"MIK" (space) message & send to 7575

کام اور زندگی

دنیا کے ہر انسان کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کام کرنا ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ کام کیے بغیر زندگی ڈھنگ سے گزرتی نہیں۔ جس کے پاس گزارے کے لیے کچھ نہ ہو اُسے تو خیر کام کرنا ہی پڑتا ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس اتنی دولت ہو کہ سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھائیں اُسے بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کچھ نہ کرنے کی صورت میں زندگی بے رنگ سی ہو جاتی ہے‘ وجود کو زنگ سا لگ جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کو کام کس حد تک کرنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب ہر انسان کے نزدیک کچھ اور ہی ہے۔ سبھی اس حوالے سے اپنی فکری ساخت اور رجحان کے مطابق سوچتے ہیں۔ معروف گلوکارہ ڈولی پارٹن کہتی ہیں کہ پیٹ کی آگ بجھانے کا اہتمام کرنے میں انسان کو اس قدر مصروف نہیں ہو جانا چاہیے کہ زندگی کی تعمیر کا بنیادی فریضہ ہی بھول جائے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے اکبرؔ الٰہ آبادی کہتے ہیں ؎ 
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا 
کٹی عمر ہوٹلوں میں‘ مرے ہسپتال جاکر 
ہم میں سے بہت سوں کا یہ حال ہے کہ انتہاؤں پر جیتے ہیں یعنی یا تو بالکل کام نہیں کرتے یا پھر اتنا کام کرتے ہیں‘ اُن کی زندگی سے باقی سب کچھ نکل جاتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان رہتے ہوئے جینے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کسی بھی اعتبار سے بے ربط اور غیر متوازن نہ ہو۔ 
عملی زندگی کو بھرپور جذبے کے ساتھ گلے لگانے والوں کے بھی چند ایک مسائل ہیں۔ ایسے لوگ بہت کچھ پانے کی آرزو کو پروان چڑھاتے چڑھاتے سبھی کچھ پانے کی آرزو کرنے لگتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کی خواہش ہے کہ ہمیں وہ سب کچھ مل جائے جو ہم پانا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ یقیناً نہیں۔ ''یاہو‘‘ کی سابق صدر اور سی ای او میریزا میئر کہتی ہیں ''محنت کرتے رہنے سے آپ کو سب کچھ تو نہیں‘ مگر ہاںوہ سب کچھ ضرور حاصل ہوجائے گا جو آپ کے لیے اہم ہو۔ اور ہر انسان کو اسی بات سے غرض رکھنی چاہیے کہ جو کچھ ضروری ہے وہ حاصل ہو۔ ایسی چیزوں کو حاصل کرنے سے کیا فائدہ جو ہمارے لیے کسی کام کی نہ ہوں؟ 
ریئل اسٹیٹ کے ایک بڑے آجر گیری کیلر کہتے ہیں کہ معاشی سرگرمی ربڑ کی گیند کی طرح ہے۔ آپ اسے بلندی سے چھوڑیں گے تو یہ زمین سے ٹکراکر اچھلے گی۔ آپ کے نصیب کی باقی چار گیندیں ... اہلِ خانہ‘ صحت‘ دوست اور یکسوئی ... شیشے کی بنی ہیں۔ اگر آپ انہیں چھوڑ دیں گے تو ان پر نشان پڑ جائیں گے‘ چٹخ جائیں گی اور ٹوٹ بھی سکتی ہیں۔ 
زندگی صرف اُسی وقت قابلِ رشک کہلاتی ہے جب اُس کے تمام پہلو متناسب اور متوازن ہوں۔ سیاست دان پال ساونگیز یا ربی ہیرولڈ کشنر سے منسوب انتہائی مؤثر جملہ یہ ہے کہ بسترِ مرگ پر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ کاش اُس نے اپنے دفتر میں زیادہ وقت گزارا ہوتا! سیدھی سی بات ہے۔ جب انسان کو موت کا یقین ہو جاتا ہے تب بہت سے معاملات کا دکھ اور پچھتاوا محسوس ہوتا ہے۔ جو کچھ کیا اُس کا بھی پچھتاوا ہوتا ہے اور جو کچھ نہ کیا جاسکا ہو اُس کا بھی دکھ ہوتا ہے۔ مرتے وقت ایک بات کا دکھ تو لازمی طور پر محسوس ہوتا ہے ... یہ کہ کاش اہلِ خانہ کو زیادہ وقت دیا ہوتا! اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ معاشی سرگرمیوں کو کچھ زیادہ ہی وقت دے رہے ہیں تو کچھ دیر ٹھہر کر اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے اور عدم توازن دور کرنے کے لیے زندگی کو نئے سِرے سے ترتیب دینے کی کوشش کیجیے۔ ہمیں یہ زندگی توازن کے ساتھ بسر کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔ غیر ضروری طور پر عدم توازن پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ تھوڑی سی توجہ سے ہر پہلو کو توانا اور متوازن رکھا جاسکتا ہے۔ زندگی ہمیں ایک بار ہی ملتی ہے۔ جو وقت ہمیں عطا کیا گیا ہے وہ بھی ایک بار ہی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہوش یا بیداری کی حالت میں ایک ایک لمحہ سوچ سمجھ کر گزارا جائے۔ 
