ہم بھی عجیب زمانے جی رہے ہیں۔ حقیقت میں وہ مزا نہیں ملتا‘ جو حقیقت کے عکس میں ملتا ہے۔ ذہنی کیفیت تبدیل ہوجانے سے معاملات کچھ کے کچھ ہوچکے ہیں۔ میڈیا کا بنیادی مقصد معلومات فراہم کرنا ہے۔ معلومات تو خیر اب کیا مل پائیں گی‘ میڈیا سے ہر وہ چیز مل رہی ہے‘ جو معلومات کے دائرے سے باہر ہے۔ اور لوگ اس میں بھی خوش ہیں۔ معروف بھارتی اخبار ''ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں کبھی کبھی خبریں اُتنی زبردست نہیں ہوتیں‘ جتنے زبردست اُن پر کیے جانے والے تبصرے ہوتے ہیں۔ کل کی بات ہے کہ ایک خبر پر تبصرے میں سُریش چوپڑا نامی قاری نے مودی سرکار کی کشمیر پالیسی سے اختلاف کرنے پر ملائیشیا اور ترکی کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ سُریش چوپڑا نے لکھا: ''دشمن ملک (پاکستان) کا ساتھ دے کر 'غداری‘ کا ارتکاب کرنے والے ملائیشیا اور ترکی کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔ ان دونوں غداروں کو سفر‘ سیاحت اور تجارت کے ہتھیاروں سے مارا جائے۔ تمام محب وطن بھارتی معاشی گولیوں اور بموں سے نشانہ بناکر مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان کا خون بہائیں!‘‘۔
اِس کے جواب میں ایک قاری نے مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ''ناقص کارکردگی پر شرمندہ ہونے کی بجائے مودی سرکار محض بہانے تراشتی رہتی ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی‘ جواہر لعل نہرو‘ اندرا‘ سونیا اور راہل گاندھی کے بعد اب پاکستان‘ چین اور تجارتی جنگ بھی صفِ اول کے بہانوں میں شامل ہیں!‘‘ حالات نے بھارتی قیادت کو عجیب موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس موڑ سے دو کی بجائے تین راستے نکل رہے ہیں۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز عجب مخمصے میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو لالہ جی ''پگلا گئے‘‘ ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی اور دیگر مناقشے زور پکڑتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ معاملات زیادہ پریشان کن اس لیے نہیں کہ ہمارا بہت کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ بہت کچھ ہو تو داؤ پر لگے‘ ناں! بھارتی قیادت‘ بالخصوص مودی کابینہ کے ارکان کے درمیان اختلافِ رائے بڑھتا جارہا ہے۔ معاملہ بہت حد تک بدنظمی کا بھی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر بیانات داغنے کے باعث پالیسیوں کے بارے میں اچھا خاصا ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ بھارتی قیادت کا بیانیہ تضاد بیانی کے شاہکار میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ابھی ایک بات کہی جاتی ہے اور کچھ ہی دیر میں اُس کے منافی کوئی بات کہہ دی جاتی ہے۔ پڑھنے اور سُننے والے (اپنے) سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں کہ کس کی بات کو درست مانیں اور کس کی بات کو غلط سمجھیں۔
آئیے‘ نرملا سیتا رمن کی بات سے سلسلۂ کالم آگے بڑھاتے ہیں۔ بھارتی وزیر خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے ''عالمی معیشت میں پیدا ہونے والی سُست رفتاری غضب ڈھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ معاملات الجھ رہے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے درمیان تجارت کے حوالے سے اختلافات نے معاملات کو الجھادیا ہے۔ عالمی سطح پر معاشی امور سُست روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سرمائے‘ اشیاء اور خدمات کی روانی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ سُست روی کسی بڑے بحران میں تبدیل ہو‘ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ لازم ہے کہ بڑی طاقتیں مل بیٹھ کر معاملات طے کریں۔ اختلافات دور کرکے پورے تال میل کے ساتھ آگے بڑھنا لازم ہے۔ تمام معاملات تجارتی نیٹ ورک سے جڑے ہوئے ہیں۔ کسی ایک معاملے میں رونما ہونے والی تبدیلی سب کو متاثر کرتی ہے۔ جیو پالیٹیکل غیر یقینیت اپنی جگہ ہے۔ قرضوں کا بوجھ بھی کئی ممالک کیلئے مشکلات بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں فوری اشتراکِ عمل ناگزیر ہے۔‘‘
دیکھا آپ نے۔ بھارتی وزیر خزانہ معاشی خرابی کی طرف توجہ دلا رہی ہیں اور آنے والے بحران سے خبردار بھی کر رہی ہیں۔ یہ بیان‘ بھارتی پالیسیوں سے اختلاف کے علی الرغم‘ خالص حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ دوسری طرف ایک انٹرویو میں مودی کابینہ ہی کے رکن پرکاش جاوڈیکر کا دعویٰ ہے ''دنیا بھر میں معیشتیں سُست روی کا شکار ہیں‘ مگر بھارتی معیشت اب تک قابلِ رشک حالت میں کام کر رہی ہے! معاشی نمو کی رفتار برقرار ہے۔ چین کی معاشی نمو کی شرح 11 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد پر آگئی ہے۔ امریکا اور یورپ بھی پریشان ہیں کہ کریں تو کیا کریں‘ مگر بھارت اب تک پُرسکون ہے۔‘‘
نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں جاب مارکیٹ سکڑ رہی ہے۔ چند ماہ کے دوران لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ سیلف ایمپلائمنٹ کے حوالے سے بھی صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ پرکاش جاوڈیکر اس گواہی کو درست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں ''این ایس ایس او جیسے اداروں کا معلومات جمع کرنے کا نظام پرانا ہوچکا۔ بھارت کی جاب مارکیٹ اب بھی مضبوط ہے اور لوگوں کو ملازمت کے مواقع مل رہے ہیں۔ مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ سیکٹرز میں خرابیاں ہیں ‘تاہم مجموعی طور پر صورتِ حال اطمینان بخش ہے۔‘‘
پرکاش جاوڈیکر کے فرمودات پر ٹائمز آف انڈیا کے قاری گجانن انترکار نے یوں تبصرہ کیا ''بی جے پی کے سرکس میں ہر جوکر اپنے شعبے کے سوا‘ تمام شعبوں پر رائے دیتا پھر رہا ہے۔‘‘
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے بالکل واضح موقف کا اظہار کرکے ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے مودی سرکار کی دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور دیگر با اثر ممالک نے کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے بھارت کی پالیسیوں پر تنقید سے صاف گریز کیا ہے۔ ان ممالک کے بھارت سے بہت اچھے اقتصادی روابط ہیں۔ ان ممالک میں بیرونی ورک فورس کا بڑا حصہ بھارتی باشندوں پر مشتمل ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ آسانی سے بھارت کیخلاف نہیں جائیں گے۔ بھارت نے معاشی موافقت کا فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اب تک اس زعم میں مبتلا ہیں کہ بھارت کو بڑی مارکیٹ ہونے کا غیر معمولی فائدہ پہنچتا رہے گا۔ بھارتی پالیسی میکرز بڑی مارکیٹ ہونے کا فائدہ اٹھانے کے حوالے سے بھرپور تیاری کیے بیٹھے ہیں ‘مگر مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسے پرجوش قائدین پکڑائی نہیں دے رہے۔ اُنہوں نے اسلامی دنیا کی طرف سے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اور سیدھی سی بات ہے‘ اُنہیں خود بھی اندازہ ہوگا کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے‘ کس طرح کے اثرات بھگتنا پڑسکتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں ملائیشیا کو سزا دینے کا سوچا گیا۔ بھارتی تاجروں نے ملائیشیا سے پام آئل کی خریداری روک دی ہے۔ دوسرے مرحلے میں ترکی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر پاکستان کے موقف کی تائید کرنے پر نریندر مودی نے ترکی کا دورہ منسوخ کردیا ہے۔ بھارتی قیادت کو علاقائی و عالمی سیناریو میں اپنی بات منوانے کا بھی ہَوکا ہے۔ حیثیت ابھی خاطر خواہ حد تک بلند نہیں ہوئی۔ اونچا اڑنے کے لیے پَر اور طاقتِ پرواز کے ساتھ ساتھ فضاء کا ہونا بھی لازم ہے۔ بھارت کے لیے فضاء اب تک پوری طرح سازگار نہیں ہوئی۔ مودی سرکار کے دور میں بھارت کی پالیسیوں نے زبردستی کی چھلانگیں لگانے کی کوشش کی ہے۔ اس بندرانہ اُچھل کود میں کوئی ایک غلط چھلانگ بھارت کو کسی بہت بڑی پریشانی سے دوچار کرسکتی ہے۔ کشمیر یا کسی اور معاملے پر اختلاف کو بنیاد بناکر بین الریاستی تعلقات کا بیڑا غرق کرنے کی بجائے مودی سرکار کو علاقائی امن و استحکام برقرار رکھنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ لالہ جی کو جذبات کے ریلے میں بہنے کی بجائے ہوش مندی کا دامن تھام کر پورے خطے کا بھلا سوچنا چاہیے ‘کیونکہ اِسی میں اُن کا بھی بھلا ہے‘ کیونکہ اِدھر اُدھر لگائی جانے والی آگ کے شعلے اُن کے دامن تک بھی پہنچیں گے۔