"MIK" (space) message & send to 7575

دباؤ ٹالنا نہیں‘ جھیلنا ہے

کسی بھی ہیرے کو غور سے دیکھیے؛ہیرے میں آپ کو کیا نظر آتا ہے؟ 
کالک؟ بالکل نہیں۔ ہیرا تو چمکدار ہوتا ہے‘ جتنی روشنی پڑتی ہے‘ اُتنا دل کش دکھائی دیتا ہے۔ یہی تو کسی بھی ہیرے کی اصل اور سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ 
اب ذرا ذہن پر زور دیجیے تو یاد آئے گا کہ ہیرا دراصل کوئلے کا وہ ٹکڑا ہے‘ جس نے کان کی گہرائیوں میں انتہائی نوعیت کا دباؤ بخوبی برداشت کیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 
ہیرے میں ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی قسم کے دباؤ کو ٹالنے اور جان چھڑانے کی کوشش کرنے سے کہیں بڑھ کر اہم یہ ہے کہ آپ اُسے جھیلنا سیکھیں۔ زندگی کے مختلف معاملات ہمارے لیے جو دباؤ پیدا کرتے ہیں اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر مشکل صورتِ حال ہمیں کچھ منفرد اور مزید کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ 
کوئلے کے ٹکڑے کو ہیرا بننے کے لیے بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ سونے کا ہے۔ سونا جب تک بھٹی میں تپتا نہیں‘ کندن نہیں بنتا اور کوئلے یا سونے پر کیا منحصر ہے‘ دنیا کا ہر معاملہ ایسا ہی ہے۔ ہم میں سے بھی وہی تو آگے بڑھتا ہے‘ کچھ کر پاتا ہے ‘جو حالات کی سختی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
اگر سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق چلتا رہے تو؟ ایسے میں ہماری آزمائش کہاں سے ہوگی؟ کسی بھی انسان کی آزمائش حالات کے بدلنے ہی سے ہوتی ہے۔ بدلے ہوئے حالات انسان کو للکارتے ہیں۔ اگر للکار کے جواب میں انسان کسی کونے میں دُبک جائے ‘تو اُس کی شخصیت کی نمو رک جائے۔ 
معاشرے میں مجموعی طور پر اور ہمارے قریبی ماحول میں خصوصی طور پر رونما ہونے والی تبدیلیاں سبھی کے لیے کسی نہ کسی حد تک اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ اِن اثرات کا سامنا کرنا ہی اِن سے نمٹنے کی بہترین صورت ہے۔ حقائق سے آنکھیں چُرانے والے مشکلات میں گِھرے رہتے ہیں۔ ہر صورتِ حال ہمارے لیے کوئی نہ کوئی چیلنج رکھتی ہے۔ جو لوگ لگی بندھی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ‘وہ کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ''بے فضول‘‘ کی الجھن سے دوچار کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ؟ نتیجہ اس کے سوا کیا برآمد ہوسکتا ہے کہ اِنسان جہاں ہے وہیں رہے‘ اُس کی شخصیت کا پنپنا رک جائے؟ 
ہم سب ہیروں کی طرح چمکنا‘ جگمگانا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش بُری اور غیر منطقی نہیں۔ ہیرے اپنی جگمگاہٹ کی بدولت سبھی کے فیورٹ ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ہیرے کی سی جگمگانے کی صلاحیت کیوں نہ چاہے؟ اِس مرحلے پر ذہنوں میں ابھرنے والا سوال یہ ہے کہ ہم سب وہ دباؤ برداشت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں‘ جو کوئلے کی کان میں ہیرے برداشت کرتے رہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بالعموم نفی میں ملتا ہے۔ لوگ عمومی سطح پر تن آسانی کے ساتھ جینا پسند کرتے ہیں۔ معاشروں میں عمومی سطح پر جینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ بامقصد اور بامعنی زندگی بسر کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان معمولات کی حد سے نکلے‘ خود کو بلند کرے۔ جب کسی کے دل میں کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے تب لازم ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ الگ سے کیا جائے۔ یہی سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ لوگ بہت کچھ بننا اور کرنا چاہتے ہیں‘ مگر اس خواہش کو عملی شکل دینے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے‘ اُس سے بہت دور بھاگتے ہیں۔ 
ہر شعبہ صرف اُن کا استقبال کرتا ہے‘ جو کچھ پانے کے لیے اپنا آپ مٹانے کو تیار رہتے ہیں۔ فی زمانہ ہر شعبے میں پیش رفت غیر معمولی نوعیت کی ہے‘ جسے کچھ کر دکھانا ہو‘ اُس کے لیے معاملات سیدھے اور سادہ نہیں ہوتے۔ ہر مقام پر مقابلہ سخت ہے۔ کچھ پانے کی لگن رکھنے والوں کو صلاحیت‘ مہارت‘ سکت اور ولولہ ... سبھی کچھ بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ نیم دِلانہ رویہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ 
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ کچھ لوگوں کو بہت سی آسانیاں بہت آسانی سے مل جاتی ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو یقین کیجیے کہ یہ سوچ محض سادہ لوحی پر مبنی ہے۔ کسی کو بھی بھرپور کامیابی اِس طور نہیں ملتی ‘جیسے پلیٹ میں رکھ کر حلوہ پیش کیا جاتا ہے۔ ویسے تو خیر ہر دور میں زندگی کسی کے لیے آسان نہ تھی‘ مگر خصوصی طور پر فی زمانہ معاملہ بہت چیلنجنگ ہے۔ آج فقید المثال کامیابی یقینی بنانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ حالات کے دباؤ کا سبھی کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض شعبوں میں انسان بہت کچھ پاتا ہے ‘مگر معاملہ روزانہ کنواں کھود کر پانی نکالنے جیسا ہوتا ہے۔ مسابقت اتنی سخت ہوتی ہے کہ اِدھر کوئی ذرا سا ڈھیلا پڑا اور اُدھر اُس کے خلاف محاذ کھڑا ہوا۔ 
آپ کو بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے سخت آزمائش سے گزرنا ہے۔ یہ آزمائش ہی آپ اپنی شخصیت میں چھپی ہوئی بہت سی صلاحیتوں سے روشناس کرائے گی۔ جو لوگ حالات کا دباؤ جھیلنے سے کتراتے ہیں‘ وہ اِس حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں کہ آزمائش کے لمحات ہی میں انسان کو اپنی بہت سی صلاحیتوں اور سکت کا علم ہو پاتا ہے۔ کسی بھی الجھن کو چیلنج کے روپ میں قبول کرنے کی صورت میں انسان کو عمل کی راہ پر آگے بڑھتے چلے جانے کی تحریک ملتی ہے۔ دنیا کا ہر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے‘ مگر ایسا اُسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ چیلنجنگ لمحات سے جان چھڑانے کے بجائے اُن کا سامنا کرے‘ اپنی صلاحیت‘ مہارت اور سکت کا نئے سِرے سے جائزہ لے۔ ہر پریشان کن صورتِ حال انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ سوچنے والوں کو عمل کی راہ سُجھائی دیتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے تو کوئلے کو ہیرے میں تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ 
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں‘ جس میں آسانیاں تو بہت ہیں‘ مگر آسان کچھ بھی نہیں۔ اب کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے لیے بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ اگر حالات کو جھیلنے کے مرحلے کو skip کرنے کی کوشش کی جائے تو زندگی کے ہاتھوں سے بہت کچھ نکل جاتا ہے۔ ہم عمومی سطح پر کوئلے کے مانند ہوتے ہیں۔ غیر معمولی دباؤ جھیلنے کی صورت میں بہت کچھ سیکھتے سیکھتے ہم ہیرے میں تبدیل ہوتے ہیں۔ جو کوئلے سے ہیرے میں تبدیل ہوا ہو وہی جانتا ہے کہ قطرے پہ گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے۔ کامیاب انسانوں کے حالاتِ زندگی کے بارے میں پڑھتے رہیے۔ آپ کو اندازہ ہوتا رہے گا کہ بھرپور کامیابی کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ محنت کیے بغیر کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ دباؤ سے دامن بچاکر گزر جانا بھی ممکن ہے ‘مگر ایسی حالت میں زندگی کچھ ادھوری سی رہ جاتی ہے۔ زندگی کی جامعیت اُسی وقت یقینی ہو پاتی ہے ‘جب ہم مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی شخصیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ایسے میں کیا جانے والا ہر کام سرمایۂ افتخار ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھتے وقت درپیش مشکلات سے گھبراکر دامن بچانے کے بجائے ‘اُن کا سامنا کیجیے۔ ایسا کرنے سے آپ ہیرے میں تبدیل ہوں گے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتے ہیں۔ ہر ایک کی نظر میں بلند ہونے کی کوشش کرنے کی بجائے خود کو صرف جوہری کی توجہ کا مرکز بننے کے لائق بنائیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں