"MIK" (space) message & send to 7575

نظامِ زندگی؟ … ہاہاہا!

ہر چیز کی ایک قیمت ہوا کرتی ہے جو ادا کیے بغیر چھٹکارا ممکن نہیں۔ اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو کچھ دینا پڑے گا۔ نہیں دے گا یعنی مفت میں کچھ چاہے گا تو بگاڑ پیدا ہوگا۔ یہ بگاڑ ابتدائی مرحلے میں دوسروں کے لیے ہوسکتا ہے‘ مگر بات گھوم پھر کر اُس تک بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔ 
اللہ کی طرف سے ہمیں جو کچھ بھی عطا کیا جاتا ہے اُس کی ایک خاص قیمت ہوتی ہے‘ جس کا ادا کیا جانا لازم ہے۔ پہلے نمبر پر شکر ہے۔ جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے عطا ہو اُس کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ ایسا بھی کرنا ہوتا ہے جس سے وہ نعمت زیادہ بارآور ثابت ہو۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں اُن پر اللہ کی عطا بڑھ جاتی ہے۔ یہ معاملہ دو اور دو چار کی طرح بالکل سادہ ہے اس لیے اس کے سمجھنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ بارش کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ملک بھر میں بارشیں ہو رہی ہیں۔ موسم ہی بارش کا ہے۔ یہ واحد موسم ہے جو اپنی تاثیر و تاثر کے اعتبار سے رب کی خصوصی رحمت کا پتا دیتا ہے۔ پانی زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ نہ ہو تو جینا ممکن نہ رہے۔ پینے کے صاف پانی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بارش بھی تو ہے۔ گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو ہمیں چشموں‘ جھرنوں‘ ندیوں اور دریاؤں کے ذریعے میٹھا یعنی پینے کا پانی ملتا ہے۔ بارش ہماری مشکل کو بہت حد تک ختم کردیتی ہے۔ جن علاقوں میں زیادہ بارش ہوتی ہے وہاں کے رہنے والے ہی اس نعمت کی حقیقت جانتے ہیں۔ پورے ماحول کی صفائی میں بارش بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ دیہی علاقوں میں بارش زمین کے لیے ''لائف لائن‘‘ بن کر آتی ہے۔ زمین کی زرخیزی بڑھتی ہے۔ دریاؤں میں پانی آنے سے ڈیم بھرتے ہیں۔ دریاؤں کے ذریعے سمندر کی طرف بڑھتا ہوا پانی تقسیم کے مراحل سے گزرتا ہوا نہروں کے ذریعے زرعی اراضی تک پہنچتا ہے اور فصلوں کی تیاری میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ 
ملک کے تقریباً تمام بالائی علاقوں میں کھل کر‘ بلکہ رج کے بارشیں ہوئی ہیں۔ ڈیم بھرگئے ہیں۔ دریاؤں کی سطح بلند ہوچکی ہے۔ دور افتادہ علاقوں کے لیے بھی پانی کا اہتمام ہوچلا ہے۔ اللہ کی رحمت کو ترسے ہوئے لوگوں کی تشفّی ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بارش سے پورے ماحول کو جو تازگی ملتی ہے اُس کی افادیت کو کسی بھی پیمانے سے ماپا اور جانچا نہیں جاسکتا۔ 
اہلِ کراچی ہر سال بارش کو ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ شہر میں اگر کہیں بادل کھل کر برس جائیں تو سمجھ لیجیے ''موجاں ای‘‘ ہو جاتی ہیں۔ ابرِ کرم برسے تو بچے خوشی سے ناچتے ہوئے گھروں سے نکل آتے ہیں۔ برستا پانی اُن کے لیے میلے کا سماں پیدا کرتا ہے۔ جگہ جگہ کھڑے ہو جانے والے پانی میں اچھلنا کودنا ذرا سی دیر میں بچوں کا محبوب ترین مشغلہ بن جاتا ہے۔ ایسے میں بیمار پڑنے کا سوچا جاتا ہے نہ کیچڑ سے جسم اور کپڑوں کے گندا ہو جانے کا۔ اور کوئی یہ سب کیوں سوچے؟ بارش کی شکل میں برسا ہوا پانی تو اللہ کی رحمت کا مظہر ہے۔ اس میں خرابیاں کیوں تلاش کی جائیں؟ ایک زمانے سے میڈیا والوں کا وتیرہ ہے کہ کچھ دیر بارش ہو جائے تو سنسنی خیز انداز سے رپورٹنگ کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بارش کے نتیجے میں چند ایک مسائل بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے مقامات پر نکاسی کا بہتر انتظام نہ ہونے کے باعث پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ جہاں مٹی زیادہ پڑی ہو بارش کا پانی وہاں کیچڑ پیدا کرتا ہے۔ ذرا سی تیز بارش سے کئی علاقوں کی بجلی بھی چلی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر اللہ کی رحمت اپنی جگہ۔ بارش ہو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس کی ذات نے ہم پر کرم کیا‘ پانی برسایا اور زمین کو نئی زندگی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول کو تازگی بھی بخشی۔ 
ایک زمانے سے عوام کا عمومی مزاج یہ ہوگیا ہے کہ بارش کے لیے دعائیں مانگتے ہیں مگر جب ابرِ کرم برسنے پر آئے تو دلوں پر خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ بارش سے مستفید ہونے اور اُس کے تاثر کو قبول کرکے اپنے آپ کو ہشّاش بشّاش بنانے پر متوجہ ہونے کے بجائے لوگ بارش کے پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں اور کیچڑ کا سوچ سوچ کر ہلکان ہونے لگتے ہیں۔ اُدھر پانی برس رہا ہوتا ہے اور اِدھربعض لوگ جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں۔ بارش سے موسم کے خوش گوار ہو جانے اور ماحول میں تازگی در آنے کا ذکر کرنے سے زیادہ اُن مسائل کا رونا رویا جاتا ہے جو بارش کے ہاتھوں جنم لیتے ہیں۔ جہاں تین تین چار چار سال بارش نہ ہوئی ہو وہاں جب ابرِ کرم برسے تو لوگوں کو شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ موسم اور ماحول کی تبدیلی سے لطف کشید کرنا چاہیے۔ بارش کے سائیڈ ایفیکٹس سے زیادہ ایفیکٹس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ برستا ہوا پانی اور اُس کے بعد ماحول میں پیدا ہونے والی ترنگ ... دونوں مل کر ہمیں ایک عجیب کیفیت سے ہم کنار کرتے ہیں۔ بارش کھل کر ہو تو ایسا لگتا ہے کہ زندگی میں کوئی کمی تھی جو اللہ نے اپنی رحمت سے پوری کردی۔ سائیڈ ایفیکٹس ہر موسم کے ہوتے ہیں۔ شدید گرمی بھی ہمیں بیماریوں‘ بلکہ وباؤں سے دوچار کرتی ہے اور شدید سردی بھی ناطقہ بند کردیتی ہے۔ ایسے میں اگر بارش سے بھی تھوڑی بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے تو ردعمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسے کوئی قیامت ٹوٹ پڑی ہے! ایک زمانے سے میڈیا کا عمومی چلن یہ ہے کہ جہاں بارش ہو وہاں کسی بھی مثبت تبدیلی کے رونما ہونے کی اطلاع دینے سے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ نظامِ زندگی درہم برہم ہوگیا! یہ بات ہم آج تک سمجھ نہیں پائے۔ اس معاشرے میں کون سا نظامِ زندگی پایا جاتا ہے جو درہم برہم ہو جاتا ہے؟ کچھ بھی تو ٹھکانے پر نہیں۔ ایسے میں کچھ دیر کی بارش کو موردِ الزام ٹھہرانا شدید نوعیت کا ناشکرا پن ہی کہلائے گا۔ 
موسلا دھار بارش سے لطف اندوز ہونے کے معاملے میں بڑوں کو بچوں کی نقل کرنی چاہیے۔ برستے پانی میں بچے جس طرح بھرپور مسرت کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی بارش کے دوران بھرپور مسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ جب زمین سمیت پورے ماحول کو نئی زندگی عطا کی جارہی ہو تب ہمارے ذہن کے پردے پر سب سے پہلے صرف اللہ کا شکر ادا کرنے کا تصور ابھرنا چاہیے۔ بارش کے باعث پیدا ہونے والے کیچڑ کو دو چار دن جھیلنے میں کچھ ہرج نہیں۔ کسی بھی موسم کے ہاتھوں چند ایک پریشانیاں بھی لاحق ہوتی ہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ میں شدید برف باری سے کئی علاقے ہفتوں باقی معاشرے سے کٹے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بالائی علاقوں کا یہی حال ہے۔ پھر بھی لوگ جیتے ہیں اور رب کا شکر ادا کرنا نہیں بھولتے۔ اسی طور انتہائی گرم علاقوں کے مکین بھی بہت کچھ جھیل کر زندہ رہتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں بارش جیسی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کو اولین ترجیح کا درجہ دینا چاہیے۔ نعمتوں کے عطا کیے جانے کا تعلق تشکر سے ہے۔ جس میں جتنی شکر گزاری ہوگی اُسے اُسی قدر نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ ہماری حتمی نوعیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہر موسم میں صابر و شاکر رہیں۔ ابرِ کرم کے برسنے پر نظامِ زندگی کے درہم برہم ہونے کا سوچنے کے بجائے اللہ کی رحمت سے حِظ اٹھانے‘ استفادہ کرنے کا تصور ذہن کے پردے پر جلوہ گر ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں