ہم اِس پار کھڑے ہیں۔ اِس پار بہت کچھ ایسا ہے‘ جو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ زندگی لاحاصل خیالات اور چیزوں کا مجموعہ ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایسی بہت سی باتوں کو زندگی کا حصہ بنا بیٹھے ہیں‘ جو ہمارے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں‘ نہ ہمارے کسی کام کی ہیں۔ ایک زندگی وہ ہے‘ جو دریا کے اِس طرف ہے اور دوسری زندگی وہ ہے‘ جو دریا کے اُس پار ہے۔ اُس پار کی زندگی میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم اِس پار جو زندگی بسر کر رہے ہیں‘ وہ مجموعی طور پر قابلِ رشک ہے‘ نہ اطمینان بخش۔ جو مل جائے ‘وہی مقدر کے مصداق ‘ہم یہ زندگی جھیلنے پر مجبور ہیں ‘یعنی زبردستی کا سَودا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اُس پار کیسے جایا جائے؟ ہم زندگی بھر اِس پار اور اُس پار کے درمیان جاری کشمکش میں گِھرے رہتے ہیں۔
آج کی دنیا میں دل کو بھرپور مسرّت سے ہم کنار کرنے والے امکانات بھی ہیں اور شدید مایوسی سے دوچار کرنے والے حالات و معاملات بھی۔ کبھی منزل واضح طور پر دکھائی دیتی ہے ‘مگر راہ نظر نہیں آتی۔ کبھی راہ تو بالکل صاف دکھائی دیتی ہے‘ مگر منزل کا کچھ پتا نہیں ملتا۔ دھوپ چھاؤں کا کھیل جاری رہتا ہے۔ اس کھیل کا اثر ہماری اجتماعی نفسیات پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
دو کناروں کی کیفیت انسان کی ذہنی ساخت سے ہمیشہ چمٹی رہی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے‘ جس کے ساتھ ہم جی رہے ہیں۔ ہمیں سہولتیں بھی میسر ہیں اور آسائشیں بھی۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ آسائش کا تو پوچھنا کیا‘ کوئی بنیادی سہولت بھی ڈھنگ سے میسر نہیں۔ اُن کے لیے زندگی عذاب کی صورت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ اُن کا بھی ہے‘ جو بظاہر متمول اور خوش و خرم ہیں۔ زندگی اُن کے لیے بھی آسان سَودا نہیں۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش رکھتا ہے اور اِس خواہش کو عملی شکل دینے کیلئے کوشاں رہتا ہے‘ تاکہ مرضی کی زندگی بسر کرنا زیادہ سے زیادہ آسان ہوسکے۔ اِس حوالے سے ہر انسان کی کوششوں کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ کسی میں جوش و جذبے کا گراف بہت بلند ہوتا ہے۔ وہ زیادہ کوشش کرتا ہے اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتا ہے۔
بعض لوگ خراب حالات کے آگے بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ بہر کیف‘ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُس پار جانے کی کوشش سبھی کرتے ہیں۔ جو زیادہ کوشش کرتے ہیں وہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ مستقل مزاجی کی نعمت سے محروم اور حالات سے لڑنے کی تربیت حاصل نہ کر پانے والے کامیابی کی راہ پر زیادہ دور تک چل پاتے۔
انسان کا ایک معاملہ ایسا ہے ‘جو بیک نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ یہ ہے‘ اپنے حالات سے خوش نہ رہنا۔ محمد حسین آزادؔ کا مضمون ''انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ آپ نے ضرور پڑھا ہوگا۔ یہ مضمون ہماری نفسی ساخت کا حصہ بن چکا ۔ اس شاہکار اور کلاسک مضمون میں محمد حسین آزادؔ نے نفسی ساخت کے ایک اہم معاملے کو غیر معمولی حُسن و ندرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ہر حال میں ناشکرے پن کا مظاہرہ کرنے والوں اور محرومی کا رونا رونے والوں کی طرزِ فکر و عمل پیش کرکے آزادؔ نے اپنے قارئین کو شکر گزاری اور احسان مندی کی راہ دکھائی۔
کسی بھی حال میں خوش نہ رہنا بہت حد تک ذہنی‘ بلکہ روحانی مرض ہے ‘مگر قدرت نے اِس میں بھی ایک روشن پہلو رکھا ہے۔ جو لوگ کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتے‘ اُن میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں ‘جو کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘تاکہ زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی آئے‘ آگے بڑھنا ممکن ہو‘ زیادہ خوش حالی کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔ جب اِنسان اپنے حالات سے غیر معمولی بیزاری محسوس کرتا ہے تب کچھ نیا کرنے کا سوچتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ ایسا کر دکھائے کہ لوگ دیکھیں تو حیران رہ جائیں اور اُس کی صلاحیت و سکت کو تسلیم کریں۔ یہ ارادہ اُسی وقت پروان چڑھتا ہے جب انسان نے کچھ نیا کرنے کا سوچنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ تیاری بھی کرلی ہو۔ ماحول اِس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ حالات محض حوصلہ شکنی ہی نہیں کرتے ‘بلکہ کبھی کبھی حوصلے کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا میں سب سے نمایاں چیز ہے؛ تفاوت‘ یعنی مختلف معاملات میں اور مختلف سطحوں پر پایا جانے والا فرق۔ امیر و غریب کا فرق‘ خواندہ و ناخواندہ کا فرق‘ پُرجوش و پژمردہ کا فرق‘ باریک بین و کوتاہ بین کا فرق۔ زندگی کے ہر معاملے میں مختلف سطحوں پر فرق بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ہماری ساری جدوجہد اِس فرق کو کم کرنے ہی کے لیے تو ہے۔ جو غریب ہے وہ دولت چاہتا ہے۔ جسے اٹھتی جوانی میں علم حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا ہو‘ وہ بڑی یا ڈھلتی ہوئی عمر میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے‘ جس کی صحت اچھی نہیں وہ چاہتا ہے کہ نا صرف یہ کہ تندرست ہو جائے‘ بلکہ قابلِ رشک صحت کا حامل ہو۔ کوئی محض اس حسرت میں مرا جارہا ہے کہ کوئی اُسے جانے‘ پہچانے اور تسلیم کرے۔ دیکھا جائے تو یہ ہر انسان کا معاملہ ہے‘ مگر بعض لوگ اس راستے پر اِتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اخلاقی طور پر صحیح اور غلط کا فرق نظر انداز کرکے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔
تو قصہ یہ ہے کہ اِس پار کھڑا ہوا ہر شخص اُس پار جانا چاہتا ہے۔ جو زندگی بسر کی جارہی ہے‘ اُس سے کہیں بہتر زندگی تک رسائی کی خواہش انسان کو فکر و عمل کے کئی مراحل سے گزارتی ہے۔ حالات و واقعات کی گہرائی میں اُتر کر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سارا کھیل ہی اِس پار سے اُس پار کا ہے۔ ہم جہاں کھڑے ہیں اُسے ایک کنارے کے طور پر لیتے ہوئے دوسرے کنارے تک جانا چاہتے ہیں۔ جن کا ارادہ اس حوالے سے جوان ہو وہ اچھی زندگی بسر کرتے ہیں۔ سبھی چاہتے ہیں کہ جہاں ہیں وہاں نہ رہیں‘ بلکہ آگے جائیں۔ اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرنا بھی لازم ہوتا ہے اور لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ہاں‘ اتنا ہے کہ کسی کی کوششیں غیر معمولی توانائی لیے ہوئے ہوتی ہیں اور کسی میں اپنی کوششوں کو توانا بنانے کی زیادہ قوت نہیں پائی جاتی۔
مسابقت کی اِس دنیا میں سبھی اُس پار جانے کے تمنائی ہیں۔ یہ تمنا اُن کے باطن میں امید کا چراغ بھی روشن رکھتی ہے۔ جب انسان اپنے لیے کسی ہدف کا تعین کرتا ہے‘ کسی منزل تک پہنچنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو بہت کچھ کر گزرنے کی قوت خود بخود پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے‘ جسے سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ قدرت بھی تو ہم سے یہی چاہتی ہے کہ ہم جہاں ہیں وہاں کھڑے یا پڑے نہ رہیں ‘بلکہ نئی منزلوں کی طرف دیکھیں‘ اپنے لیے کچھ نیا کرنے کا راستہ چُنیں۔ ہم میں سے جو بھی اُس پار جانے کا ارادہ کرتا ہے اُسے قدرت کی طرف سے غیر معمولی تعاون نصیب ہوتا ہے۔ بنیادی سوال نیت کے اخلاص اور ارادے کی پختگی کا ہے۔ انسان اولوالعزم ہو تو قدرت اُس کے اٹھائے ہوئے ایک قدم کے جواب میں دو قدم آگے بڑھتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اُسے تھام کر خود آگے بڑھاتی ہے۔
تو پھر کیا خیال ہے؟ آپ بھی حال ہی مست رہیں گے اور اِس پار کھڑے رہیں گے یا پھر اُس پار جانے کا مصمّم ارادہ کرکے خواہشات کو عملی شکل بھی دیں گے؟