وقت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ وقت کے گزرنے کا احساس دراصل ماحول کی مجموعی کیفیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ماحول ٹھہرا ہوا ہو‘ تو وقت بھی ٹھہرا ہوا لگتا ہے۔ اس کے برعکس‘ اگر ماحول میں تیزی ہو تو وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ منیرؔ نیازی نے خوب کہا ہے ؎
منیرؔ! اس شہر پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ہم بھی ایسی ہی الجھن سے دوچار ہیں۔ ہر طرف تیزی سی دکھائی دے رہی ہے۔ بہت کچھ ہوتا ہوا لگتا ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ خاص نہیں ہو رہا۔
وقت کے تیزی سے گزرنے کے احساس نے زندگی کو شدید الجھنوں سے دوچار کیا ہے۔ آج کا انسان بیرونی طور پر ہی نہیں ‘بلکہ اندرونی طور پر بھی الجھا ہوا ہے۔ ظاہر تو جو ہے سو ہے‘ باطن بھی کم پریشان کن نہیں۔ قدم قدم پر ایسی انوکھی پیچیدگیاں ہیں کہ کسی کا کوئی سِرا ہاتھ میں آنے کا نام نہیں لیتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان الجھتا ہی جارہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معاملات کو درست کرنے اور درست رکھنے کے لیے جتنی محنت درکار ہے۔ اوّل تو اُتنی محنت کی نہیں جاتی۔ اور یہ محنت بھی مستقل ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ زندگی میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ انسان معاملات کو درست کرنے کی سعی مستقل بنیاد پر کرتا رہے۔
فی زمانہ ایک بڑی پیچیدگی ہے ‘ہر معاملے میں کسی نہ کسی سہارے کی تلاش۔ صلاحیت اور سکت سے اللہ نے خوب نوازا ہو تو انسان پر لازم ہے کہ محنت کرے‘ سعی کے ذریعے اپنے معاملات کو درست کرے۔ دنیا کا ہر کامیاب انسان اِسی مرحلے سے گزر کر کامیاب ہوا ہے۔ جتنے بھی کامیاب انسان ہیں ‘اُن کے حالات پر نظر ڈالیے‘ اُن کی کہانی پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہوں نے دوسروں سے بڑھ کر سیکھا اور عمل کے حوالے سے بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا ثابت کیا‘ تب کہیں جاکر بھرپور کامیابی نے اُن کے قدم چُومے۔
آج کے انسان کی ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی سطح پر ''مسیحا‘‘ کا منتظر رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام مسائل حل کرنے کے لیے آسمان سے کسی کو بھیجا جائے! مسائل کسی اور نہیں ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ یہ اگر حل ہوں گے تو ہماری اپنی کوششوں سے حل ہوں گے۔ کوئی کہیں سے آکر ہمارے مسائل حل نہیں کرسکتا۔
چین کے عظیم دانشور لاؤ زو نے کہا ہے کہ اگر کوئی آپ کو ٹوٹ کر چاہے تو آپ میں طاقت پیدا ہوتی ہے اور جب آپ کسی کو غیر معمولی شدت سے چاہیں تو آپ میں جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں طاقت بھی درکار ہے اور جرأت بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا انتظار کرنا چاہیے کہ کوئی ہمیں چاہے؟ کوئی ہمیں چاہے تو اس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ مشکل یہ ہے کہ فی زمانہ کسی کو دوسروں پر کم ہی اعتبار ہے۔ جب اعتبار کا گراف گِرا ہوا ہے تو محبت کہاں سے آئے‘ کوئی کسی کو کیوں چاہے؟ ایسے میں دانش کا تقاضا ہے کہ چاہے جانے کا انتظار کیے بغیر ہم اپنے آپ کو چاہیں۔ بقول شاعر: ع
اپنی ذات سے عشق ہے سچا‘ باقی سب افسانے ہیں
اپنے آپ کو چاہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کی مقصدیت کو سمجھیں‘ روئے زمین پر ہمیں جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے ‘وہ کام کریں۔ ہمیں وجود اس لیے بخشا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے کام آئیں‘ دنیا کو زیادہ سے زیادہ دل کش اور بارآور مقام بنانے کی کوشش کریں۔ ہم زندگی بھر سہاروں کی تلاش میں رہتے ہیں؟ کبھی اس نکتے پر غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمیں اپنے آپ پر‘ اپنی صلاحیتوں پر بھروسا نہیں؟ کیا ہم اس گمان کے اسیر ہیں کہ ہم میں بہت کچھ کرنے کی سکت پائی ہی نہیں جاتی؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہم دوسروں سے کچھ پانے کی آس لگائے رہتے ہیں؟ یہ خواہش کیوں پروان چڑھتی رہتی ہے کہ کہیں سے کوئی آئے اور ہمارے سارے دکھ دور کردے؟
اس دنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ہمیں اپنے خالق و رب کے احکام کی روشنی میں جینا ہے۔ ہمارا خالق و مالک چاہتا ہے کہ ہم اپنے زورِ بازو پر بھروسا کریں‘ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔ محنت کرنے کی لگن ہی ہمیں وجود کی مقصدیت سے ہم کنار کرتی ہے۔ معاملات افراد کا ہو یا اقوام کا‘ کامیابی صرف اُس وقت ملتی ہے جب کسی اور کی طرف سے دستِ تعاون دراز کیے جانے کا انتظار کرنے کی بجائے بھرپور محنت کی جائے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ بارآور و مفید ثابت کرنے پر توجہ دی جائے۔
سابق امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے کہا تھا کہ ہم آنے والے زمانے کو تو کسی بھی طور تبدیل کرسکتے ہیں ‘نہ اُس پر اثر انداز ہونے والے منصوبے تیار کرسکتے ہیں۔ اور مستقبل کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں‘ مگر ہاں‘ نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرنا تو ہمارے بس میں ہے۔ نئی نسل کو ایک طرف ہٹائیے تو یہی بات ہم پر بھی صادق آتی ہے۔ ہمارے لیے بھی تو لازم ہے کہ آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے کی بجائے زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود کو اپنی ذات اور دوسروں کے لیے مفید ثابت کریں۔
ہم جو غلطیاں کرتے ہیں ‘وہ ہماری راہ میں کانٹے بوتی جاتی ہیں۔ غلطی کے ارتکاب سے بچنا اپنی راہ میں کانٹے بچھانے کے عمل کو روکنا ہے۔ دنیا کا ہر انسان بنیادی طور پر اپنی ہی غلطیوں کے نتائج بھگت رہا ہوتا ہے۔ جن مسائل کا عمومی سطح پر سامنا رہتا ہے‘ وہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں‘ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اپنے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ‘وہ ہم خود کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اچھے کاموں کا اچھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور بُرے کاموں کے شدید مُضِر اثرات جھیلنا پڑتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اندھیرا اگر اپنا ہی پیدا کردہ ہو تو دوسروں کا بخشا ہوا اُجالا بھی ہماری کچھ خاص مدد نہیں کر پاتا۔ دوسرے ہماری مدد ضرور کرسکتے ہیں‘ مگر ایک خاص حد تک۔ اِس حد کے بعد تو پھر ہمیں ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ دوسروں سے غیر معمولی تعاون کی امید رکھتے ہوئے ہمیں یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مسائل سب کے لیے ہیں۔ جن سے ہم مدد چاہتے ہیں وہ بھی تو ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔ چند ایک مسائل کا اُنہیں بھی سامنا رہتا ہوگا۔ ایسے میں وہ اپنے وجود کو بھول کر ہماری مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ یعنی مدد کرنے کی بہرحال ایک حد تو ہے۔ اس کے بعد اپنے لیے ہمیں ہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔
معاشی معاملات کمزور ہوں تو انسان دوسروں کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ ایسے میں ضروری اور قرین ِ دانش یہ ہے کہ انسان اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرے اور اپنی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے پر متوجہ ہو۔ ہر انسان میں صلاحیتوں کا خزانہ چھپا ہوتا ہے۔ جو اس خزانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں‘ وہی دنیا کی نظر میں باوقار ٹھہرتے ہیں‘ یعنی گھوم پھر کر بات اپنے وجود تک آتی ہے۔ سہارے تلاش کرنے کی ذہنیت ترک کرکے ہمیں اپنے وجود پر بھروسا کرنا ہے۔ یہی زندگی ہے!