"MIK" (space) message & send to 7575

تذبذب کی دلدل سے اب تو نکلیے

مزاج اور طبیعت کے حوالے سے شخصی یا انفرادی سطح پر پائی جانے والی بہت سی خامیاں اور خرابیاں اگر پھیل کر اجتماعی شکل اختیار کریں تو معاشرے داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ جن کے ذہن اٹک جاتے ہیں وہ بامقصد اور پُروقار زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ کسی بھی معاملے میں ذہن کا واضح ہونا ہی اُس معاملے میں ہمارے لیے کامیابی کا تعین کرتا ہے۔ بصورتِ دیگر ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ اگر ہم سوچتے اور الجھتے ہی رہیں تو پوری زندگی الجھ جاتی ہے۔ 
تذبذب انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر‘ غضب ہی ڈھاتا ہے۔ تذبذب کے ہاتھوں بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان ایک واضح مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ ہماری پالیسیوں میں اٹکاؤ‘ تذبذب اور شش و پنج کی کیفیت اس قدر رہی ہے کہ کبھی کبھی تو اہم قومی مفادات بھی داؤ پر لگے ہیں۔ ریاستی مشینری ذہنی سطح پر ہر دور میں الجھی اور اٹکی رہی ہے۔ اس کے نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اقوام عالم میں ہم اپنے لیے کبھی وہ مقام نہیں پاسکے جس سے مطابقت رکھنے والی صلاحیت بھی ہم میں تھی اور سکت بھی۔ 
پاکستان اس وقت ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں پالیسی میکنگ کے حوالے سے غیر معمولی ذہانت اور سنجیدگی درکار ہے۔ ہمارے پالیسی میکرز کی صلاحیت اپنی جگہ اور حالات و واقعات کی نزاکت اپنی جگہ۔ کسی بھی ملک کی پالیسیوں میں لچک اور سختی کا مدار حالات کی نوعیت اور شدت پر ہوا کرتا ہے۔ پالیسیاں کبھی جامد نہیں ہوتیں۔ ان میں وقتاً فوقتاً تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ کوئی بھی ملک ایسی پالیسیاں نہیں اپنا سکتا جن میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ملکی‘ علاقائی اور عالمی حالات کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب کیا رخ اختیار کریں۔ کم و بیش ہر ریاست کو وقت کی نزاکت اور حالات کی نوعیت کے پیش نظر پالیسیوں میں تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ 
امریکا اور یورپ اس وقت جس مخمصے میں مبتلا ہیں اُس کے پیش نظر دنیا بھر میں پالیسیاں تبدیل ہو رہی ہیں۔ عالمی اداروں کی چیرہ دستیوں سے تنگ آئے ہوئے ممالک اور خطے متبادل راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر اب تک عالمی سیاست و معیشت کے جسم میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جہاں بھی اُنہیں اپنی پوزیشن کمزور ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے فوری طور پر جبر و استبداد کا دائرہ وسیع کردیتے ہیں۔ ناقابلِ یقین نوعیت کی عسکری قوت کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی مغربی پالیسی اب کئی خطوں کے لیے انتہائی ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ ہزاروں میل کا فاصلہ بھی امریکا اور یورپ کو کہیں بھی مداخلت سے باز نہیں رکھتا۔ ٹیکنالوجیز کی مدد سے اُنہوں نے فاصلوں کو مات دے دی ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں ہم کیا کریں۔ پاکستان اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے تین چار نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ راستے نکل رہے ہیں۔ پالیسی میکنگ ہر اعتبار سے ایک بیلنسنگ ایکٹ ہوا کرتی ہے۔ ہم کوئی الگ تھلگ جزیرہ تو ہیں نہیں‘ عالمی برادری کا حصہ ہیں۔ سبھی کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے اور سب کے ساتھ بھی چلنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ بیک وقت ہوتا ہے۔ ہر ملک سے تعلقات بہتر بنائے رکھنے کے لیے پالیسیوں میں غیر معمولی توازن متعلقہ لوازم میں سرفہرست ہے۔ 
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اور نائن الیون کے بطن سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کے لیے پالیسیوں پر نظرِثانی کرتے رہنا لازم ہوگیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر غیر متوازن پالیسیاں اپنانے کا نتیجہ پاکستانی معیشت و معاشرت کی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر پورے خطے کو دبوچ لیا۔ ہمارے لیے بچ نکلنا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں ہتھیار ڈالتے ہی بنتی ہے۔ مگر ہاں‘ اس صورتِ حال کے ابھرنے سے بہت پہلے معاملات کو درست کرنے کی جو تھوڑی بہت گنجائش تھی وہ ہم نے ضائع کردی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا میں ہمارے لیے پالیسیاں تبدیل کرنے کی تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہوئی تھی۔ روس کی طرف بڑھا جاسکتا تھا۔ چین سے دوستی برقرار تھی مگر اس کا دائرہ وسیع کرنے میں دانش مندی تھی۔ ہم نے دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور مغرب ہی کے آغوش میں پڑے رہنے کو ترجیح دی۔ 
اُلجھن کی بات یہ ہے کہ مغرب کے سِحر سے ہم اب تک آزاد نہیں ہو پائے۔ امریکا اور یورپ کی ملی جلی طاقت کو ساری دنیا مانتی ہے۔ جدید ترین علوم و فنون‘ تحقیق‘ فیشن‘ معیشت‘ معاشرت‘ عسکری صلاحیت اور دیگر اہم شعبوں میں مغرب کی غیر معمولی مہارت کا تسلیم نہ کرنا حماقت قرار دیا جائے گا۔ مگر خیر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغرب سے مرعوب ہوکر اپنا سبھی کچھ داؤ پر لگادیا جائے۔ ہمارے اہلِ دانش کا فرض ہے کہ مغرب کے حوالے سے مرعوبیت کا رویہ ترک کرکے غیر جانب داری سے پوری دنیا کا جائزہ لیں اور قوم کو بتائیں کہ پالیسیوں میں کس نوعیت کی تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔ ہمیں اپنی پالیسیوں کو وقت کی نزاکت اور حالات کی نوعیت کے تناظر میں یوں تبدیل کرنا ہے کہ کسی بھی انٹرنیشنل اور ریجنل پلیئر سے ہمارے تعلقات داؤ پر نہ لگیں۔ 
پاکستان کو تذبذب کی دلدل سے نکلنا ہے۔ دنیا محض بدل نہیں رہی ہے بلکہ بدل چکی ہے۔ بہت کچھ تھا مگر اب نہیں رہا۔ اور ایسا بہت کچھ ہے جو کبھی نہیں تھا مگر اب ہمارے سامنے ہے اور ہم سے نئی طرز کی فکر و عمل کا تقاضا کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے ممکنہ متبادل کی حیثیت سے چین اپنے حلقے کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ ماہرین ایک زمانے سے کہہ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی مکمل طور پر یورپ یا مغرب کی نہیں ہوگی۔ ایشیا کو طاقت کے نئے مرکز کی حیثیت سے ابھرنا ہے۔ مغرب بعض معاملات میں کمزور ہوتے ہوئے بھی افق پر رہے گا‘ کیونکہ وہ تمام اہم بین الاقوامی معاملات سے جُڑا ہوا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ہسپانیہ میں مسلم حکمرانوں کو 1492 ء عیسوی میں حتمی شکست ہوگئی تھی۔ یہ سیاسی شکست تھی۔ حتمی معاشی اور معاشرتی شکست کم و بیش 100 سال بعد ہوئی۔ ہسپانیہ میں مسلمان ہر شعبے پر محیط تھے۔ وہ تاجر بھی تھے اور مختلف پیشوں کے ہنرمند بھی۔ کھیتی باڑی بھی کرتے تھے اور مویشی بھی پالتے تھے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے بھی مسلمان ہی چلاتے تھے۔ ان سب کو ایک ہی ہلّے میں نکال دینے سے پورے ملک کا بھٹّا بیٹھ سکتا تھا۔ ہسپانیہ سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کرنے میں عیسائی بادشاہت کو کم و بیش 100 سال لگے! عالمی سیاسی و معاشی نظام سمیت تمام اہم امور سے امریکا اور یورپ کا اثر و رسوخ قابلِ ذکر حد تک کم کرنے میں کئی عشرے درکار ہوں گے۔ 
ہمیں اپنی پالیسیوں سے تذبذب دور کرنا ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ ہمارے پالیسی میکرز کو یہ نکتہ دانتوں سے پکڑنا ہے کہ ہماری تمام پالیسیاں صرف مغرب کے گرد نہیں گھومنی چاہئیں۔ اسی طور چین اور روس کی طرف غیر حقیقت پسندانہ جھکاؤ بھی بہتر نہیں۔ سوال توازن برقرار رکھنے کا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تذبذب دور کیا جائے‘ واضح سوچ اپنائی جائے۔ ؎ 
تذبذب کی دلدل سے اب تو نکلیے 
سنبھلیے‘ سنبھلیے‘ خدارا سنبھلیے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں