"MIK" (space) message & send to 7575

جو کھوگئی وہ چیز کیا تھی!

جس کے سینے میں دل ہے یہ زمانہ اُس کے لیے یا تو ہے ہی نہیں یا پھر اس انداز سے ہے کہ وہ بچ بچ کے رہے‘ سنبھل سنبھل کے چلے۔ جو بھی دن گزرتا ہے وہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے جاتا ہے۔ مادّی اعتبار سے بے مثال ترقی کے ثمرات ہمیں میسّر ہیں‘ مگر جب معاملات اخلاقی و تہذیبی اقدار کے آتے ہیں تب ذہن اُلجھ سا جاتا ہے‘ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ ؎ 
کبھی جو خواب تھا وہ پالیا ہے 
مگر جو کھوگئی وہ چیز کیا تھی! 
بہت کچھ مل گیا ہے‘ مگر دوسرا بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل اور پھسل چکا ہے اُس کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کیا جارہا ہے‘ گویا دیکھے کو اَن دیکھا کیا جارہا ہے۔ زندگی کے دامن میں بہت کچھ ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ''ورلڈومیٹر‘‘ کے مطابق اس وقت عالمی آبادی کم و بیش 7 ارب 70 کروڑ ہے۔ روئے زمین پر اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کا پایا جانا غیر معمولی پیچیدگیوں کا سبب بنے بغیر رہ نہیں سکتا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بالخصوص شہروں کی گنجان ہوتی ہوئی آبادی بہت سے ایسے مسائل پیدا کر رہی ہے‘ جن کے حل پر توجہ نہ دینے کی صورت میں زندگی کا بچا کھچا توازن بھی نابود ہو رہے گا۔ 
فیصل آباد کے نزدیک چک نمبر 232 کے عامر گجر ہمارے اُن مہربانوں میں سے ہیں جو روزانہ ہمارا کالم پڑھنے ہی کی منزل میں رک کر نہیں رہ جاتے‘ بلکہ ہمارے ذہن (اور کسی حد تک اَنا) کا پیٹ بھرنے کے لیے ''فیڈ بیک‘‘ بھی دیتے ہیں۔ عامر گجر بھی بہت سے دوسرے پاکستانیوں کی طرح ''جلن‘ کڑھن‘‘ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ جلن اور کڑھن خدا ناخواستہ ویسی نہیں جو حسد کے زمرے میں آتی ہے بلکہ ہم حالات کی روش کے حوالے سے خونِ دل کے جلنے کی بات کر رہے ہیں۔ دو دن قبل عامر گجر کی کال آئی تو اُنہوں نے پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین موضوع چھیڑ دیا‘ یعنی یہ کہ ملک کا‘ لوگوں کا بنے گا کیا؟ موصوف اس بات کا رونا رو رہے تھے کہ قدم قدم پر بے اصولی ہے‘ قوانین کے احترام سے گریز پایا جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی کیسے جیے‘ خاص طور پر وہ جو قوانین کا احترام کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں! ہم نے عرض کیا کہ بھائی‘ یہ سب تو یونہی چلتا رہے گا۔ ہمیں اسی تالاب یا دریا میں رہنا اور بہنا ہے۔ اس میں جو مچھلیاں ہیں وہ بھی ہماری ہیں اور جتنے مگرمچھ ہیں وہ بھی ہمارے ہی ہیں۔ انہی کے درمیان جینا ہے‘ گزارا کرنا ہے۔ عامر گجر کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ لوگ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ زندگی جیسی نعمت کو یوں ضائع کیا جارہا ہے گویا کہیں سے کچرے کا ڈھیر تھما دیا گیا ہے اور اُس سے جان چھڑائی ہے! عامر گجر مطالعے کے حوالے سے بھی سنجیدگی کے قائل ہیں۔ یہ اندازہ ہم نے اس بات سے لگایا ہے کہ وہ ہمارے کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں! اضافی خلوص یہ ہے کہ وہ ہمارے غیر اعلانیہ ''پبلسٹی منیجر‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے احباب کو ہمارے کالم پڑھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ یوں ہماری کمپنی کی مشہوری کا ایسا بھرپور اہتمام ہوا ہے کہ ہم لکھنے کے حوالے سے مزید سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ خیر‘ عامر گجر اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے پاکستانیوں کے مقدر میں ایسا بہت کچھ ہے جو اُن کی پسند کا نہیں۔ ایسے میں دل برداشتہ ہونا فطری امر ہے‘ مگر حق یہ ہے کہ دل برداشت ہونے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ ہر خرابی ایک چیلنج کی طرح ہوتی ہے جس کے دامن میں بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ رکنے کا نشان نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ایسا بورڈ ہوتا ہے جس پر آگے بڑھنے کے حوالے سے ہدایات درج ہوتی ہیں۔ مسائل ہی تو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم میں کون کون سی خرابیاں پائی جاتی ہیں اور یہ کہ اُن خرابیوں کو دور کیے بغیر زندگی کا رخ بدلا جاسکتا ہے نہ معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ 
آج ہمارے شب و روز مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کو چیلنج کا درجہ دینا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم مسائل کو سامنے پاکر صرف پریشان ہوں گے تو عامر گجر اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح دل مَسُوس کر رہ جائیں گے۔ معاملات کی خرابی پر الجھن میں مبتلا ہونا‘ دل کا دُکھنا حیرت انگیز ہے نہ غلط۔ حسّاس طبیعت رکھنے والا ہر انسان ماحول کی خرابی دیکھ کر آزردہ ہی ہوگا۔ ہونا بھی چاہیے۔ مگر محض آزردہ ہو رہنے سے بات بنتی نہیں۔ جن کا دل دُکھتا ہے اُنہیں اس سے ایک قدم آگے جاکر عملی سطح پر کچھ ایسا بھی کرنا ہوتا ہے جو معاملات کو درستی کی طرف لے جائے۔ خرابیوں کا کام ہے پیدا ہوتے رہنا۔ وہ رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ ہمارا بھی تو کچھ کام ہے۔ ہمیں خرابیوں کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے تگ و دَو کرتے رہنا ہے۔ خرابیوں کو بریک نہیں لگ رہا‘ پھر ہم کیوں رک جاتے ہیں؟ جنہیں دنیا میں خرابیاں پیدا کرنی ہیں اُنہیں ایک پل کے لیے بھی قرار نہیں۔ وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ غلطی پر ہیں‘ خرابیاں پیدا کرنے والے باز نہیں آتے مگر وہ تھک ہار کر‘ مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ رہتے ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ حق پر وہی ہیں اور اُن کی مساعی ہی سے خیر کی راہ نکلے گی! 
وقت نے ایک طرف ہمیں بہت کچھ دیا ہے تو دوسری طرف بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ زندگی کا سفر اسی طور جاری رہتا ہے۔ معاشرے میں اکھاڑ پچھاڑ کا واقع ہوتے رہنا اگرچہ پریشان کن ہوتا ہے مگر اِس سے زندگی اور تحرّک کا نشان بھی تو ملتا ہے۔ کوئی بیج مٹی میں دفن ہونے کا عذاب جھیلتا ہے‘ تب ہی تو پہلے پودا اور پھر درخت بنتا ہے۔ جو کچھ ملا ہے اُس کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اُس کے عوض جو کچھ ہاتھ سے گیا ہے وہ کیا تھا‘ کیسا تھا‘ کتنا تھا۔ بہر کیف‘ جینے کا مزا تب ہے جب انسان طے کرلے کہ مسائل سے گھبرائے گا نہیں اور اُن کا سامنا اُسی طرح کرے گا جس طرح کیا جانا چاہیے۔ زندگی ہم سے گام گام توجہ ہی نہیں‘ قربانی بھی چاہتی ہے۔ مسائل کی دلدل میں دھنسے ہوئے معاشرے میں جینا بجائے خود ایک بہت بڑا امتحان ہے‘ مگر اس امتحان میں حقیقی کامیابی اس امر سے مشروط ہے کہ اوروں کی طرح محض پریشان ہو رہنے کے بجائے اصلاحِ احوال کے لیے کچھ کیا جائے۔ برادرم عامر گجر اور اُن کی سی سوچ رکھنے والے دوسرے تمام پاکستانی حالات کی روش دیکھ کر کڑھتے ہیں تو یہ بجائے خود قابلِ فخر صفت ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وقت جو کچھ دے رہا ہے وہ بھی اور جو کچھ لے رہا ہے وہ بھی ہماری نظر میں ہونا چاہیے‘ تاکہ درست اندازہ لگایا جاسکے کہ ہم کچھ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں یا صرف گھاٹے میں ہیں۔ وقت کی الٹ پھیر میں ہمیں وہ کسی حال میں نہیں بھولنا چاہیے جو کچھ پانے کے لیے کھونا پڑا ہے۔ یہ احساس ہی ہمیں معاملات کی درستی کے لیے مصروفِ عمل رہنے کی تحریک دے سکتا ہے اور دیتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں