ہم جو کچھ بھی ہیں ذہن کے دم سے ہیں۔ ذہن اگر توانا اور فعال ہو تو زندگی اُتنی ہی آسانی سے گزرتی ہے جتنی آسانی سے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں کشتی سفر کرتی ہے اور اگر ذہن بجھا ہوا یا الجھا ہوا ہو تو اچھی خاصی جیتی ہوئی بازی بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔
حواسِ خمسہ ہمیں ماحول کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ ہم دیکھنے‘ سُننے‘ سونگھنے‘ چُھونے اور چکھنے کی صلاحیت سے ماحول کو جان پاتے ہیں۔ ان پانچ حواس کی مدد سے ماحول کو جاننے کے بعد ہی ہم کسی بھی حوالے سے کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ ذہن کا بنیادی کام حواسِ خمسہ کی مدد سے ملنے والی معلومات کا تجزیہ کرکے منطقی طور پر درست قرار پانے والی رائے قائم کرنا ہے۔ اس رائے کی بنیاد پر ہم اپنے لیے کوئی راستہ منتخب کر پاتے ہیں۔
ذہن کی وسعت کا اندازہ لگانا اب تک فطری علوم و فنون کے ماہرین کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا۔ جدید ترین اور انتہائی غیر معمولی آلات کی مدد سے بھی ہم اب تک یہ نہیں جان پائے کہ ذہن کہاں تک اور کتنا کام کرسکتا ہے۔ ذہن کی نوعیت اور وسعت کو سمجھنے کی کوششیں ڈھائی تین صدیوں کے دوران جاری رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نفسی علوم کے ماہرین کو اچھی خاصی تحقیق کے بعد بھی ذہن کو پوری طرح سمجھنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔
ماحول میں ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے‘ وہ سب کا سب اِس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کا تجزیہ کرنے بیٹھ جائیے۔ تمام اشیاء‘ افراد یا معاملات پر غیر معمولی توجہ دینا کبھی لازم نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ ماحول میں پائی جانے والی تمام معلومات اہم نہیں گردانی جاتیں۔ اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر ہمیں طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے‘ جس پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی جائے۔ ذہن کی توانائی کا بڑا حصہ اُن معاملات پر صرف کیا جانا چاہیے‘ جو ہمارے لیے بہت اہم ہوں۔ ذہنی توانائی کو بروئے کار لانے کے معاملے میں بھی ہمیں وہی سوچ اپنانی چاہیے ‘جو دولت خرچ کرنے کے حوالے سے اپنائی جاتی ہے۔
متوازن اور معیاری زندگی بسر کرنے کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ ذہن صرف فعال نہیں ‘بلکہ متوازن بھی ہو۔ ذہن کا متوازن ہونا اِس لیے لازم ہے کہ ایسی حالت ہی میں معیاری فیصلے ممکن ہو پاتے ہیں۔ کسی بھی رائے کو منطقی طور پر درست اُسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے ‘جب وہ متعلقہ زمینی حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہو۔
ذہن اپنے طور پر کام کرتا ہے‘ مگر ہم اپنی خواہش یا ارادے کے تحت اُسے کسی غلط سمت جانے سے روک سکتے ہیں اور کسی تعمیری سرگرمی کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی تحریک دے سکتے ہیں۔
سوچنے کا عمل اگر عدمِ توجہ یا لاپروائی کے تحت جاری رہے تو مطلوب نتائج پیدا نہیں کرتا۔ زندگی کو متوازن اور معیاری اُسی وقت بنایا جاسکتا ہے جب ذہن متوازن ہو۔ ذہن کے متوازن ہونے سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں ذہن کے اندر پنپنے والی سوچ حقیقت پسندی کی آئینہ دار ہو۔ حقیقت پسندی ہی ذہن کو غیر ضروری خیالات کے پروان چڑھانے سے روکتی ہے۔
ذہن کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے اور بلند رکھنے کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر جانب دار رہتے ہوئے کام کرے۔ زندگی کا ہر معاملہ ہم سے متوازن سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔ ذہن کی معقول حد تک تربیت نہ کی گئی ہو تو اُس کی کارکردگی بگڑتی چلی جاتی ہے۔ ذہن کا بگڑنا اس لیے خطرناک ہوتا ہے کہ انسان اُسی کے بل پر تو جیتا ہے۔ عمومی تصور یہ ہے کہ ذہن کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے‘ کیونکہ وہ اپنے طور پر کام کرتا ہے اور کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہن کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے تربیت لازم ہے۔ ذہن کو اولیت دینے والے اِس کی بھرپور تربیت کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ تربیت یافتہ نہ ہونے کی صورت میں ذہن کسی بھی سمت جاسکتا ہے اور کچھ بھی سوچ سکتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ‘وہ ذہن پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ حواسِ خمسہ کے ذریعے ہم تک جو معلومات پہنچتی ہیں‘ اُن کا کماحقہ تجزیہ کرنے کی صورت ہی میں ذہن متوازن رہ پاتا ہے اور وہ سب کچھ سوچتا ہے‘ جس کا سوچا جانا لازم ہو۔ دنیا میں جتنے بھی اچھے ہوئے کام ہوئے ہیں‘ اُن کے کرنے والوں نے غیر معمولی ذہنی تربیت پانے کے بعد ہی کچھ سوچا اور اُس پر عمل کیا۔ ذہن کی خاطر خواہ تربیت کا اہتمام کرنے کی صورت ہی میں ہم متوازن انداز سے سوچنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
ذہن کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے سنجیدگی بنیادی شرط ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہن ہر وقت کام کر رہا ہوتا ہے۔ اسے ماحول سے بہت کچھ ملتا ہے اور اسے بھی ماحول کو کچھ نہ کچھ دینا ہوتا ہے۔ جو کچھ ماحول سے ملتا ہے ‘اُسے ذہن جوں کا توں قبول کرتا ہے۔ اس حوالے سے اُسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ ہاں‘ جو کچھ ماحول نے دیا ہو‘ اُس کی بنیاد پر معیاری سوچ کا پروان چڑھانا آسان نہیں۔ ذہن کو بے لگام چھوڑنا بیشتر معاملات میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ذہن کو درست سمت میں گامزن رکھنے پر توجہ نہ دینے والے بالآخر پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے‘ وہ ذہن کا ایسا حصہ بن جاتا ہے‘ جسے حذف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر انسان ماحول میں غیر معمولی دلچسپی لے تو ذہن میں ایسا بہت کچھ داخل ہو جاتا ہے‘ جو بظاہر بے مصرف ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ذہن معیاری انداز سے سوچنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ ذہن کی کارکردگی اُسی وقت بہتر ہو پاتی ہے‘ جب وہ غیر ضروری معاملات میں الجھا نہ رہے اور اُسے کسی جواز کے بغیر بہت سوچنا نہ پڑے۔
ذہن کو بہتر انداز سے سوچنے کے قابل بنانے کے لیے اُس میں سے غیر ضروری باتوں کو نکالنا لازم ہے۔ ذہن سے نکالا کچھ بھی نہیں جاسکتا۔ ہاں‘ اہم امور پر زیادہ توجہ مرکوز کرکے غیر اہم معاملات کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر ضرور مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ خالص شعوری عمل ہے ‘یعنی انسان چاہے تو مشق کے ذریعے ذہن میں موجود تمام غیر ضروری باتوں کو ایک طرف ہٹا سکتا ہے‘ تاکہ کام کی باتوں کے پنپنے کی زیادہ گنجائش پیدا ہو۔
ذرا سی توجہ سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ آزاد چھوڑ دیئے جانے کی صورت میں ذہن ایسے راستوں پر چل پڑتا ہے‘ جو ہمیں ہماری منزل سے دور لے جاتے ہیں۔ ذہن کا کسی بھی طرف غیر ضروری جھکاؤ خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ عادات کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم چند عادات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو زندگی غیر متوازن ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں اچھی عادت بھی ہمارے لیے پیچیدگیاں پیدا کرنے لگتی ہے۔ ذہن کے متوازن رہنے سے زندگی کو درکار توازن ملتا ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی معاملہ نہ تو ایسا روشن ہو پاتا ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جائیں اور نہ اتنا تاریک کہ کچھ دکھائی ہی نہ دے۔ ڈھنگ سے جینے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ ذہن کو غیر جانب دار اور متوازن رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