بڑوں کی نقّالی بھی کیا ہی ستم ظریف عادت ہے۔ جسے یہ عادت پڑ جائے وہ اپنے آپ میں نہیں رہتا اور رفتہ رفتہ اُس کی حالت دھوبی کے کُتّے کی سی ہوتی جاتی ہے۔ مودی سرکار کے ہاتھوں بھارت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ بڑوں جیسا بننے کے شوق میں حماقتیں بھی بڑی سرزد ہو رہی ہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
علاقائی چودھری بننے کے چکر میں مودی سرکار نے ریاستی پالیسیوں کو گھن چکر بنا ڈالا ہے۔ کوشش یہ ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طور پاکستان اور ایسی حیثیت کے حامل دیگر علاقائی ممالک اُسے پورے خطے کا اصلی تے وڈّا چودھری تسلیم کر لیں۔ دوسری طرف خطے کے مضبوط ممالک جواباً خاموشی کی زبان سے کہہ رہے ہیں ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
جو کچھ مودی سرکار کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ کر رہی ہے وہ بھارت میں سنجیدہ حلقوں کو تشویش میں مبتلا کیے جا رہا ہے۔ ارون دھتی رائے اور دیگر غیر جانب دار و غیر متعصب دانشوروں نے بہت کچھ لکھا ہے اور اپنی حکومت کی توجہ ناقص پالیسیوں کی طرف دلائی ہے۔ ایسے ہی بولنے والوں میں جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ مودی سرکار جو کچھ کر رہی ہے اُس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ''دی ویک‘‘ کے لیے ایک مضمون میں جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو نے لکھا ہے ''کشمیر رفتہ رفتہ وہی بنتا جا رہا ہے جو امریکا کے لیے ویت نام تھا۔ کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ اُنہیں پابندیوں سے آزاد کیجیے تو دیکھیے گا کہ پوری وادی کو شدید احتجاج گھیر لے گا۔ اگر کشمیریوں پر پابندیاں برقرار رہیں تو پانی ابلتا رہے گا حتٰٰی کہ برتن پھٹ جائے۔ سچ پوچھیے تو کشمیر کا معاملہ بھارت کے لیے یہ ہے کہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے۔ بہت جلد کشمیر میں غیر معمولی شورش برپا ہو گی، چھاپہ مار جنگ چھڑے گی اور وہاں سے بھرے ہوئے تابوت آئیں گے۔ جن امن پسند نوجوانوں کے رشتہ دار یا جاننے والے مارے جائیں گے اُنہیں عسکریت پسندی کی طرف جانے سے روکا نہ جا سکے گا۔ فوج کے ساتھ فوج ہو تو وہ لڑ سکتی ہے۔ ایسے دشمن سے کیسے لڑا جا سکتا ہے جو دکھائی نہ دیتا ہو، سائے کی طرح حرکت کرتا ہو، کہیں بھی نہ ہو اور ہر جگہ ہو! کشمیر کے بحران کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا؟ یہ تو پورے یقین سے کہا نہیں جا سکتا مگر ہاں، یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم وہاں طویل مدت تک الجھے رہیں گے‘‘۔
جسٹس (ر) کاٹجو کئی مواقع پر نئی دہلی کو پالیسیوں میں پائی جانے والی خرابیوں سے کماحقہ آگاہ کر چکے ہیں۔ جو لوگ بھارتی معاشرے کی موجودہ کیفیت کو سمجھتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ اس وقت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ بولنا کتنا خطرناک ہے۔ پونے تین سال قبل ممبئی میں واقع اپنے فلیٹ میں پُراسرار طور پر موت کے گھاٹ اترنے والے معروف بالی وُڈ ایکٹر اوم پوری نے بھی مودی سرکار کو آئینہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے جائیں اور نفرت کی فضا کو ختم کیا جائے۔ انتہا پسند ہندوؤں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ انہوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں اوم پوری سے خاصی تند و تیز، بلکہ زہریلی بحث کی اور جب اوم پوری نے کسی بھی مرحلے پر پاکستان کے خلاف جانے پر آمادگی ظاہر نہ کی تو اُنہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔
خیر، بات ہو رہی تھی بڑوں جیسا بننے کے شوق و جنون کی۔ یہ راستہ خاصا کٹھن ہے۔ اِس میں بڑے بڑوں نے کلٹی ماری ہے، مات کھائی ہے۔ بڑوں جیسا بننے کے لیے خاصا بڑپّن بھی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ بھارت جیسے ممالک محض بڑی مارکیٹ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے الٹے اقدامات کے ذریعے ایسا بہت کچھ پانا چاہتے ہیں جس پر اُن کا ذرا بھی حق نہیں بنتا۔ عالمی سیاست و معیشت میں اِس وقت امریکا اور یورپ کی جو پوزیشن ہے وہ کم و بیش چار سو سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ جدید ترین علوم و فنون کے حوالے سے امریکا اور یورپ نے تین تا چار صدیوں تک جو محنت کی ہے اُس کا ثمر یہ ہے کہ دونوں خطے اب عالمی سیاست و معیشت میں قائدانہ کردار کے حامل ہیں۔
امریکا اور یورپ کے مقابل اب چین ہے جس نے کم و بیش چار عشروں کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں خود کو بے حد مضبوط کر لیا ہے۔ چین اگر عالمی معیشت میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور علاقائی سطح پر بھی کوئی باضابطہ حیثیت چاہتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اُس کے پاس ایسا چاہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ بھارت کے پاس ایسا ہے ہی کیا کہ اُس کی چودھراہٹ تسلیم کی جائے؟ لڑاکا طیارے کے گرائے جانے پر ونگ کمانڈر ابھی نندن وردھمان کی گرفتاری نے بھارت کی عسکری صلاحیت پر اب تک خاصا بڑا سوالیہ نشان لگایا ہوا ہے۔ اس ہزیمت پر سبق سیکھنے کے بجائے مودی سرکار نے پاکستان کو سزا دینے کی ٹھانی! بہت کوشش کے باوجود پاکستان پر تو بس چلا نہیں۔ ایسے میں طویلے کی بلا بندر کے سر کے مصداق نہتے کشمیریوں کی گردنیں دبوچ لی گئیں۔ مودی سرکار کی دوڑ یہیں تک تھی۔ شمال مشرقی بھارت کی سات ریاستوں میں کھلی بغاوت کا ارتکاب ہو رہا ہے مگر بھارتی فورسز نکسلائٹس اور دیگر باغیوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہ باغی انتہائی سفّاک ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ مارے جانے والے اہلکاروں کا مُثلہ بھی کر دیتے ہیں۔ اِس کے باوجود اِن سے بات چیت کی جاتی ہے۔ کشمیر کے معاملے میں نئی دہلی نے ایسی لچک کبھی نہیں دکھائی۔ کشمیریوں نے مزاحمت کے دوران فورسز سے غیر انسانی سلوک کبھی روا نہیں رکھا۔ ہلاکت کی صورت میں کسی بھی بھارتی فوجی کی لاش کی بے حرمتی نہیں کی گئی۔ اب حالات بدل چکے ہیں یا بدل دیئے گئے ہیں۔ جو غیر انسانی سلوک کشمیریوں سے روا رکھا گیا ہے اُس کی روشنی میں بلا خوفِ تردید پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ کشمیری بھی اب اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکیں گے۔
بھارت کو بڑا بننا ہے تو پالیسیوں میں بھی بڑپّن پیدا کرنا پڑے گا۔ چھوٹے پڑوسیوں کو دبوچ کر کوئی بھی ملک بڑا نہیں بن سکتا۔ قدرت کے اصولوں کو توڑنے والوں کو توڑنے کے لیے قدرت نے انتظام کر رکھا ہوتا ہے۔ بھارتی قیادت اگر یہ سمجھتی ہے کہ کشمیریوں کو دبوچ کر، اُن کی آواز دبا کر وہ حقیقت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تو یہ اُس کی صریح بھول ہے۔ ارون دھتی رائے، مرکنڈے کاٹجو، شرد پوار اور دیگر اہلِ دانش جو کچھ کہہ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں اُس پر دھیان دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ بھارتی میڈیا میں اُن لوگوں کی آواز کو توانا ہونے دیا جائے جو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں۔ ''سنگھ پریوار‘‘ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ امریکا اور یورپ کی طرز پر طاقت کا اظہار و استعمال بھارت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوّا ہنس کی چال چلے اور اپنی چال ہی بھول جائے!