ہر پسماندہ معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سی باتوں کا رونا باقاعدگی اور تواتر سے رویا جاتا ہے۔ ایک بڑا رونا اِس بات کا ہے کہ وقت پہلا سا نہیں رہا۔ بالکل ٹھیک۔ مگر جناب‘ یہ بتائیے کہ کہاں‘ کِس معاشرے میں اور کِس خطے میں وقت پہلا سا رہ گیا ہے؟ کون سا معاشرہ ہے‘ جو الف سے ی تک تبدیل ہونے سے محفوظ رہا ہے؟ شاید کوئی ایک معاشرہ بھی ایسا نہیں‘ جس کی بنیادی اقدار تہہ و بالا ہوکر نہ رہ گئی ہوں‘ پورا ڈھانچہ ہی تلپٹ نہ ہوگیا ہو۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں‘ جو زیادہ سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ آجر کی زبان ''ڈو مور‘‘ کی گردان کرتے نہیں تھکتی۔ اجیر پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ آجر پر بھی دباؤ ہے۔ کِس کا؟ کرم فرماؤں‘ یعنی کسٹمرز کا‘ اور کِس کا! سب اپنے دباؤ کو ٹرانسفر کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی فطری ہے‘ مگر اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ فطری ہے ‘مگر اُس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔
آج دنیا کے ہر انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کچھ اب سے چالیس پچاس سال پہلے تک ہوتا آیا تھا اور معاشرے کے عمومی چلن کا حصہ تھا‘ وہ اب ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکا۔ یہ ایک بدیہی زمینی حقیقت ہے‘ جسے سمجھنے سے انکار کرنے والوں کو صرف اور صرف خسارے کا سامنا رہتا ہے۔ انسان نے جو کچھ کم و بیش تین ہزار سال کے دوران سوچا اور کیا تھا‘ اُس کا نچوڑ ہمارے سامنے ہے۔ ڈھائی تین ہزار سال کی بات تو جانے ہی دیجیے‘ تین چار سو سال پہلے تک کا انسان جو کچھ محض سوچا کرتا تھا اور سوچ کر ہی حسرت سے دل تھام لیتا تھا‘ وہ سب کچھ واقع ہوچکا‘ رُو بہ عمل دکھائی دے رہا ہے۔ بہت کچھ ایجاد اور دوسرا بہت کچھ دریافت کیا جاچکا ۔
آج دنیا میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے‘ وہ انتہائی قابلِ رشک ہے۔ دو ڈھائی سو سال پہلے تک جو سہولتیں بادشاہوں تک کو میسر نہ تھیں‘ وہ آج عام آدمی کی دسترس اور استعمال میں ہیں! عقل کو دنگ کرنے والی یہ سہولتیں اس قدر عام ہیں اب کسی کو کسی بات پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ جو کچھ عام ہوچکا ہو‘ اُس میں حیران کردینے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔
آج کی دنیا ایک طرف بہت سی سہولتیں دیتی ہے اور دوسری طرف بہت سے مطالبات بھی کرتی ہے۔ ٹیکنالوجیز کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت نے کئی شعبوں کیلئے پنپنے کی بات تو چھوڑئے‘ بقاء کی گنجائش بھی نہیں رہنے دی۔ بعض شعبے ختم ہوچکے ہیں۔ اختراعات کا بازار گرم ہے۔ لوگ بھی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے صنعت کاروں سے ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ زندگی بہت سے معاملات میں انتہائی آسان ہوگئی ہے‘ مگر دوسری طرف چند ایک ایسی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں‘ جن کا کوئی جواب نہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہر آجر چاہتا ہے کہ اُس کا اجیر کسی ایک شعبے میں مہارت نہ رکھتا ہو ‘بلکہ بہت سی صلاحیتوں کا مجموعہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ مارکیٹ میں ''سمارٹ اجیر‘‘ کی زیادہ ویلیو ہے۔ اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ‘جو دوسروں سے زیادہ اور بہتر کام کرتا ہو۔
اگر ہم کھیتوں سے چُن کر کپاس کو مارکیٹ میں لائیں تو اُس کے پیسے کم ملتے ہیں۔ کپاس سے سُوت‘ یعنی دھاگا کات کر مارکیٹ میں لائیں تو مجموعی قدر بڑھ جاتی ہے‘ یعنی اچھی قیمت ملتی ہے۔ اگر دھاگے کی بجائے کپڑا بن کر مارکیٹ میں لایا جائے تو دھاگے کی قدر مزید بڑھ جاتی ہے اور کپڑے کی قیمت اچھی خاصی ملتی ہے۔ اور اگر کپڑے کی بجائے لباس بناکر بیچا جائے تو سمجھ لیجیے کپاس قیمت کے لحاظ سے کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ اسی کو ویلیو ایڈیشن کہتے ہیں۔ معیشت کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز میں جس قدر ویلیو ایڈیشن ہوگی ‘اُس کی قدر (قیمت) میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور خام شکل میں بیچے جانے سے کئی گنا منافع کا حصول یقینی ہو جائے گا۔
انسانوں کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ اگر کوئی مزدور کرتا ہے تو تھوڑا کماتا ہے۔ آجر کو خوش رکھنے کے لیے وہ تھوڑی زیادہ محنت کرسکتا ہے‘ بس۔ ہاں‘ جب وہی مزدور کوئی ہنر سیکھ کر اُس میں غیر معمولی محنت شامل کرتا ہے تو یافت بڑھ جاتی ہے۔ اب اگر وہی مزدور کئی ہنر سیکھے اور محنت کی عادت بھی ترک نہ کرے تودر یافت بڑھنے کے ساتھ زندگی کا معیار بھی بلند تر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ تو ہوا محنت کا معاملہ جو قدرے خام نوعیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی پڑھا لکھا شخص ‘یعنی وائٹ کالر جاب کرنے والا کسی ایک شعبے میں مہارت رکھتا ہے تو دل جمعی سے محنت کرنے کی صورت میں اُس کے لیے امکانات کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اور اگر یہی شخص اپنی بنیادی مہارت کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ مزید دو تین مہارتیں بھی حاصل کرے تو؟ پھر تو یہ سمجھ لیجیے کہ قابلِ رشک کامیابی کی راہ کو ہموار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ہر شعبے میں ایسے افراد کی ہمیشہ طلب رہتی ہے‘ جو پرسنل ویلیو ایڈیشن پر یقین رکھتے ہیں‘ یعنی اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اُن کی تعداد بھی بڑھاتے رہتے ہیں۔ آئیے‘ صحافت ہی کے شعبے کو مثال بناتے ہیں۔ اگر کوئی سب ایڈیٹر یعنی خبروں کی ادارت اچھی طرح کرلیتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ جاب اِس صورت میں بھی چلتی ہے۔ اور اگر سب ایڈیٹر ترجمہ کرنے کی صلاحیت اور مہارت رکھتا ہو تو؟ اُس کی خدمات سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور ادارہ بھی اُسے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اور اگر یہی شخص میگزین کے لیے فیچر لکھنے اور انٹرویو کرنے کی صلاحیت اور لگن بھی رکھتا ہو تو؟ ایسی صورت میں اُسے ادارے کے لیے اثاثے کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ جاب تو دوسرے بھی کر رہے ہوں گے‘ مگر اُس کی قدر زیادہ ہوگی۔ بات سیدھی سی ہے‘ اُس نے پرسنل ویلیو ایڈیشن پر ‘یعنی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ باہنر اور بارآور بنانے پر زیادہ توجہ دی ہے۔
معاشرے میں وہی افراد اور گھرانے پنپتے ہیں ‘جو پرسنل ویلیو ایڈیشن پر متوجہ رہتے ہیں۔ وہی ڈاکٹر زیادہ کامیاب ہوتے ہیں‘ جو مختلف حوالوں سے خصوصی مہارت کے حصول پر یقین رکھتے ہیں۔ وہی دکان دار کامیاب رہتے ہیں جو اپنی دکان پر آنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ وہی ٹیچر مقبولیت پاتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ مضامین تندہی اور سلاست سے پڑھا پاتے ہیں۔ وہی کرکٹر قوم کی آنکھوں کا تارہ بنتے ہیں‘ جو آل راؤنڈر بننے پر متوجہ رہتے ہیں‘ یعنی بیٹنگ‘ باؤلنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈرائیور اگر گاڑی کو چلانے کے ساتھ ساتھ اُس کی چھوٹی موٹی خرابیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تو سیٹھ کی نظر میں اُس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔
یاد رکھیے‘ بہتر زندگی کے لیے‘ یعنی دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنے کے لیے ایسا بہت کچھ سیکھنا اور کرنا پڑے گا‘ جو دوسروں سے ہٹ کر ہو۔ اپنے آپ کو مختلف حوالوں سے غیر معمولی حد تک کارآمد اور بارآور بنانے ہی کو پرسنل ویلیو ایڈیشن کہتے ہیں۔ کسی بھی ماحول یا معاشرے میں ایسے لوگ بھیڑ سے الگ دکھائی دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے کچھ زیادہ کرنے کی تحریک کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ پانے کے لیے زیادہ سیکھنا اور زیادہ کرنا ہی پڑے گا۔ ملازمت ہو یا اپنا کاروبار‘ اگر مثالی نوعیت کی کامیابی درکار ہے تو زیادہ سے زیادہ سیکھ کر ناگزیر ہوجائیے۔ بھرپور کامیابی کا یہی بہترین ''شارٹ کٹ‘‘ ہے!