"MIK" (space) message & send to 7575

جھوٹی اُمید کا دائرہ

فلمیں کس لیے ہوتی ہیں؟ تفریح ِ طبع کے لیے؟ یا ہمیں کچھ سکھانے کے لیے؟ یا دونوں مقاصد کی تکمیل کے لیے؟ آج کل جو فلمیں بنائی جارہی ہیں‘ اُن پر تفریح کا عنصر غیر معمولی حد تک غالب ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ فلموں کے ذریعے معاشرے کو اچھے بُرے میں تمیز کا شعور سکھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ فی زمانہ جو فلمیں بنائی جارہی ہیں‘ وہ حقیقی دنیا کے بہت سے معاملات سے متعلق ہوتے ہوئے بھی خالص فینٹیسی ‘یعنی تصوراتی دنیا پر مشتمل ہوتی ہیں۔ کہانی کچھ اس طور ترتیب دی جاتی ہے کہ ہال میں بیٹھ کر فلم دیکھنے والا ہر شخص خود کو ہیرو کی جگہ سمجھے اور چاہے کہ جو کچھ ہیرو کے ساتھ ہوا ہے‘ وہی کچھ اُس کے معاملے میں بھی ہو۔ 
فلمیں ؛چونکہ خیالی دنیا کی آئینہ دار ہوتی ہیں‘ اس لیے اِن میں نفسی معاملات کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ ہیرو کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ فلم بین اُس کے ذریعے اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں۔ بیشتر فلمیں تفریح کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت نفسی تسکین کا بھی اہتمام کرتی ہیں اور فلم ختم ہونے پر ہال سے باہر آنے والے خود کو خاصا ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ فلم کے غریب ہیرو کی زندگی میں اچانک کوئی مالدار شخص آجاتا ہے ‘جو اُس کا ہاتھ تھام کر اُس کی تمام مشکلات ختم کردیتا ہے یا پھر حالات کے ہاتھوں بے کسی اور افلاس کے ستائے ہوئے ہیرو کو انڈر ورلڈ کی کوئی بڑی شخصیت اپنا بنالیتی ہے اور یوں اُس کے دُلدّر دور ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہال میں بیٹھا ہوا غریب و پریشان حال نوجوان بھی خود کو ہیرو کے مقام پر دیکھنے لگتا ہے اور کچھ دیر کے لیے ایسا محسوس کرتا ہے کہ اُس کی بھی تمام مشکلات دور ہوگئی ہیں‘ تمام مسائل حل ہوگئے ہیں۔ 
ٹکٹ خرید کر فلم دیکھنے والے جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ سکرین پر دیکھیں گے ‘وہ خیالی دنیا ہوگی ‘مگر یہ خیالی دنیا اُنہیں کچھ دیر کے لیے سکون ضرور بخشے گی۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی محنت کی کمائی فلم کے ٹکٹ پر خرچ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہی معاملہ لاٹری ٹکٹ کا بھی ہے۔ لاٹری کا ٹکٹ روشن‘ خوش حال اور محفوظ مستقبل کے خواب دیکھنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کسی بڑی لاٹری یا پرائز بانڈ کا ٹکٹ خریدنے والا کروڑوں میں کھیلنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ خواب دیکھنے پر چونکہ کوئی پابندی عائد ہے ‘نہ ٹیکس لگتا ہے ‘اس لیے آپ کسی بھی قسم کا خواب بلا روک ٹوک دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی خواب دیکھنا آپ کو کسی بھی الجھن میں مبتلا نہیں کرسکتا۔ ہاں! کسی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے نکلئے تو لگ پتا جائے گا۔ 
عام تصور یہ ہے کہ جب لاٹری لگتی ہے یا پرائز بانڈ پر انعام نکل آتا ہے ‘تب زندگی بدل جاتی ہے۔ پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔مسائل حل ہو جاتے ہیں۔قدم قدم پر آسانیاں بچھ جاتی ہیں اور کروڑوں پانے والا وہ سب کچھ کرنے لگتا ہے ‘جو اُس کے من میں سما جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ 
لاٹری لگنے یا پرائز بانڈ پر انعام نکلنے کی صورت میں سب کو ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی لاکھوں‘ کروڑوں میں کھیل رہا ہے ‘جبکہ درحقیقت بیشتر معاملات میں خطیر رقم اُس سے کھیل رہی ہوتی ہے! دنیا بھر میں لاٹری جیتنے والوں سے متعلق کی جانے والی تحقیق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جیتنے والوں کو زر تو بہت ملتا ہے‘ مگر ساتھ ہی ساتھ اُن کی زندگی سے بہت کچھ چلا بھی جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جس کی لاٹری لگ گئی ‘اُس کی زندگی ایسی تبدیلی ہوئی کہ پھر کسی پریشانی نے اُس کے گھر کا رخ نہ کیا۔ بیشتر معاملات میں ہوتا یہ ہے کہ لاٹری جیتنے والا گوناگوں مسائل میں گِھر جاتا ہے۔ اچانک مل جانے والی دولت پہلے سے موجود چند بڑے مسائل حل کرتی ہے‘ مگر چند بڑے مسائل پیدا بھی کرتی ہے۔ 
یو کے نیشنل لاٹری کا منتظم کیملوٹ گروپ کہتا ہے کہ 44 فیصد لاٹری ونرز پانچ سال کے اندر اندر اپنی پوری دولت لٹاکر دوبارہ قلّاش ہوچکے ہوتے ہیں۔ برطانیہ کے دی نیشنل اینڈومنٹ فار فنانشل ایجوکیشن نے یہ تناسب 70 فیصد تک بیان کیا ہے! اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بغیر محنت کی کمائی کو لوگ ''مالِ مفت را‘ دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق خاصی لاپروائی سے خرچ کرتے ہیں اور دریا دِلی کی راہ پر چلتے ہوئے ‘اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ دوسروں کی زندگی بھی تباہ ہونے لگتی ہے! بہت سے کیسز میں ایسا بھی ہوا کہ لاٹری جیتنے والے نے کسی دوست کو اتنا نوازا کہ وہ بُرائی کے راستے پر چلتے ہوئے جوا اور دیگر نشہ آور اشیاء کا ایسا رسیا ہوا کہ بالآخر پورا وجود ہی داؤ پر لگ گیا! 
کیا راتوں رات‘ ہاتھ پیر ہلائے بغیر مل جانے والی ڈھیروں دولت سے مسرت خریدی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ملی جلی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مسرت کا دولت سے گہرا تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تعلق گہرا بھی ہے ‘مگر ساتھ ہی ساتھ ہی یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ دولت سے حقیقی مسرّت کا حصول ممکن نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب انسان کے پاس راتوں رات ڈھیروں دولت آجاتی ہے تو اُس کی ذہنی کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ بدلی ہوئی ذہنی کیفیت بہت سے معاملات کو نئے زاویوں سے دیکھنے کی تحریک دیتی ہے اور یوں انسان پر ایک نئی دنیا منکشف ہوتی ہے۔ لاٹری جیتنے والوں کے اہلِ خانہ‘رشتہ داروں اور حلقۂ احباب کی ذہنیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ شدید مالی مشکلات سے دوچار افراد تھوڑی بہت مالی مدد پانے کے لیے خوشامد اور چاپلوسی پر اُتر آتے ہیں۔ لاٹری جیتنے والوں کے لیے یہ سب کچھ بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے کبھی سلام دُعا کی زحمت گوارا نہ کی ہو‘ وہ بھی گلے لگاتے ہیں تو انسان ہر ایک کے خلوص کو خوشامد سمجھنے لگتا ہے۔ اگر‘ کوئی ہنس کر بات کرے تو گمان گزرتا ہے کہ اگلے ہی لمحے پیسے مانگ بیٹھے گا۔ اور بیشتر معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے! 
جن کے حالات بُرے ہوں‘ وہ ''کاش‘‘ کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ حالات بہتر بنانے کے لیے خاطر خواہ منصوبہ سازی کے ساتھ بھرپور محنت کرنے کی بجائے ایسے لوگ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کاش کہیں سے کوئی مددگار آجائے اور تمام مسائل حل کردے۔ یا پھر لاٹری نکل آئے۔ لطیفہ یہ ہے کہ حالات کے ستائے ہوئے بہت سے لوگ ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری نکلنے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں! لاٹری لگ جانے کی خواہش بھی انسان کو خیالی دنیا کی سیر کراتی ہے۔ انسان سوچتا ہی رہتا ہے کہ ڈھیروں دولت مل جائے تو تمام مسائل حل کرلیے جائیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ لاٹری لگے تو کسی ایک یا چند افراد کی لگے گی‘ باقی سب تو اپنے اپنے مسائل کے کنویں ہی میں مقیّد رہیں گے۔ 
پس‘ ماندہ ممالک کی حکومتوں کی طرح ان معاشروں کے پس ماندہ عوام بھی اپنے اپنے‘ یعنی ''پرسنل آئی ایم ایف‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں‘ تاکہ زندگی کو الجھنوں سے نجات دلانے والا کوئی ''بیل آؤٹ پیکیج‘‘ مل جائے! 
کاش کے دائرے سے نکل کر عمل کی دنیا میں قدم رکھنے والے ہی ہر اعتبار سے کامیاب رہتے ہیں۔ کسی مسیحا کا انتظار کرنے والے انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں‘ جنہیں کچھ بننا اور کرنا ہے‘ وہ خوابوں‘ خیالوں کی دنیا سے باہر آئیں اور جُھوٹی اُمّید کے دائرے سے نکل کر عمل پسندی پر مبنی طرزِ فکر و عمل کے ساتھ جینے کی عادت ڈالیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں