ہم ہر طرف سے اُن مظاہر میں گِھرے ہوئے ہیں ‘جو خود کو منوانا چاہتے ہیں۔ لفظ ''مظاہر‘‘ خود اظہار کی طرف اشارا کر رہا ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے‘ وہ اظہار ہی تو ہے۔ قدرت نے جن نباتات و جمادات کو ہمارے لیے خلق کیا ہے ‘وہ بھی خود کو ظاہر کیے ہوئے ہیں اور ہر ذی نَفَس بھی اظہار ہی کی طرف مائل ہے۔ حیوانات اپنے وجود کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہم خود بھی اپنی گوناگوں صلاحیتوں کے اظہار پر مائل رہتے ہیں۔
یہ پورا تماشا اظہار کا ہے۔ ہم زندگی بھر یہ چاہتے ہیں کہ ہم کچھ کریں اور لوگ اُسے سراہتے ہوئے تالیاں بجائیں‘ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ کوئی آپ کے لیے تالیاں بجائے تو خون بڑھ جاتا ہے‘ زندگی طُول پکڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے پورے وجود کو طاقتور بیٹری کے ذریعے چارج کردیا ہو۔
ایک حقیقت کسی بھی دور میں تبدیل نہیں ہوئی۔ یہ کہ ہر انسان داد کا‘ ستائش کا متمنی رہتا ہے۔ اگر بروقت سراہا جائے تو ''دل کا عالم میں کیا بتاؤں تجھے‘‘ والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ سراہے جانے پر پورا ماحول زیادہ رنگین‘ زیادہ خوش نُما دکھائی دینے لگتا ہے‘ جو فطری بھی ہوتا ہے۔
زندگی کے بہت سے بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان دوسروں کے کام آئے‘ اُن کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت پیدا کرے‘ تاکہ اُن کی زندگی آسان سے آسان تر ہو اور اُن کے دل میں تشکر کا جذبہ موجزن ہو۔ جب ہم کسی کے لیے کچھ کرتے ہیں تو جذبۂ تشکر کی بدولت فریقِ ثانی قربت محسوس ہوتا ہے اور ایک ایسا تعلق پروان چڑھتا ہے ‘جس میں کوئی غرض برائے نام بھی نہیں ہوتی اور ہر پہلو سے خلوص ہی جھلک رہا ہوتا ہے۔ کسی غرض یا مطلب کے بغیر کسی کے لیے کچھ کرنا انسان کو روحانی طور پر بلند کرتا ہے اور جس کے لیے کچھ کیا جارہا ہو وہ ایک بے لوث تعلق کی حسین زنجیر سے بندھ جاتا ہے۔
یہ تو ہوا محض ایک مقصد۔ زندگی کا ایک اور اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اس دنیا کو سمجھیں اور اِس کی دل کشی و افادیت میں اضافہ کریں۔ یہ دنیا بہت رنگین ہے۔ قدرت نے ہمیں بہت کچھ دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اس کی رنگینی میں اضافہ کرنا معقول بات نہیں؟ یقینا‘ ہمیں اس دنیا کی رنگینی بڑھانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔
بہر کیف‘ زندگی کا ایک بہت بڑا یا بنیادی مقصد اظہار ہے۔ جو کچھ بھی صلاحیت اور سکت کی شکل میں ہمیں بخشا گیا ہے ‘اُسے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہمارے لیے لازم ہے۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے‘ کسی بھی شعبے میں جس قدر بھی پیش رفت ممکن بنائی جاسکی ہے ‘وہ سب اظہار کی مرہونِ منت ہے۔ اظہار کا نمایاں ترین اور بہترین طریقہ یا ذریعہ خود کلامی یا گفتگو ہے۔ یہ وصف انسان کو غیر معمولی اعتماد سے ہم کنار و آراستہ کرتا ہے۔ بنیادی سوال اظہار کا ہے‘ باقی سب کچھ اُس کے بعد آتا ہے۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ ہماری زندگی کا بنیادی مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی ہمارے لیے تالیاں بجائے۔ زندگی اظہار کے لیے ہے‘ کسی کو متاثر کرنے کے لیے نہیں۔ اگر ہم اظہار کی راہ پر گامزن ہوں اور کوئی متاثر ہو جائے تو اچھی بات ہے۔ اسے بونس سمجھیے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے آپ کو صلاحیت و سکت کی شکل میں بخشا ہے‘ اُسے دنیا کے سامنے لائیے۔
1970ء کی دہائی کے اواخر میں قومی کرکٹ ٹیم کے اوپنر صادق محمد اُس وقت کے تیزی سے ابھرتے ہوئے کرکٹر جاوید میاں داد کو کاؤنٹی کرکٹ کِھلانے کے لیے انگلینڈ لے گئے تو مہمان کھلاڑی کی حیثیت سے جاوید میاں داد نے سسیکس کی طرف سے سینچری سکور کی۔ صادق محمد نے اُن کا معاہدہ گلیمورگن کاؤنٹی سے کرادیا۔ پہلی سینچری سکور کرنے پر جب انگلینڈ کے معروف کمنٹیٹر ہنری بلوفیلڈ نے پوچھا ''واٹ اِز یور کوالیفکیشن؟‘‘ یعنی آپ کی (تعلیمی) قابلیت کیا ہے تو میاں داد نے (جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے) ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے جواب دیا ''مائی کوالیفکیشن اِز کرکٹ!‘‘۔
جاوید میاں داد کو جو کچھ آتا تھا ‘وہ اُنہوں نے کرکے دکھا دیا تھا۔ ایسے میں اِس بات کی کیا اہمیت رہ گئی تھی کہ وہ کتنے پڑھے لکھے ہیں؟ بہت سے لوگ جب کسی کی عمدہ کارکردگی دیکھتے ہیں تو پیشہ ورانہ مہارت کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے تعلیمی قابلیت سے متعلق استفسار کر بیٹھتے ہیں۔ تعلیمی قابلیت اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت سہی ‘مگر جب کوئی عملی سطح پر اپنے آپ کو درست یا موزوں ثابت کردے تو باقی سب کچھ غیر متعلق سا ہوکر رہ جاتا ہے۔
دنیا کے ہر انسان کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو اُسے آتا ہو یا جس کی طرف واضح جھکاؤ پایا جاتا ہو۔ اہمیت اسی بات کی تو ہے کہ انسان کو جو کچھ آتا ہو وہ کر دکھائے‘ ظاہر کردے۔ بس اِتنی سی ہے ...اظہار کی کہانی۔
تاریخ کے کسی بھی دور کا جائزہ لیجیے‘ دورِ حاضر کو بھی کھنگال دیکھیے ... بہت سوچنے کے بعد آپ اِسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ اِس دنیا میں جتنا بھی رونق میلہ ہے‘ اظہار کے دم سے ہے۔ جو کچھ اِنسان کے اندر ہے وہ جب باہر آتا ہے‘ طشت از بام ہوتا ہے‘ تب یہ دنیا زیادہ رنگین‘ متنوع اور بامعنی نظر آتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اظہار کی قوت کو بروئے کار لاکر ہی خود کو زندہ ثابت کرتا ہے اور کچھ بن پاتا ہے۔
کسی بھی کامیاب انسان سے ذرا کھل کر بات کیجیے اور کامیاب کا راز جاننے کی کوشش کیجیے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا‘ اُس کا خلاصہ یہ ہوگا کہ جو کچھ بھی کرنے کا من چاہے وہ پوری لگن سے کیجیے اور داد و ستائش کے پھیر میں نہ پڑیے۔ اچھا کام وہی کر پاتے ہیں‘ جو کسی بھی اور پہلو سے کہیں زیادہ صرف اِس بات پر متوجہ رہتے ہیں کہ جو صلاحیت اُنہیں بخشی گئی ہے یا جسے اُنہوں نے پروان چڑھایا ہے‘ وہ دنیا پر منکشف ہو۔
قدرت نے آپ میں بھی بہت کچھ رکھا ہے۔ چند ایک معاملات میں آپ کی صلاحیت بھی دوسروں سے بڑھ کر ہوگی۔ اور سکت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مطلوب لگن پیدا کیجیے اور جو کچھ بھی آپ کرسکتے ہیں وہ کرکے دکھائیے۔ دنیا دوسروں کی طرح آپ کی صلاحیتوں کے اظہار کی بھی منتظر ہے۔ جو کچھ کر دکھاتا ہے اُسے سراہا جاتا ہے۔ اظہار لازمی طور پر سراہے جانے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ مقصود صرف یہ ہونا چاہیے کہ قدرت نے جو کچھ کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے ‘وہ کیا جائے۔ جو لوگ اپنے وجود کی ہر خاصیت ظاہر کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں قدرت بھی اُن کی مدد کرتی ہے۔ ہر وہ انسان بھرپور ستائش کے قابل ہے‘ جو قدرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں اور سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے ‘یعنی اپنے وجود کا اظہار ممکن بناتے ہوئے‘ اِس دنیا کو کسی نہ کسی حد تک اپ گریڈ کرتا ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے‘ یہ سب صرف و صرف اُس رجحان اور عمل کا نتیجہ ہے‘ جسے عرفِ عام میں اظہار کہا جاتا ہے۔
مکمل اِخلاس سے مزین اور ستائش و جزا کی تمنا سے نا آلودہ اظہار ایک الگ ہی شان رکھتا ہے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ دنیا اپنی بازو اُن کے لیے پسارتی ہے‘ جو کسی بھی نوع کی غیر ضروری آرزو یا لالچ کیے بغیر صرف اِتنا یاد رکھتے ہیں کہ اُنہیں اِس دنیا میں کچھ کرکے جانا ہے۔ کوئی ایسا کام جس کے ذریعے اِس دنیا کی تھوڑی بہت اپ گریڈیشن ہو‘ رونق بڑھے اور دل کی تشفّی کا سامان بھی ہو۔