"MIK" (space) message & send to 7575

زمانے کی تفہیم

انسان بہت کچھ سمجھ نہیں پاتا اور جو کچھ وہ بالکل سمجھ نہیں پاتا ‘اُس میں وقت نمایاں ترین مقام رکھتا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں روئے ارض پر قیام کے لیے جو وقت ملا ہے‘ وہ بہرحال محدود ہے۔ ایک خاص مدت کے بعد اس دنیا سے ہمارا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے گا‘ کھاتا بند کردیا جائے گا۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے ‘جس کے حوالے سے ہمارے ذہن میں کوئی شک یا ابہام ہونا نہیں چاہیے ‘مگر کیا کیجیے کہ ایسی سامنے کی بات بھی ہماری پوری توجہ حاصل کرنے میں بالعموم ناکام رہتی ہے۔ 
ایسا کیوں ہے؟ ہم وقت کو نظر انداز کیوں کرتے رہتے ہیں؟ وقت ہی سے تو ہماری عمر بنی ہے۔ اس دنیا میں ہمارے قیام کی حقیقی پیمائش اگر کی جاسکتی ہے ‘تو صرف وقت کے پیمانے سے۔ پھر بھی ہم وقت کو درخورِ اعتناء سمجھنے سے گریزاں کیوں رہتے ہیں؟آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ایسا دانستہ کیا جا رہا ہے؟ 
وقت کی تفہیم کے لحاظ سے انسان بہت عجیب مزاج کا واقع ہوا ہے۔ وہ یا تو گزرے ہوئے وقت میں رہتا ہے یا پھر آنے والے وقت میں۔ گزرتے ہوئے وقت کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ‘نہ ڈھنگ سے برتنے کی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ گزرتا ہوا وقت پایا نہیں جاتا! ہم لمحہ لمحہ اپنی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آنے والے لمحات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ گزرتے ہوئے لمحے کی تفہیم بہت بڑا دردِ سر ہے۔ گزرے ہوئے لمحات ‘یعنی ماضی کو شناخت کرنا آسان ہے ‘کیونکہ وہ ہمارے حافظے‘ بلکہ نفسی ساخت کا حصہ ہیں۔ اسی طور جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں‘ اُس کے بارے میں سوچنا اور کسی حد تک پریشان ہونا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ یہ پریشانی اس لیے بھاتی ہے کہ ایسی صورت میں دل کو یہ سوچ کر سکون محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے کچھ سوچ تو رہے ہیں!اپنے لیے کچھ کر تو رہے ہیں! 
زمانے کی تفہیم انسان کے بنیادی مسائل میں بہت نمایاں ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو اس حوالے سے کچھ سوچتے ہیں‘ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی تفہیم کے مطابق عمل کی تیاری کرتے ہیں۔ گزرتا ہوا وقت ہی اِس بات کا مستحق ہے کہ اُسے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اِسی لیے تو ہمارے رب نے بھی زمانے کی قسم کھائی ہے۔ لمحہ موجود سے بڑھ کر وقت کا کوئی حصہ ہمارے لیے اہم نہیں۔ خالص علمی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وقت کوئی چیز ہے نہیں۔ ہر لمحہ ایک دھوکا سا محسوس ہوتا ہے۔ آنے والا پل آتے ہی چلا جاتا ہے۔ پھر ہم کہاں جی رہے ہیں؟ بات اتنی سی ہے کہ وقت کی حقیقت کو سمجھنا ہمارے ذہن کے بس کی بات نہیں۔ اور یوں بھی ہم نے وقت کی پیمائش کے جو معیارات مقرر کیے ہیں ‘وہ ہمارے ذہن کے مطابق ہیں‘ کائنات کے خالق نے اس حوالے سے جو کچھ بھی طے کر رکھا ہے‘ وہ ہماری سوچ سے بہت مختلف اور پرے ہے۔ زمانہ یا وقت اگر کچھ نہ ہوتا تو رب نے اُس کی قسم کیوں کھائی ہوتی؟ کائنات میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آتا۔ اور باقی جو کچھ ہے وہ بھی کم کم ہی سمجھ میں آتا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس حیران رہ جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ 
مگر کیا محض حیران رہ جانا کافی ہے؟ یقینا نہیں ‘کیونکہ ہمیں بہت کچھ سمجھنے کی اپنی سی کوشش کرنی ہے‘ تاکہ زندگی کی سمت درست رہے اور ہم اس دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ بامقصد اور بارآور بناسکیں۔ جو کچھ ہمیں اس دنیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے اُسے سمجھنے کی کوشش لازم ہے ‘تاکہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ متوازن‘ مستحکم اور مفید بنانا ممکن ہوسکے‘مگر اس سے پہلے خود وقت یا زمانے کو سمجھنے کی کوشش لازم ہے۔ ہمیں اس دنیا میں قیام کے لیے جو میعاد یا مدت بخشی گئی ہے ‘وہ ہم سے بہت سے تقاضے کرتی ہے۔ وقت کو سمجھنا بھی ایسا ہی ایک تقاضا ہے۔ دنیا میں وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں اور اپنے رب کو راضی رکھنے میں بھی ناکام نہیں رہتے جو وقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اسی کوشش کے مطابق ‘زندگی بسر کرتے ہوئے خود کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ہر دور کا انسان یا تو ماضی کی بُھول بُھلیّوں گم رہا ہے یا مستقبل کے گلیاروں میں بھٹکتا رہا ہے۔ جو کچھ گزر چکا ہے وہ بھی ہمارے لیے کام کا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھا جاسکتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر ہم بہت سے معاملات میں اپنی اصلاح کا اہتمام کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ علم و فن کے حوالے سے ماضی کی وراثت ہماری زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ 
اس کے باوجود یہ ممکن نہیں (اور قرینِ دانش بھی نہیں) ہم مستقل بنیاد پر ماضی میں داخل ہوکر شب و روز وہاں بسر کیا کریں۔ کسی جواز کے بغیر گزرے ہوئے زمانوں میں کھوئے رہنے سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ مستقبل کا بھی ہے۔ جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں‘ اُس کے بارے میں بہت زیادہ متفکر رہنا کسی بھی طور درست اور قرینِ دانش نہیں۔ آنے والے زمانے سے نپٹنے کے موزوں طریقے سوچنے میں کچھ ہرج نہیں۔ یہ تو بہت حد تک لازم ہے‘ تاکہ بدلے ہوئے زمانے کے مطابق خود کو بدلنا ہمارے لیے زیادہ الجھن کا باعث نہ ہو‘ مگر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہم مستقبل کی دہلیز پر لمحہ موجود کو قربان نہیں کرسکتے۔ گزرے ہوئے زمانوں کو سمجھنا بہت آسان ہوتا ہے‘ کیونکہ اُن زمانوں میں جو کچھ بھی ہوا وہ تمام جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ آنے والے دور کا؛ چونکہ سِرے سے کوئی وجود ہی نہیں ‘اس لیے اُس کے بارے میں ایک خاص حد تک ہی سوچا جاسکتا ہے۔ اور یہی طرزِ فکر و عمل درست ہے‘ کیونکہ قرینِ دانش ہے۔ 
سب سے بڑی بات ہے عصری تقاضوں کی تفہیم اور اُن کا نبھایا جانا۔ گزرتا ہوا وقت ہم سے بہت کچھ مانگتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہنا اس لیے لازم ہے کہ ایسا کرنے سے ہم دوسروں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ہر معاشرے کے لیے سب سے بڑا کام گزرتے ہوئے وقت کو سمجھتے ہوئے اُس کے تقاضے نبھانا ہی ہے۔ جو معاشرے ایسا کر پاتے ہیں وہ کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ افرادی سطح پر بھی ہے۔ ہر انسان کو عصری تقاضوں کی تفہیم کے ذریعے اپنا آپ بدلنا ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر ''اپ گریڈیشن‘‘ کی یہی ایک صورت ہے۔ واضح رہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُسے جاننا محض ''اپ ڈیٹنگ‘‘ ہے۔ لوگ عام طور پر خود کو اپ ڈیٹ کرکے مطمئن ہو رہتے ہیں کہ ڈھنگ سے جینے کا حق ادا ہوگیا! ایسا نہیں ہے۔ اپ گریڈیشن خود کو تازہ ترین معلومات سے مزیّن کرنے‘ یعنی اپ ڈیٹ ہونے کے بعد کی منزل ہے۔ اپ گریڈیشن کا مطلب ہے خود کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے صلاحیت و سکت کا دائرہ وسیع کرنا۔
زمانے کی تفہیم کا یہی مفہوم ہے کہ ہم گزرتے ہوئے وقت کو سمجھتے ہوئے خود کو بدلیں اور آنے والے زمانے کے لیے بہتر تیاری ممکن بنائیں۔ اس معاملے میں ماضی قریب و بعید سے بھی ایک خاص حد تک مدد لی جاسکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں