زندگی کا سب سے بڑا اظہار اور ثبوت ہے‘ بولنے کی صلاحیت اور رجحان۔ بولنے کو زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور خاموش رہنے کو جمود اور موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر اُس انسان کو بولنا پڑتا ہے‘ جسے اللہ نے بولنے کی صلاحیت بخشی ہے۔ بولے بغیر بات بنتی نہیں‘ کام چلتا نہیں۔ ہم جو کچھ بھی چاہتے ہیں‘ زبان سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ جب تک ہم اظہار نہ کریں‘ کوئی نہیں جان سکتا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔
کسی بھی بات کو بیان کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ہمیں موزوں ترین طریقہ اختیار کرنا ہوتا ہے‘ تاکہ ہماری بات محض بیان نہ ہو‘ بلکہ متعلقین کی سمجھ میں بھی آ جائے‘ جو ہماری بات سُنتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ ہم کہیں کوئی ابہام نہ رہنے دیں۔ جب تک ہم ابہام باقی رہنے دیں گے‘ لوگ ہماری بات سمجھ نہیں پائیں گے۔
اہلِ خانہ سے اہلِ محلہ تک اور دفتری ساتھیوں سے دوستوں تک ... ہم روزانہ بہت سے لوگوں س بات کرتے ہیں۔ عموماً ہم اُسی وقت کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتے ہیں جب کہنے کے لیے کچھ ہو یا کسی کو کسی بات کا جواب دینا ہو۔ کہنے کے لیے کچھ نہ ہو اور ہم بولنے پر بضد ہوں تو متعلقین کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم خواہ مخواہ باتوں کو الجھانا چاہتے ہیں یا پھر ہمارے ذہن میں کوئی خلل واقع ہوا ہے!
کسی سے بات کرنے اور کسی مجمع سے مخاطب ہونے میں بہت فرق ہے۔ گفتگو کا ہنر کچھ اور چیز ہے اور خطابت کا فن کوئی اور شے۔ ان دونوں کے تقاضے بھی الگ ہیں اور مقاصد بھی۔ گفتگو کا مطلب ہے کہ کسی سے بات کرنا‘ یعنی اپنی بات کہنا اور اُس کی بات سُننا۔ فریقِ ثانی کے سوالوں کے جواب دینا اور خود سوال کرنا بھی گفتگو کا جُز ہے۔ خطابت میں معاملہ کسی سے بات کرنے کا نہیں‘ بلکہ صرف اپنی بات کہنے کا ہے۔ جب کوئی شخص مجمع سے مخاطب ہوتا ہے تو وہاں موجود ہر شخص سے بات نہیں کر رہا ہوتا‘ بلکہ اپنی بات کہہ رہا ہوتا ہے۔ ہاں‘ مخاطب وہ سب سے ہو رہا ہوتا ہے۔ مجمع کو بات سُننا ہوتی ہے‘ کچھ کہنے کی خاص ضرورت نہیں ہوتی‘ اگر کوئی بات واقعی سمجھ میں نہ آئے اور توضیح ضروری محسوس ہو تو توضیح کا تقاضا کیا جاسکتا ہے۔
گفتگو اپنی بات کہنے اور دوسرے کی بات سُننے کا نام ہے‘ اس لیے گفتگو کے دوران کچھ پوچھنے یا وضاحت کرنے کی بھرپور گنجائش رہتی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس دنیا میں وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں‘ جو اپنی بات ڈھنگ سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ہر شعبے میں اچھا بولنے والوں کو پسند کیا جاتا ہے۔ ٹیچنگ‘ ایکٹنگ‘ اینکرینگ‘ سیلز اور دوسرے بہت سے شعبوں میں تو خیر سِکّہ ہی بولنے کا چلتا ہے۔ جسے جتنا زیادہ اور اچھا بولنا آتا ہے‘ وہ اُتنا ہی زیادہ کامیاب ہے۔
یہ تو ہوا بولنے کا معاملہ۔ کبھی آپ کو اس بات کا خیال آیا ہے کہ بولنا جس قدر ضروری اور اہم ہے سُننا بھی اُسی قدر ضروری اور اہم ہے؟ کوئی بھی انجن ڈھنگ سے اُسی وقت کام کرتا ہے‘ جب اُس میں تیل اور ایندھن بروقت ڈالا جائے۔ کوئی کنواں اپنی مکمل شکل میں موجود ہو تب بھی بغیر پانی کے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں ‘وہ دراصل حواس کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی معلومات ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی باتیں جب ہمارے ذہن تک پہنچتی ہیں ‘تو تفہیم کے بعد ہمیں سوچنے کی تحریک ملتی ہے۔
جو کچھ ذہن میں ہو‘ اُسے زبان تک لانا ہر طرح کی صورتِ حال میں ممکن یا آسان نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی انسان پر غیر معمولی دباؤ ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہے‘ آسانی سے نہیں کہہ پاتا۔ کبھی کبھی کچھ کہنا لازم ہوتا ہے۔ ایسے میں خاموش رہنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمت اس بات کا نام ہے کہ آپ اپنی نشست سے اٹھیں اور دل کی بات کہہ دیں۔ مشکل صورتِ حال میں جو اپنے ذہن میں ابھرنے والی ہر بات کو ڈھنگ سے اور بروقت بیان کرنے کے قابل ہو پاتا ہے‘ اُسے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بولنے کی ہمت رکھنے والے اپنے معاملات کو درست کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
سُننے کے معاملے میں بھی غیر معمولی ہمت درکار ہے۔ ہمیں ہر وہ بات بہت بُری لگتی ہے ‘جو ہمارے خیالات سے ذرا بھی متصادم ہو۔ کسی بھی معاملے میں اختلافِ رائے کی صورت میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مخالف رائے کو سُننا بھی لازم ہے‘ کیونکہ جب تک ہم فریقِ ثانی کی رائے نہ جانتے ہوں‘ اپنے موقف کو تبدیل اور مضبوط نہیں کرسکتے۔ اپنی نشست پر بیٹھ کر پورے تحمل سے کسی کی بات سُننا بھی خاصی ہمت کا طالب ہے۔ ہماری عمومی تربیت میں بولنے کی اہمیت زیادہ ہے۔ بچوں کا اعتماد اس بات سے جانچا جاتا ہے کہ وہ کتنا اور کیسا بولتے ہیں۔ بولنے کی صلاحیت‘ اُسی وقت پروان چڑھتی ہے ‘جب انسان سُننے کے ہنر سے بخوبی واقف ہو اور اس حوالے سے سٹیمنا بھی خاصا بلند ہو۔
قدرت کیا چاہتی ہے؟ ہم زیادہ بولیں یا زیادہ سُنیں؟ اپنے وجود کا جائزہ لیجیے۔ قدرت نے ایک زبان دی ہے اور دو کان۔ یہ اس بات کی طرف واضح ترین اشارہ ہے کہ ہمیں سُننا زیادہ ہے اور بولنا کم‘ یعنی جو کچھ بھی کہنا ہے وہ خوب سوچ سمجھ کر کہنا ہے ‘تاکہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ اچھا بولنے کی صلاحیت اُنہی لوگوں میں پنپتی ہے ‘جو بھرپور توجہ کے ساتھ زیادہ سُنتے ہیں اور جو کچھ سُنتے ہیں‘ اُس کا اچھی طرح تجزیہ کرکے اپنے موقف کا معیار بلند کرتے ہیں۔
کسی بھی شعبے میں قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے معمولات پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کچھ بھی کرنے سے قبل بہت غور کرتے ہیں۔ غور کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول لازم ہے۔ تمام متعلقہ معلومات کا حصول پڑھنے کے علاوہ سُننے سے بھی ممکن ہے۔ جو لوگ سُننے پر مائل رہتے ہیں‘ وہ بہت سی ایسی باتیں بھی جان لیتے ہیں ‘جن کی مدد سے اُن کا موقف مضبوط ہو جاتا ہے اور وہ اپنی بات منوانے میں زیادہ آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔
سُننے سے زیادہ بولنا ہر انسان کے لیے فطری ہے۔ قدرت نے ہمیں بہت سے ایسے فطری رجحانات سے نوازا ہے ‘جن پر قابو پانا ہماری ذمہ داری ہے۔ بولنے کے معاملے میں محتاط رہنا ہمارے لیے لازم ہے۔ دوسروں کو زیادہ سُننے کی صورت میں ہم اچھی طرح تعین کر پاتے ہیں کہ ہمیں کب‘ کیا اور کتنا بولنا ہے۔ خاصے کم لوگ اس حوالے سے خود کو اچھی طرح تیار کر پاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں گھر سے تعلیمی ادارے تک ہر مقام پر سُننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ دوسروں کو سُننے کے بعد ہی ہم ڈھنگ سے بول پائیں گے۔ غیر مہذب اور پس ماندہ معاشروں کا حال بُرا ہے۔ پاکستان اِس کی ایک واضح مثال ہے ‘جہاں لوگ جتنا سُنتے ہیں‘ اُس سے چار گنا بولنا چاہتے ہیں اور بولتے ہی ہیں! یہ رجحان ترک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بہت زیادہ بولنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ غیر متعلق امور میں الجھ کر معقولیت اور عمل کی منزل سے دُور ہوگئے ہیں۔