لاتعلق اور یکسر بے نیاز ہونے کی حد اگر کسی کو دیکھنی ہو تو کراچی کو دیکھے۔ شہر کے سٹیک ہولڈرز ہونے کے تمام دعویدار ایک زمانے سے اسے تماشا بنائے ہوئے ہیں۔ جو شہر کے مکین ہیں وہ کہتے ہیں یہ ہمارا ہے‘ مگر انہوں نے اسے ڈھنگ سے چلانے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ صوبے سے یہاں آنے والوں کو اس کے حقیقی مفادات سے کبھی کچھ خاص غرض نہیں رہی۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں سے محض کمانے کے لیے یہاں آنے والوں کو اس سے کس درجے کی محنت ہوگی! ایک زمانے سے ایک زمانہ متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ مگر شہر کے سٹیک ہولڈرز متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ معاملہ وعدوں سے شروع ہوکر دعووں پر ختم ہو جاتا ہے۔
کراچی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ خیر‘ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کئی برس سے یہی حال ہے۔ خاص طور پر بارش کے زمانے میں تو معاملات ایسے بگڑتے ہیں کہ درست ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی بارش پورے شہر کو غرقاب کردیتی ہے۔ بارش کا پانی جہاں کھڑا ہو جائے وہیں کھڑا رہتا ہے‘ کئی کئی دن ٹس سے مَس نہیں ہوتا۔ اور پھر کیچڑ کو ناپید ہونے میں بھی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ کم و بیش تین سال سے شہرِ قائد ایسے جی رہا ہے جیسے لاوارث ہو‘ کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ ان تین برس کے دوران اختیارات اور فنڈز کے نہ ہونے کا رونا سنائی دیتا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کم و بیش تین عشروں تک فنڈز بھی تھے اور اختیارات بھی تب کیا ہوا؟ شہر کی حالت میں کون سی بہتری آگئی؟ اہلِ کراچی کو کب کیا ملا؟ جنہیں اختیارات اور فنڈز سے نوازا گیا انہوں نے اپنی جیبیں اور تجوریاں بھریں اور ایک طرف ہوگئے۔ ع
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی قیادت اور سندھ حکومت کے درمیان اختیارات اور فنڈز کے حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ تین سال سے جاری ہے۔ جنہیں شہر کا نظم و نسق سنبھالنے کا موقع ملا تھا اُن پر کچھ ذمہ داری بھی عائد ہوتی تھی۔ یہ ذمہ داری شرحِ صدر کے ساتھ قبول نہیں کی گئی۔ اور اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت نے بھی انتہا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ مقامی نمائندوں سے بہت کچھ لے کر محکمہ بلدیات کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اختیارات اور دائرۂ کار کی اس جنگ نے شہریوں کا حال بُرا کردیا ہے۔ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں مگر مسائل حل کرنے کی سکت رکھنے والے اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر آمادہ نہیں۔ الزام تراشی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی‘ ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی روایت ''تابندہ تر‘‘ ہوتی جارہی ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے لیے دو پیکیج منظور کیے گئے۔ پہلا پیکیج نعمت اللہ خان کی نظامتِ اعلیٰ کے دور میں مکمل کیا گیا اور دوسرا مصطفٰی کمال کے دور میں۔ اُن آٹھ برس کے دوران شہر کا بنیادی ڈھانچا ایسا بدلا کہ لوگ یہ سوچنے لگے کہ اب یہ شہر حقیقی بین الاقوامی رنگ اختیار کرلے گا۔ بڑے پیمانے پر سڑکیں‘ انڈر پاس اور فلائی اوورز تعمیر کیے گئے۔ ایک موقع پر ایسا لگتا تھا کہ اب اہلِ کراچی ایک نئے انداز سے جینے لگیں گے۔ جب پرویز مشرف کا دور لدگیا تو اُن کے متعارف کرائے ہوئے مقامی حکومتوں کے نظام کو بھی چلتا کردیا گیا۔ تب سے اب تک یہ حال ہے کہ کراچی کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔
ڈیڑھ دو سال میں کراچی کا ذکر صرف کچرے کے حوالے سے کیا جاتا رہا ہے۔ ملک بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ کراچی میں قدم قدم پر صرف کچرا ہے۔ ایک حقیقی بین الاقوامی شہر کا جو رنگ اور انداز ہونا چاہیے وہ کراچی میں دکھائی نہیں دے رہا۔ چینلز نے کراچی کو پیش بھی اس انداز سے کیا ہے گویا یہاں کچرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ صفائی ستھرائی کا باضابطہ اور مؤثر نظام نہ ہونے کے باعث کراچی میں قدم قدم پر کچرا ہے‘ غلاظت ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رہنے کے باعث جگہ جگہ مٹی کے ڈھیر ہیں۔ گاڑیوں کے گزرنے سے دھول اڑتی ہے اور شہریوں کے لیے مزید اُلجھن کا باعث بنتی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے کھودے جانے والے گڑھوں کو موزوں طریقے سے پُر نہ کیے جانے کے باعث گاڑیوں کی آمد و رفت بھی متاثر ہوتی ہے۔ کم و بیش تین سال سے معاملہ منتخب بلدیاتی اداروں اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات پر مبنی رہا ہے۔ عوام ''ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ عوام نے جنہیں شہر کو چلانے کا اختیار سونپا ہے وہ بھی کچھ نہیں کر رہے اور دوسری طرف صوبائی حکومت بھی کچھ کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔
ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران کراچی میں صفائی مہم کے حوالے سے سہ رُخی لڑائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے میدان سنبھالا اور کراچی کو صاف کرنے کے نام پر کچھ دن رونق میلہ لگایا۔ انہوں نے بلند بانگ دعوے کیے اور پھر ایک طرف ہٹ گئے۔ علی زیدی ہٹے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور اُن کی ٹیم نے سامنے آکر کراچی کے لاشے میں جان ڈالنے کی ٹھانی۔ وزیر اعلیٰ نے کراچی کے کئی علاقوں کا دورہ کیا۔ بارش کے دوران بھی وہ متحرک دکھائی دیئے۔ اب سندھ حکومت نے صفائی کی مہم جاری رکھتے ہوئے کراچی بھر میں کسی بھی کھلی جگہ کچرا ڈالنے پر تین ماہ کی پابندی عائد کردی ہے۔ جو سڑک پر پان کی پیک تھوکتا پایا جائے گا اُس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ سڑک پر کچرا پھینکنے کے حوالے سے دو ایک گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔ صفائی کے حوالے سے اداروں کے درمیان رسا کشی کا حال یہ ہے کہ صوبائی وزیر محنت نے الزام لگایا ہے کہ ایک گروہ کچرے کے ڈبے چرا رہا ہے۔ اس پر وزیر اعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جائے۔
کراچی کے عوام نے جنہیں منتخب کیا ہے وہ اب تک متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔ شہر بھر میں بارش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے نتیجے میں مچھر‘ مکھی اور رینگنے والے کیڑوں مکوڑوں کی افزائش خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ کئی سال سے باقاعدہ سپرے بھی نہیں کیا گیا۔ اب امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی ایک تنظیم کے تحت کراچی کے بہت سے علاقوں میں سپرے کرایا گیا ہے۔ اس پر بھی متعلقہ بلدیاتی اداروں کی رگِ غیرت نہیں پھڑکی۔ شہر بھر میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہے۔ ہزاروں کتے غول کی شکل میں رات کو سڑکوں پر مٹر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور لوگوں کا سلامتی کے ساتھ گزرنا محال کردیتے ہیں۔ اخبارات توجہ دلا دلاکر تھک گئے ہیں‘ مگر کتا مار مہم نہیں چلائی جارہی۔ ایک دو غیر سرکاری تنظیمیں آوارہ کتوں کے مارے جانے کا سن کر میدان میں آجاتی ہیں اور حیوانات کے ''حقِ زندگی‘‘ کا رونا رونے بیٹھ جاتی ہیں۔ ایسی تنظیموں کے قائدین کو سرکاری اور خیراتی ہسپتالوں میں وہ شعبے دکھائے جانے چاہئیں جہاں کتے کے کاٹے کے مریضوں کو رکھا جاتا ہے۔
شہری بیمار بھی پڑ رہے ہیں اور کتوں سے بھی پریشان ہیں۔ مقامی یا منتخب ادارے اور کچھ نہیں تو کتا مار مہم بھرپور انداز سے چلالیں اور سپرے ہی کرالیں تاکہ شہریوں کی کچھ تو ڈھارس بندھے‘ دل کو کچھ تو سکون ملے۔