شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر نہیں مارے جاتے۔ اگر کسی نے اچھی زندگی کا اہتمام کرلیا ہو تو کسی سے خواہ مخواہ پرخاش رکھنے اور منفی خیالات و جذبات میں گِھرے رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ بہت سیدھی سی بات ہے‘ مگر پھر بھی کچھ لوگ آسانی سے سمجھ نہیں پاتے‘ اور یہاں سوال کسی فرد کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے۔ جی ہاں‘ بھارت کی حکومت کا۔
ایک زمانے سے ہم یہ بات سن رہے ہیں کہ بھارت نے خود کو عالمی معیشت میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کی بھرپور تیاری کی ہے۔ تعلیم و تربیت کا نظام بہتر بناکر لاکھوں نالج ورکرز پیدا کیے گئے۔ یہ نالج ورکرز آج دنیا بھر میں خدمات انجام دے کر باقاعدہ بنیاد پر ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کسی ملک کے 50 لاکھ سے زائد نالج ورکرز دنیا بھر میں خدمات انجام دے رہے ہوں اور وطن کی نیک نامی کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ غیر معمولی ترقی اور پیش رفت ہضم نہیں ہو پارہی۔ بھارت کے پالیسی میکرز اب تک بھرپور ترقی کے لوازم کو سجھ پائے ہیں نہ ان کا اہتمام کرنے ہی میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ اس منزل تک پہنچا بھی کیسے جائے؟ معاملہ یہ ہے کہ ایک گال میں آگ اور دوسرے گال میں پانی رکھنے والی سوچ اب تک کارفرما ہے۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ آبادی کی کثرت اور تنوع بھارت کو ممتاز حیثیت کا حامل بنائے ہوئے ہے۔ بھارت کے پالیسی میکرز اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایک ارب سے زائد آباد میں مذہبی اقلیتیں کم و بیش 40 کروڑ ہیں۔ مسلم‘ مسیحی‘ سکھ‘ بدھسٹ اور جین مل کر ملک کی کم و بیش نصف آبادی قرار پاتے ہیں۔ نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلِتوں کو اعلیٰ ذات کے ہندو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ اگر اُنہیں بھی ملالیا جائے تو نام نہاد اکثریت در حقیقت اقلیت قرار پاتی ہے!
علاقائی اور عالمی سطح پر غیر معمولی معاشی‘ سیاسی اور سفارتی کردار ادا کرنے کی خواہش مند بھارتی قیادت اب تک اتنی سی بات سمجھ نہیں پائی کہ اقلیتوں کو نظر انداز کرکے حقیقی ترقی یقینی اور ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ ایک زمانے سے بھارتی قیادت ملک میں اقلیتوں کو اور پڑوس کے متعدد ممالک کو پریشان کرنے میں مصروف ہے۔ انتہا پسندوں کو اقتدار ملنے سے ملک کی معاشی بنیاد کمزور ہوئی ہے‘ کیونکہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو مرکزی دھارے سے الگ رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ گائے کو تحفظ دینے کے نام پر جذباتی اور تشدد پسند نوجوانوں کے گروپ تیار کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ یہ گروپ مسلمانوں کو نشانہ بناکر اُن میں خوف کا ماحول بنائے رکھتے ہیں۔
ابتدا میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ ملک کا نظم و نسق انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھ میں آگیا ہے اس لیے اب پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ یہ محض خام خیالی یا خوش فہمی تھی۔ اب یہ معاملہ طشت از بام ہوگیا ہے کہ اقلیتوں‘ بالخصوص مسلمانوں کو دباؤ میں رکھنے سے ملک میں ترقی کی رفتار گھٹ گئی ہے۔ بعض علاقوں میں مسلمانوں پر دباؤ بڑھائے جانے سے معاشرتی سطح پر کشیدگی بڑھنے سے معاشی استحکام کا گراف نیچے آگیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھارت کی کریڈٹ ریٹنگ گھٹادی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی گھٹ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے‘ اُسے دو حصوں میں بانٹ کر مرکزی کے زیرِ انتظام رکھنے کے مودی سرکار کے فیصلے نے معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد کی صورتِ حال نے بھی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور شیو سینا کم و بیش تیس سال تک ریاستی سطح پر اقتدار میں شراکت دار رہی ہیں‘ مگر اب مہا راشٹر میں حکومت سازی کا مرحلہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرگیا ہے۔ 288 رکنی ایوان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ ماہ کے انتخابات میں 105 نشستیں حاصل کی ہیں۔ شیو سینا کی 56 نشستیں ہیں۔ مہا راشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے بی جے پی کو پھر حکومت بنانے کی دعوت دی‘ مگر وہ ناکام ہوکر ایک طرف ہٹ گئی ہے اور اب شیو سینا کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے ساتھ ملک کر حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریاستی امور تعطل کی منزل میں ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی چاہتے ہیں کہ دو تین سال میں بھارتی معیشت کا ٹرن اوور 5 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جائے۔ ایسا کیونکر ہوسکتا ہے؟ اس کی وضاحت انہوں نے کبھی نہیں کی۔ ملک میں صنعتی پیداوار کا گراف گر رہا ہے۔ ستمبر 2019ء میں صنعتی پیداوار 4.3 فیصد سکڑ گئی۔ بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس کے نتیجے میں افلاس کی سطح بھی بلند ہوگئی ہے۔ مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ پیاز جیسی چیز بھی دارالحکومت دہلی میں 100 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے۔ تیل‘ گھی اور اناج کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ برآمدات کا گراف بلند کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ صنعتوں کا ڈھانچا بہتر بنانا اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ ملک بھر میں صنعتی یونٹس کی پیداوار توقعات اور ضرورت سے بہت کم ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالمی معیشت میں رونما ہونے والے کسی بڑے سنہرے موقع سے مستفید ہونا بھی اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔
بھارتی قیادت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے‘ مگر اس کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ نہیں کرنا چاہتی۔ ملک کو معاشی سطح پر بلند کرنے کا تو سوچا جارہا ہے‘ معاشرتی پستی دور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی۔ اقلیتوں کو مسلسل دباؤ میں رکھا جارہا ہے۔ کرتار پور راہداری کے معاملے میں بھی بھارتی قیادت نے وسیع النظری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا ‘جس کے نتیجے میں سکھ بدظن ہوئے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا جو حتمی فیصلہ سنایا ہے اُس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق تسلیم نہیں کیے جارہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کو بالکل غیر قانونی طور پر توڑا گیا اور آئین کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ اس کے باوجود بابری مسجد کی زمین رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے دے دی گئی ہے۔ مسلم رہنماؤں ہی نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک کمار کانگولی نے بھی اس فیصلے کو غلط اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ خود بھی تسلیم کرچکی ہے کہ جہاں بابری مسجد تھی وہاں اُس کی تعمیر سے پہلے جو کچھ بھی تھا‘ وہ مندر بہرحال نہیں تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ زمین مندر کے لیے دینا کسی بھی دلیل کی رُو سے‘ کسی بھی نوع کی منطق کے اعتبار سے درست نہیں۔
بابری مسجد کیس کے فیصلے نے بھارتی اقلیتوں میں عدمِ تحفظ کے احساس کو شدید تر کردیا ہے۔ مودی سرکار اور نئی دہلی اسٹیبلشمنٹ کے پالیسی میکرز جو کچھ سمجھ نہیں پارہے وہ سمجھنے کی اُنہیں کوشش کرنی چاہیے۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر نہیں مارے جاتے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو شیشے کا گھر سلامت نہیں رہ سکے گا۔ بھارت کسی نہ کسی حیثیت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اُسے اپنے ساتھ پورے خطے کا مفاد سوچنا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو خطے کے باقی کھلاڑی اس کھلاڑی کو میدان سے نکال کر بند گلی میں کھڑا کردیں گے۔