ہر ریاست چاہتی ہے کہ اُس کی حدود میں بسنے والے تمام افراد ذمہ دار شہری کہلائیں۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کسی ریاست کے باشندے ذمہ دار شہری کا درجہ رکھتے ہوں اور ریاست کی مجموعی بہبود میں کماحقہ کردار بھی ادا کرتے ہوں؟ پاکستان کی ریاستی مشینری بھی چاہتی ہے کہ تمام پاکستانی ذمہ دار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کریں۔ خیال اچھا ہے‘ مگر ریاستی مشینری نے اسے دوسری طرف سے قبول کیا ہے۔ پاکستان میں بسنے والوں کو ذمہ دار شہری بنانے پر متوجہ رہنے کی بجائے تمام معاملات میں ذمہ دار قرار دے کر جان چھڑالی گئی ہے!
یہ تصور اور فرض کرلیا گیا ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں اپنے لیے بہتر حالات پیدا کرنا اور امکانات کی راہ ہموار کرنا شہریوں کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ریاستی مشینری کا فرض ہے کہ شہریوں کیلئے امکانات پیدا کرنے پر متوجہ رہے اور کسی بھی خرابی کے اثرات کی راہ زیادہ سے زیادہ مسدود کرے ‘تاکہ شہری الجھن محسوس نہ کریں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی ناخوش گوار صورتِ حال میں اصلاحِ احوال کی ذمہ داری حالات کی چِکّی میں پسنے والے مجبور و ناتواں شہریوں کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ خرابی موسم کی پیدا کردہ ہو یا انسانوں کی‘ ریاست یہ سمجھ رہی ہے کہ اُس کی تو کوئی ذمہ داری بنتی ہی نہیں۔ اور ‘یہ کہ اب جو کچھ بھی کرنا ہے ‘شہریوں ہی کو کرنا ہے۔
کراچی میں حالیہ بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ کئی بچے بھی جاں بحق ہوئے۔ اہلِ شہر کے لیے یہ سب کچھ انتہائی تلخ تھا‘ مگر متعلقہ اداروں نے اپنی ذمہ داری نبھانے سے بہت حد تک گریز ہی کیا۔ بجلی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے نے سسٹم کی خرابیاں دور کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی‘ جس کے نتیجے میں صورتِ مزید بگڑی۔ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے حقائق جاننے کے لیے کمیٹی بنائی ‘جس کی رپورٹ کے مطابق‘ کے الیکٹرک نے غفلت کا مظاہرہ کیا‘ سسٹم میں پائی جانے والی خرابیاں دور نہیں کیں اور اس کے نتیجے میں متعدد شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کئی دن سے ''شہری سیلاب‘‘ کا غلغلہ بلند ہے۔ محکمۂ موسمیات نے موسلا دھار بارش اور اس کے نتیجے میں شہری سیلاب کی پیش گوئی کرکے شہریوں کے دل دہلا دیئے ہیں۔ رہی سہی کسر میڈیا‘ بالخصوص چینلز نے پوری کردی ہے۔ میڈیا کا یہ حال ہے کہ رائی کا دانہ میسر ہو تو پربت میں تبدیل کرکے ہی سکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ یہ روش دو عشروں سے برقرار ہے۔ اِس حوالے سے اصلاحِ احوال کی کوششیں اب تک زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں اور کچھ یہ بات بھی ہے کہ بیشتر کوششیں نیم دلانہ رہی ہیں!
خیر‘ اب ریاستی مشینری عملاً کچھ کرنے سے زیادہ لوگوں کو الرٹ رہنے کے مشورے دینے تک محدود ہوگئی ہے۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تحریک دی جاتی ہے۔ لوگوں کو کسی بھی ناخوش گوار یا پریشان کن صورتِ حال کے حوالے سے پہلے ہی سے تیار رہنے کی ہدایت کرنا متعلقہ اداروں کا فرض ہے‘ مگر معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا۔ ان اداروں کو بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ بیشتر ریاستی اداروں نے خود کو صرف اس بات تک محدود کرلیا ہے کہ عوام کو ہدایات اور مشوروں سے نوازا جائے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ایک ایس ایم ایس جاری کیا‘ جو اہلِ کراچی کے لیے تھا۔ ایس ایم ایس کا متن کچھ یوں تھا ''تین دن تک بارشوں کی وجہ سے 'شہری سیلاب‘ کا خطرہ ہے۔ اپنی گلی اور محلے میں پانی کی نکاسیِ چیک کریں اور بند نالیوں کی صفائی کریں (یا کرائیں)۔‘‘ یہ ایس ایم ایس بظاہر خوش کُن ہے کہ شہریوں کو ممکنہ ''شہری سیلاب‘‘ سے خبردار کیا گیا ہے۔ اب‘ اگر کوئی ڈوب جائے تو یہ شکوہ نہیں کیا جاسکتا کہ اُسے سیلاب کی آمد کا علم نہ تھا! یعنی جو ڈوبے وہی ذمہ دار۔ چلئے‘ یہاں تک تو بات معقول ہے۔ اگلے مرحلے میں کہا گیا ہے کہ شہری پانی کی نکاسی چیک کریں اور بند نالیوں کی صفائی کریں۔ سوال یہ ہے کہ پورے ملک میں ایسا کون سا شہری ہے‘ جو اپنے گھر کی بند نالیوں کو کھلوانے پر متوجہ نہیں ہوتا؟ گلی یا محلے کی نالیاں بند ہوں تو متعلقہ اداروں کے پہنچنے سے پہلے شہری اپنی مدد آپ کے تحت‘ یعنی اپنی اپنی جیب سے مال نکال کر صفائی کراتے ہیں۔ نالوں کو صاف کرانا؛ البتہ شہریوں کے بس کی بات نہیں۔ این ڈی ایم اے نے شہریوں کو ایس ایم ایس کے ذریعے جو مشورہ دیا ہے‘ وہ بظاہر خوش کُن سہی ‘مگر بہ باطن حماقت کی انتہا کے سِوا کچھ نہیں۔ گلی یا محلے میں نکاسی کا نظام درست کرنا شہریوں کی ذمہ داری نہیں‘ مگر پھر بھی وہ اپنی سہولت کیلئے اِس مرحلے سے گزرتے ہیں۔ لوگ اپنی فوری تکلیف دور کرنے کے حوالے سے تھوڑا بہت مالی بوجھ برداشت کرلیتے ہیں۔ بہت سے لوگ معقول رقم خرچ کرکے علاقے سے کچرا یا مٹی اٹھواکر صفائی کا اہتمام کرتے ہیں‘ تاکہ بیماریوں سے بچ سکیں۔ یہی حال نکاسی کے نظام کا بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اپنے حصے کا کام کس حد تک کر پارہی ہے۔ شہر کے نالوں کا بُرا حال ہے۔ کہیں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما ہو تو بروقت امدادی کارروائی اور بحالی یقینی بنانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں صرف مشوروں سے کام چلانا سمجھ میں آنا چاہیے۔ جو جتنا کرسکتا ہے‘ اُتنا ہی تو کرسکتا ہے۔
ایک زمانے سے ہمارے ہاں ریاستی مشینری کا چلن یہ ہے کہ شہریوں کو الرٹ کرکے مطمئن ہو رہتی ہے۔ سلامتی کے معاملات کا بھی یہی حال ہے۔ کنٹینر لگاکر علاقے بند کرکے سمجھ لیا جاتا ہے کہ سکیورٹی اقدامات کا حق ادا ہوگیا۔ اہم اور حساس مواقع پر پورے علاقے بلاک کرکے سکون کا سانس لیا جاتا ہے کہ سکیورٹی کا اہتمام ہوگیا۔ یہ سوچنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا کہ ایسا کرنے سے کتنے لوگوں کو کتنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومتی اور ریاستی مشینری نے آسان راستہ یہ ڈھونڈ نکالا ہے کہ غیر سرکاری فلاحی اداروں کی رجسٹریشن کرکے اُنہیں کام کرنے کی بھرپور آزادی دی جائے۔ عطیات کی بنیاد پر کام کرنے والے غیر سرکاری فلاحی ادارے ملک بھر میں عوام کی خدمت پر مامور ہیں اور اُن کی کارکردگی کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ جن ریاستی یا سرکاری اداروں کو عوام کی خدمت کرنی ہے ‘وہ غیر فعال ہیں یا اگر فعال ہیں بھی تو بس اِتنے کہ خانہ پُری سمجھ لیجیے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ریاستی مشینری نے اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ جیسی خوبصورت اصطلاح گھڑلی ہے۔ کوئی پوچھے کہ سرکاری سکولز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کسی کے حوالے کرنے کی منطق کیا ہے تو کوئی معقول جواب نہیں مل پاتا۔ کوئی سرکاری سکول اگر ڈھنگ سے چلایا نہیں جارہا تو متعلقین کو فارغ کیا جائے۔ کوئی سرکاری ہسپتال ‘اگر غریبوں کا معقول علاج نہیں کر پارہا تو طبی‘ نیم طبی اور انتظامی عملے کو نکال باہر کیا جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر نا اہلوں کو بچانے اور مزید پالنے کی کیا منطق ہے؟کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔
سیاست دانوں کا احتساب تو خوب ہو رہا ہے۔ ریاستی مشینری کا احتساب کب ہوگا؟ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر نا اہل ریاستی اداروں کو کب تک کور فراہم کیا جاتا رہے گا؟ وقت آگیا ہے کہ ریاستی مشینری کا بھی کڑا احتساب ہو اور ہر نا اہل کو فارغ کیا جائے۔ اگر‘ سب کچھ غیر سرکاری فلاحی اداروں ہی کو کرنا ہے تو پھر بہبودِ عامہ کے ریاستی اداروں کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے؟