے سُورج کی پجاری قرار دے کر دنیا کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ مگر یہ نہیں سوچتے کہ کسی کو سُورج کی طرح طلوع ہونے اور پھر بلند ہونے میں کتنے جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں