قصہ یہ ہے کہ معاملات ذاتی مفاد سے شروع ہوکر ذاتی مفاد پر ختم ہوتے ہیں۔ دنیا کا نظام اسی طور چلتا آیا ہے۔ لوگ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ اور دوسروں کے لیے کم سے کم چاہتے ہیں۔ شوق اگر ہے تو بس اتنا کہ اپنی تجوری بھر جائے اور بھری ہی رہے۔
اپنے لیے سوچنے میں کیا بُرائی ہے؟ کیا انسان اپنے وجود کو نظر انداز کردے؟ اپنے لیے سوچنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرنا بھی دانش کا مظہر نہیں۔ دنیا کا ہر انسان سب سے پہلے اپنا بھلا چاہتا ہے۔ چاہنا بھی چاہیے۔ روئے زمین پر ہمارا قیام بنیادی طور پر اس مقصد کے تحت ہے کہ ہم اپنی فلاح کا بھرپور اہتمام کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو اپنی ذات تک محدود رہنا چاہیے۔ کیا دوسروں کے بارے میں سوچنے میں کوئی بڑی قباحت ہے؟ کیا اپنی ذات سے ہٹ کر یا آگے دیکھنا قابلِ مذمت ہے؟ دنیا میں جوکچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ انسان اول و آخر اپنا ہے‘ صرف اپنا۔
حق تو یہ ہے کہ انسان صرف اپنے بارے میں سوچے تو زندگی محدود ہوکر رہ جائے۔ ہر اعتبار سے قابلِ ستائش اور قابلِ رشک وہ لوگ ہیں‘ جو اپنا بھلا چاہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بہبود پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اپنی ذات کو تمام معاملات پر مقدم رکھنے کا رجحان عام ہے اور ایک خاص حد تک تو اِس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ انسان دوسروں کا بھلا اُسی وقت سوچ سکتا ہے‘ جب وہ اپنے لیے بھلائی کا اہتمام کرچکا ہو اور ذہن و دل پُرسکون ہوں۔
مینڈی ہیل کا کہنا ہے کہ اِس سے خوب صورت بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ آپ گھر سے نکلیں اور دوسروں کی زندگی کو زیادہ خوش گوار اور آسان بنانے کے لیے کوشاں ہوں۔ یہ دنیا اُسی وقت زیادہ خوبصورت ہوسکتی ہے‘ جب ہم اپنے اپنے خالص ذاتی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے کا سوچتے ہیں۔
معاشرے میں توازن اور استحکام برقرار رکھنا مقصود ہو تو لازم ہے کہ ہر فرد صرف اپنے مفادات کا خیال نہ رکھے ‘بلکہ جہاں تک ممکن ہو‘ دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچے۔ ہم اس دنیا میں پہلا سانس لینے کے بعد آخری سانس لینے تک صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی زیادہ سے زیادہ پُر آسائش اور پُرسکون رہے۔ دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچنے کی زحمت ہم میں سے کم ہی گوارا کرتے ہیں۔
معاشرے اُسی وقت پنپتے ہیں جب خود غرضی کا اجتماعی گراف نیچے آئے اور لوگ اپنے مفاد کو ایک طرف ہٹاکر معاشرے کے مجموعی مفاد کو اہمیت دیں‘ جن معاشروں میں یہ رجحان پروان چڑھنے لگے ‘وہاں بہتری آتی جاتی ہے۔ قابلِ رشک حد تک معیاری اور خوش حالی سے مزین زندگی ‘اُسی وقت بسر کی جاسکتی ہے ‘جب انسان صرف اپنی ذات تک محدود نہ رہے ‘بلکہ دوسروں کے بارے میں بھی سوچے اور اُن کی زندگی میں معنویت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
صرف اپنے لیے جینے کو ایک قسم کا ذہنی مرض بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے‘ اُن کے حالات سے بے خبر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر وقت صرف اپنے بارے میں سوچتے رہتے ہیں‘ اُنہیں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ جب انسان کی سرگرمیاں اپنی ذات تک محدود ہوں تو اُس کے حلقۂ احباب بھی سکڑ جاتا ہے۔ صرف اپنے بارے میں سوچنے والے جب بھی کچھ کرتے ہیں تب صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھتے ہیں۔ یہ خصلت انہیں دوسروں سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے اور دوسری طرف دوسرے بھی ان سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کوئی بھی معاشرہ اسی وقت پھل پھول سکتا ہے‘ پنپ سکتا ہے‘ جب لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیں‘ ایک دوسرے کو اپنائیں اور کسی بھی پریشانی کا سامنا کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ جہاں یہ جذبہ نہیں ہوتا ‘وہاں ناکامی‘ مایوسی اور ویرانی رہ جاتی ہے۔
دنیا میں کم ہی لوگ ہیں‘ جو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ پاتے ہیں کہ صرف اپنے لیے جینے میں وہ لطف کبھی محسوس نہیں کیا جاسکتا ‘جو دوسروں کے لیے بھی جینے میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تمام معاملات کو اپنی ذات میں سمیٹ کر بیٹھ رہنے سے انسان محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ بات گھر کی ہو‘ محلے کی‘ علاقے کی‘ شہر کا یا پھر ملک کی ... محدود سوچ اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب لوگ صرف اپنا اپنا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی ذات تک محدود رہنے اور اپنے مفادات کو ہر حال میں باقی تمام معاملات پر مقدم رکھنے کی صورت میں چار پانچ افراد پر مشتمل گھر بھی سلامت نہیں رہ پاتا۔ ایثار ہی کی بدولت گھر بھی پنپتا ہے اور معاشرہ بھی۔ اس کے لیے دل تھوڑا بڑا کرنا پڑتا ہے۔ وسیع النظری اور اعلیٰ ظرفی کا زندگی کے بنیادی شعار کا درجہ دینا پڑتا ہے۔
اپنے مفاد کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے یا بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی بہبود کے بارے میں سوچنا غیر معمولی درجے کا روحانی سکون عطا کرتا ہے‘ مگر یہ کام ایسا آسان ہے نہیں‘ جیسا دکھائی دیتا ہے۔ وسیع النظری تربیت اور مشق کی طالب ہے۔ انسان اپنے بزرگوں سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے اور معاشرے میں پھیلی ہوئی مثالیں بھی اُسے بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہو پاتا ہے‘ جب ذہن و دل اس بات کو تسلیم کرلیں کہ اِس دنیا میں صرف اپنے لیے جینا کسی بھی درجے میں درست نہیں۔ انسان مطالعے اور مشاہدے کی مدد سے اپنی طرزِ فکر و عمل کو اپ گریڈ کرسکتا ہے۔
انسان کو اس کا اپنا وجود دھوکا دیتا رہتا ہے۔ معاشرے میں اکثریت ان کی ہے ‘جو اپنے آپ کو کائنات کا مرکز قرار دینے پر بضد رہتے ہیں! ایسے لوگ اس خبط میں مبتلا رہتے ہیں کہ جو کچھ وہ سوچتے اور کرتے ہیں وہی درست ہے‘ باقی سب کچھ نِرا دھوکا ہے‘ مایا ہے۔ جب یہ خبط حد سے گزر جائے تو انسان اپنی ذات کے خول میں بند ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ اس گمان کے اسیر ہو جاتے ہیں کہ جو کچھ اُن کی ذات تک ہے‘ وہی حقیقت ہے‘ باقی سب وہم و گماں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جھوٹی انا انسان کو تباہی کے گڑھے تک لے جاتی ہے۔ جھوٹی انا کا بت توڑے جانے ہی پر کوئی راہ نکلتی ہے‘ کچھ دکھائی دیتا ہے۔ ؎
انا کی گرد چَھٹی ہے تو ہم نے دیکھا ہے
فریبِ ذات سے آگے بھی ایک دنیا ہے
جینا وہی جینا ہے ‘جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی ہو۔ انسان کو جن صلاحیتوں اور سکت کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ہے وہ دوسروں کے بھی کام آنی چاہئیں۔ معاشرے اِسی طور پنپتے ہیں اور زندگی میں معنویت کا پیدا کرنے کا یہی ایک معقول طریقہ ہے۔
شیطان کے پاس انسان کو بہکانے کے طریقوں کی کمی نہیں۔ جھوٹی انا اس کا انتہائی کارگر طریقہ ہے۔ جھوٹی انا انسان کے لیے تمام راستے بند کرتے کرتے اُسے بالآخر بند گلی میں پہنچا دیتی ہے۔ انا کی گرد اڑ رہی ہو تو انسان فریب ِ ذات میں مبتلا ہوکر صرف اپنی ذات تک محدود ہو جاتا ہے۔ اس فریب کی بندش کو توڑ کر دوسروں تک پہنچنے کی صورت ہی میں انسان کچھ بن پاتا ہے‘ کر پاتا ہے۔