اگر آپ کو کامیابی کا مفہوم جاننا ہے‘ تو لوگوں سے بات کیجیے۔ ہر شخص کامیابی کا الگ ہی مفہوم بیان کرے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہر انسان کے نزدیک کامیابی کا اپنا مفہوم ہوتا ہے۔ وہ اپنی آرزوؤں اور امنگوں کے مطابق ‘جینا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مثالی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب بھی آپ کسی سے مثالی زندگی کے بارے میں پوچھیں گے تو الگ ہی جواب ملے گا۔ مثالی زندگی کا تصور سوچ کے فرق سے بدلتا رہتا ہے۔ کسی کے نزدیک مثالی زندگی یہ ہے کہ انسان کسی کا محتاج نہ ہو اور پُرسکون مزاج کے ساتھ جیے۔ کسی کے خیال میں مثالی زندگی یہ ہے کہ کوئی دوست نزدیک ہو نہ رشتہ دار‘ یعنی یہ کہ اپنے طور پر‘ اپنی مرضی کے مطابق جیے جانا ہی مثالی زندگی ہے۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اپنی مرضی کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف رہنا اور اپنی مرضی کا معاوضہ پانا ہی مثالی زندگی ہے‘ کیونکہ ایسی صورت میں مالیاتی خود مختاری حاصل ہوتی ہے اور اپنی مرضی کی تمام اشیاء و خدمات کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
ہم جسے مثالی زندگی سمجھتے ہیں وہ کبھی ممکن نہیں ہو پاتی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ دنیا ہماری سوچ کے مطابق نہیں چلتی۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ سوچتا ہے۔ اُس کی سوچ حالات میں تبدیلی کو جنم دیتی ہے۔ یہ تبدیلیاں بڑھتے بڑھتے ناقابلِ گرفت ہو جاتی ہیں۔ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے خود کو خاصا مجبور و بے بس محسوس کرتا ہے۔ مکمل طور پر اپنی مرضی کے مطابق جینا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ہم معاشرے کے مرکزی دھارے سے کٹ کر‘ ہٹ کر نہیں جی سکتے۔ جو لوگ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘اُن کی زندگی سے اچھا خاصا لطف غائب ہو جاتا ہے۔ مارک ٹوئین کا شمار انگریزی کے معروف ترین طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ اُن کے بہت سے جملے غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوئے۔ ایک جملہ یہ بھی تھا کہ سگریٹ چھوڑنا ذرا بھی مشکل نہیں‘ میں خود کئی بار چھوڑ چکا ہوں! غیر معمولی پنچ لائن والے شرارتی جملے دینے میں مارک ٹوئین کا مقابلہ چند ہی ادیب کرسکتے ہیں۔ ایک بار مارک ٹوئین سے پوچھا گیا کہ مثالی زندگی کیا ہوتی ہے تو اُنہوں نے اپنے مخصوص شرارتی انداز سے جواب دیا ''اچھے دوست‘ اچھی کتابیں اور سویا ہوا ضمیر!‘‘۔ ''مثالی زندگی‘‘ کی ایسی جامع تعریف شاید ہی کہیں اور دستیاب ہو۔ مارک ٹوئین نے شرارت بھرے لہجے میں ایک ایسی حقیقت بیان کردی ‘جس کا مشاہدہ مشکل نہیں۔ بڑے ذہن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ باتوں ہی بات میں کسی ایسی حقیقت کی طرف اشارا کردیتا ہے‘ جو وجود رکھتے ہوئے بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ ارے‘ یہ تو واقعی بالکل سامنے کی بات تھی‘ مگر ہم دیکھنے یا سمجھنے سے قاصر رہے۔
اس دنیا میں مثالی زندگی نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ ہمیں اس دنیا سے بہت کچھ ملتا ہے اور اُس کے بدلے میں ہمیں اس دنیا کو ہمیں بہت کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ دنیا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد ہی پر چلتی ہے۔ جو لوگ معاشرتی دھارے سے ہٹ کر جینے کی کوشش کرتے ہیں وہ ادھورے رہ جاتے ہیں۔ یہ ادھورا پن اُن کی زندگی سے سارا رس نچوڑ لیتا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو انتہائی پُرسکون زندگی بسر کرنے کا خواہش مند نہیں؟ کسی نہ کسی مرحلے پر ہم سبھی اِس بات کے آرزو مند ہوتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ضروری یا غیر منطقی الجھن ہمارے ذہن میں داخل نہ ہو۔ ہم بکھیڑوں سے بچتے پھرتے ہیں‘ مگر وقفے وقفے کوئی نہ کوئی الجھن ہمارے ذہن میں گھر کر ہی لیتی ہے اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بکھیڑوں میں پڑ ہی جاتے ہیں۔
''مثالی زندگی‘‘ کے حوالے سے مارک ٹوئین کا ''مشورہ‘‘ یہ ہے کہ چند اچھے دوستوں کے ساتھ باقاعدگی سے یعنی یومیہ بنیاد پر بیٹھک کیجیے‘ چند اچھی کتابیں جمع کیجیے یعنی تنہائی میں معیاری مطالعے سے محظوظ ہوا جاسکے۔ اور ہاں‘ دوستوں کی صحبت اور مطالعے سے بھرپور حِظ اٹھانے کے لیے لازم ہے کہ ضمیر سویا ہوا ہو!
ضمیر کا بیدار ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب یہ بیداری کی حالت میں ہوتا ہے تو انسان کے لیے مستقل اذیت اور کوفت کا سامان کرتا ہے۔ یہ ضمیر ہی تو ہے جس کے باعث ہم کسی بھی معاملے میں حقیقی دکھ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ''سوچاں‘‘ اور ''موجاں‘‘ والا ہی معاملہ ہے۔ جہاں سوچیں ہوتی ہیں وہاں موجیں نہیں ہوتیں۔ سوچنے‘ محسوس کرنے اور کڑھنے والا انسان کسی بھی حال میں زندگی کا بھرپور لطف نہیں پاسکتا۔ حسّاس طبیعت رکھنے والے اور جاگے ہوئے ضمیر کے ساتھ زندگی کرنے کے عادی کسی بھی انسان کو آپ کبھی زیادہ خوش نہیں پائیں گے۔ بات سیدھی سی ہے۔ جس کے سینے میں حسّاس دل ہو وہ اپنے ماحول کے حوالے سے بے حِس اور لاتعلق کیسے رہ سکتا ہے؟ دوسروں کا درد محسوس کرتے ہوئے تو انسان ہنسنے والی بات پر بھی ہنس نہیں سکتا۔
بہت سے لوگ دوسروں کی پریشانیوں کے بارے میں سوچنا اور اُنہیں دور کرنے کے حوالے سے کچھ کرنا گوارا نہیں کرتے اور اپنے لیے گوشۂ عافیت قائم کرکے اُس میں بند ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں‘ اسے وہ مثالی زندگی قرار دیتے ہیں۔ یہ تو اُن کی مرضی ہے کہ اسے مثالی زندگی قرار دیں اور دوسروں سے لاتعلق رہتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی زندگی کو کسی بھی درجے میں مثالی زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مثالی زندگی یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیت اور سکت سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرے۔ جو لوگ دوسروں کے کام آتے ہیں وہی اِس قابل ہوتے ہیں کہ اُنہیں مثال بنایا جائے‘ اُن کی طرزِ زندگی کی تقلید کرتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔
مارک ٹوئین نے مثالی زندگی کے اجزائے ترکیبی میں سوئے ہوئے ضمیر کو شامل کرکے دراصل اُن تمام انسانوں پر جامع طنز کیا ہے جو اپنے لیے آسودگی کا سامان کرنے کے بعد اپنے ماحول سے یکسر لاتعلق ہوکر جیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک روزانہ چند دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا‘ معیاری مطالعہ کرنا اور ضمیر کو خوابیدہ حالت میں رکھنا ہی مثالی زندگی ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے رنج و غم سے یکسر بے نیاز ہوتے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کون کتنا پریشان ہے‘ کس کی زندگی میں کتنے دکھ ہیں۔ خود غرضی کی راہ پر چلتے چلتے یہ صرف اپنے وجود تک محدود ہو جاتے ہیں۔ اپنے مفاد سے ہٹ کر اِنہیں کچھ بھی عزیز نہیں ہوتا۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مثالی زندگی یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو‘ کسی کا کوئی دکھ ہمیں تکلیف نہ دے رہا ہو تو یقین کیجیے یہ غلط سوچ ہے۔ مثالی زندگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان معاشرے سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ایسی زندگی بسر کرے جس میں دوسروں کے کسی دکھ کا احساس تک باقی نہ رہے۔ اس نوع کی زندگی بے رس اور دل کشی سے یکسر محروم ہوتی ہے۔ انسانوں کو روئے زمین پر اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مل جل کر رہیں‘ ایک دوسرے کے کام آئیں اور ایک دوسرے سے مستفید ہوں۔ اپنے آپ کو ماحول سے الگ کرکے گوشۂ عافیت تک محدود رہنے کو ہم کسی کی ذاتی پسند کا مظہر تو قرار دے سکتے ہیں‘ مثالی زندگی ہرگز نہیں۔ مثالی زندگی یہ ہے کہ انسان اچھے دوستوں کی صحبت اختیار کرے‘ مطالعے سے بھی دل بہلائے اور ضمیر بھی بیدار ہو تاکہ کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر الجھن محسوس ہو‘ اُس کی پریشانی دور کرنے کی تحریک ملے۔ یہی اصلِ حیات ہے۔