مشہور مصنفہ اور بزنس وومن آریانا ہفنگٹن کا کہنا ہے کہ ہم سب عمومی سطح پر اس مغالطے کا شکار رہتے ہیں کہ کامیابی اُس وقت کا نتیجہ ہے جو ہم کام میں لگاتے ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ کامیابی اُس معیاری وقت کا نتیجہ ہے کہ جو ہم بروئے کار لاتے ہیں۔ سوال صرف وقت صرف کرنے کا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو وقت لگایا جارہا ہے وہ کس حد تک معیاری ہے۔ یعنی جو کام جس وقت کیا جانا چاہیے وہ اُسی وقت کیا جانا چاہیے۔ جب موقع گزر جائے تو دُگنا وقت صرف کرنے پر بھی مطلوب نتائج یقینی نہیں بنائے جاسکتے۔ 
وقت کو معیاری انداز سے بروئے کار لاتے وقت ہمیں اس امر کا تعین پوری توجہ کے ساتھ کرنا ہے کہ سب سے ضروری کام سب سے پہلے کیا جانا چاہیے۔ بہت کچھ ہے جو ہم کر گزرتے ہیں اور اُس میں سے بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اور دوسری طرف ایسا بھی بہت کچھ ہے جو ہم نہیں کر پاتے۔ ہم عمل کی سطح پر جو غلطی کرتے ہیں اُس کا دکھ تو کبھی نہ کبھی ختم ہو ہی جاتا ہے‘ مگر جو کچھ ہم نہیں کر پاتے اُس کا دکھ شاید ہی کبھی ختم ہو پائے۔ اس پریشانی سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ یہی ہے کہ آپ اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے حوالے سے معیاری منصوبہ سازی کیجیے۔ 
گھریلو زندگی کو بھی وقت دینا لازم ہے۔ آپ کے بچوں کو بچپن ایک بار ملتا ہے۔ کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ اپنے بچوں کو صرف ایک بار ملنے والے بچپن کو زیادہ سے زیادہ یادگار بنائیں؟ اُسے یادگار بنانے کی کوشش کیجیے۔ اہلِ خانہ اور بالخصوص بچے اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ اُن پر مال خرچ کیا جائے۔ مال خرچ کرنا بھی اچھی بات ہے ‘مگر مال سے دُگنا وقت خرچ کرنا زیادہ اہم ہے۔ اہلِ خانہ کو یہ احساس پوری شدت کے ساتھ ہونا چاہیے کہ آپ اُن کے ہیں‘ اُن کے بارے میں سوچتے ہیں اور اُن کا خیال رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں گھریلو زندگی کا استحکام بڑھتا ہے۔ 
عالمی شہرت یافتہ امریکی مصنف سٹیفن کوی نے کہا ہے کہ وقت کو صرف کرنے کے لیے انگریزی میں لفظ spend (خرچ کرنا) استعمال ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت اتنی اہم چیز ہے کہ اسے spend کرنے کے بجائے invest کرنا چاہیے! وقت واقعی اس قابل ہے کہ اسے مزید مؤثر اور بارآور بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ 
طنز و مزاح سے بھرپور کالم لکھنے کے حوالے سے عالمگیر شہرت کے حامل آرٹ بخوالڈ کہتے ہیں کہ یاد رکھیے کہ آپ کے حصے میں آنے والے حالات بہترین ہوں یا بدترین‘ یہی حالات آپ کا مقدر ہیں۔ کسی بھی نوع کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے حوالے سے مصروف رہیے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اسی طور جینا ہوتا ہے۔ اور آخر میں مدر ٹیریسا کا شاہکار جملہ ''اگر آپ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو گھر کی طرف دیکھیے یعنی اہلِ خانہ سے ویسی ہی محبت کیجیے جو کی جانی چاہیے‘‘۔ معاشی اور گھریلو زندگی کے درمیان حقیقی توازن پیدا کرنے میں کامیابی سے ہم کنار ہونے والے ہی ہر میدان میں کامیاب رہتے ہیں۔ گھر کا استحکام اور توازن نظر انداز کرنے والوںکو پریشانیاں بہت پسند کرتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں