لوگ جہاں ہیں‘ اُنہیں وہیں رہنے دینے کا بھرپور اہتمام کیا جارہا ہے۔ انسان دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی مشقت سے نجات پائے تب تو کچھ ایسا کرے‘ جو اُسے زندگی کی عمومی سطح سے بلند کرے‘ نام زندہ رکھنے کی گنجائش پیدا کرے۔ بقول میر دردؔ ؎ :
دردؔ کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے‘ نِت وہی وہی غم ہے
یہاں بھی کیفیت الگ ہٹ کر نہیں‘ جنہیں علامہ اقبالؔ نے ستاروں پر کمند ڈالنے کی تحریک دینے کی کوشش کی تھی‘ وہ گھر سے نکلنے کے بعد سبزی کے ٹھیلے یا ٹِھیے تک پہنچ کر اَدھ مُوئے ہو جاتے ہیں!اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ہاتھوں سے نکلی جارہی ہیں۔ اب کسی دکاندار سے دال چاول‘ سبزی یا پھل کے نرخ پوچھتے وقت احتیاطی تدبیر کے طور پر دونوں ہاتھوں سے دل تھامنا پڑتا ہے۔ اور وہ بھی بتانے سے پہلے کہہ دیتا ہے کہ نرخ بتائے جانے کے سائڈ ایفیکٹس کا وہ ذمہ دار نہ ہوگا!بعض اوقات اشیائے خور و نوش کے نرخوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ پوچھ بیٹھیے تو سُننے کے بعد ع
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں!
ایک زمانے سے ہمارے مقدر میں یہی الٹ پھیر ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں جاچکی ہے اور ہم کہاں سے کہاں آچکے ہیں! دو ٹکے کی الجھنیں جان نہیں چھوڑتیں۔ زندگی وہ نعمت ہے جسے اعلیٰ ترین درجے کے سوا کسی درجے میں رکھا ہی نہیں جاسکتا۔ کرنے کو بہت کچھ ہے۔ دنیا اُن کے لیے باہیں پسارے کھڑی ہے‘ جن میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیت‘ سکت‘ لگن سبھی کچھ ہے۔ جس نے خود کو تیار کیا ہے‘ اُس نے کچھ نہ کچھ پایا ہے۔کسی زمانے میں کسی نے خوب کہا تھا ؎۔
بہت دنوں سے یہی شغل ہے سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ گلزارِ ہست و بود کو محض ویرانے میں تبدیل کرنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ اور ایسا کرنے پر کوئی شرمندہ بھی نہیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مِصداق جن میں ڈھنگ سے جینے کی سکت پہلے ہی دم توڑ چلی ہے‘ اُنہیں سانس لینے کے قابل بھی نہ چھوڑنے کی قسم کھالی گئی ہے۔ کوئی اِن سے یہ پوچھنے والا بھی نہیں کہ جن کے ہونے نہ ہونے سے تمہارے مفادات پر ضرب نہیں پڑتی اُن بے چاروں کو مِٹانے پر کیوں تُلے ہو۔
مثل آپ نے بھی سُنی ہوگی کہ باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی۔ ہم اسی کیفیت کو تو بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ حقیقت کہ ہم جوہری قوت ہیں۔ یہ بڑی بات ہے جس پر فخر ہونا چاہیے ‘مگر یہی تو سب کچھ نہیں۔ ہم اب تک روزمرہ استعمال کی اشیاء کے مایا جال ہی سے نہیں نکل سکے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کا حصول یقینی بنانے کے لیے لوگوں کو سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ بجلی جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کی چیز بھی یوں ملتی ہے کہ ہونے پر نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے! بقولِ غالبؔ ع
ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!
کھیتوں کی پیداوار کو ڈھنگ سے مارکیٹ تک لانے اور معقول قیمت پر فروخت کرنے کا میکینزم بھی اب تک تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ کوئی بھی بنیادی سہولت اطمینان بخش حد تک میسر نہیں۔ اب کوئی گراوٹ کیا اِس سے بھی بڑھ کر ہوگی؟
چند برس سے یہ ہوتا آیا تھا کہ چند ایک سبزیاں آنکھیں دکھاتی تھیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں (عمران خان قصور وار ہوں یا نہ ہوں) یہ تبدیلی آئی ہے کہ ہر سبزی آگے آگے ہے اور لوگ پیچھے بھاگتے ہوئے ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ دوڑنا بند کرے اور ''سیدھی شرافت‘‘ سے ہاتھ آجائے۔ لوگ بھاگ بھاگ کر تھک گئے ہیں‘ اَدھ مُوئے ہوئے جاتے ہیں۔ کم و بیش ایک عشرے سے خشک میوے کے دام اِتنے بلند ہیں کہ سُنیے تو خون خشک ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے! اب کے برس چلغوزے نے قیامت ہی ڈھادی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ بازار میں اول تو چلغوزہ برائے نام ہے اور دوم یہ کہ پانچ تا سات ہزار روپے فی کلو کے نرخ پر دستیاب ہے۔ خشک میوے کے تاجر خموشی کی زبان سے للکار رہے ہیں ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کُھلتے ہیں
مبارک بُزدلوں و گردشِ قسمت سے ڈر جانا
غریب آدمی کے لیے قدم قدم پر ڈوب مرنے کا پورا سامان موجود ہے‘ مگر پھر بھی وہ جیے جاتا ہے۔ کیوں؟ انا کی چڑیا اب تک اڑ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب کو ختم کرنے کی مقدور بھر کوشش تو کرلی گئی ہے‘ مگر وہ صفحۂ ہستی سے مِٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ لے بھی کیسے اور کیوں؟ آخر جینے کی لگن بھی تو کوئی چیز ہے۔ ؎
یہ سَودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مر جانا
کوئی سوچنے کو بھی تیار نہیں کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کی تمنا رکھنے والوں کو کس بند گلی میں پھنسادیا گیا ہے۔ دنیا نئے اور پرانے نظریات کے حوالے سے بحث و تمحیص میں الجھی ہوئی ہے‘ اپنی فکری سطح بلند کر رہی ہے اور ہم نئے اور پُرانے آلو کی قیمت کے فرق پر لڑنے میں مصروف ہیں! دنیا ذہن کو سیراب کرنے میں مصروف ہے اور ہم اب تک پیٹ کا گڑھا ہی ڈھنگ سے نہیں بھر پائے۔ تعلیم‘ صحت اور یومیہ سفر کی بنیادی سہولت کا بھی اب تک قابلِ رشک انداز سے اہتمام نہیں کیا جاسکا۔ ایسے میں کچھ بننے اور کر دکھانے کا خواب کیونکر شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ ایسا تو سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے۔
ہم نے زندگی کو کیا سے کیا بنا ڈالا ہے؟ کائنات کے خالق نے ہمیں روئے ارض پر چند سانسیں اس لیے تو نہیں دی ہیں کہ اُنہیں انتہائی فضول معاملات پر ضائع کردیا جائے۔ سوچنا یہ ہے کہ ہم ایک معاشرے یا قوم کی حیثیت سے کہاں آگئے ہیں کہ تمام معاملات دو وقت کی روٹی سے شروع ہوکر دو وقت کی روٹی پر ختم ہو رہے ہیں۔ اکثریت گزارے کی سطح سے بلند ہونے کی کوشش کر رہی ہے ‘مگر کامیاب نہیں ہو پارہی اور جنہیں قدرت نے بہت کچھ دے دیا ہے ‘وہ اپنے افکار و اعمال سے ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ وہ ایک وجود کی حیثیت سے اب تک گزارے کی سطح سے بلند نہیں ہو پائے۔ ع
کس طرح آہ قعرِ مذلّت سے ''ہم اٹھیں!‘‘
ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو روزمرہ کی زندگی کی سطح سے بلند تو ہونا ہی پڑے گا۔ اس حوالے سے ذمہ داری سبھی کی ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُسے کوئی کردار ادا نہیں کرنا۔ سب مل کر تبدیل ہونا چاہیں گے تو تبدیل ہوگے۔ حکومت تبدیلی کو برپا کرنا چاہتی ہے۔ تبدیلی برپا کی جاسکتی ہے نہ مسلط۔ ایسا کرنے کی ہر کوشش تاریخی ریکارڈز میں ناکام ملی ہے۔ ہم تبدیل ہو جائیں گے تو تبدیلی رونما ہوگی۔
سب مل کر سوچیں گے اور کچھ کرنا چاہیں گے تو کچھ ہوگا‘ وگرنہ ہم گزارے کی سطح کے گڑھے میں پڑے رہیں گے اور دنیا ہمیں ہدفِ تمسخر و تنقید بناتی رہے گی۔
دنیا کو کوسنا مسئلے کا حل نہیںاور مایوس ہوکر بیٹھ رہنا بھی کوئی قابلِ فخر آپشن نہیں...!
بس ‘سوچ لیجیے کہ موجودہ سطح سے اٹھنا ہے‘ زندگی کو بلندی سے روشناس کرانا ہے!