راتوں رات کوئی بڑی تبدیلی واقع ہو تو ذہن اُلجھ جاتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ذہن کا اُلجھنا کچھ ایسا غیر فطری بھی نہیں کہ انسان پریشان ہو اور اس کا سبب سوچے۔ آنکھیں ایک مدت سے جو کچھ دیکھ رہی ہوں وہ اچانک منظر سے غائب ہو جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کے دامن سے بہت کچھ گرگیا ہے۔ وجود میں خالی پن سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ گھر یا گلی میں لگا ہوا درخت کاٹ دیا جائے تو آنکھیں کئی دن تک ویرانی سی محسوس کرتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت آج کل کراچی کے لاکھوں باشندوں کی ہے۔ ایک زمانے سے جو رونق لگی ہوئی تھی وہ اچانک ختم کردی گئی ہے۔ شہرِ قائد کی حالت ایک زمانے سے ایسی ہے کہ اِسے ''کیبن ستان‘‘ کہنا زیادہ موزوں ہوگا! جسے جہاں بھی ذرا سی جگہ ملتی ہے‘ کیبن لگاکر دھندا شروع کردیتا ہے۔ اب سپریم کورٹ کے حکم پر انتظامیہ نے کیبن‘ ٹھیلے اور ٹِھیے ہٹانے کا عمل شروع کیا ہے تو شہر کی عجیب ہی حالت ہوگئی ہے۔ بعض علاقوں کا حال تو ایسا ہے جیسے کسی نے خاصے گھنے بالوں والے سر پر اُسترا پھیر دیا ہو!
اہلِ کراچی بہت سی باتوں کے اس بری طرح عادی ہوگئے ہیں کہ اب اگر وہ باتیں ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو جان جانے لگتی ہے۔ ایک مدت سے شہریوں کو پینے کا صاف پانی آسانی سے اور کافی مقدار میں میسر نہیں۔ ایسے میں اگر کبھی پانی آسانی سے میسر ہو اور صاف بھی ہو تو دل و دماغ میں ہلچل سی مچ جاتی ہے‘ شکر ادا کرنے کے بجائے اُلجھن سی محسوس ہونے لگتی ہے! تجاوزات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایک دور تھا کہ کراچی اپنی اصل حالت میں تھا۔ یہ دور زیادہ طویل نہیں تھا۔ موقع ملتے ہی اور شہ پاتے ہی یاروں نے شہر کی وسعت کو تنگ دامنی میں تبدیل کرنے کی ایسی ٹھانی کہ جب عمل کرنے پر آجائے تو شہرِ قائد سکڑتے ہوئے اپنے اصل خدوخال بھی بھولتا چلا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ اگر کبھی کوئی ادارہ باضابطہ قانونی کارروائی کرتے ہوئے شہر کو اصل حالت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے تو لوگ حواس باختہ ہو جاتے ہیں‘ حیرت زدہ سے رہ جاتے ہیں۔ شہرِ قائد جب جب اور جہاں جہاں اپنی اصل حالت میں دکھائی دیتا ہے تب اہلِ شہر پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بہت سوں کو تو وہی علاقے اجنبی سے دکھائی دینے لگتے ہیں جہاں وہ بڑے ہوئے ہیں!
شہر کے قلب میں واقع ایمپریس مارکیٹ کے گرد تجاوزات اس قدر تھیں کہ جب ان تجاوزات کو ٹھکانے لگاکر ایمپریس مارکیٹ اصل شکل میں بحال کی گئی تو لوگ علاقے کی وسعت دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ کچھ دن تک تو یقین ہی نہیں آیا کہ تجاوزات کے ذریعے اتنا وسیع رقبہ گھیر لیا گیا تھا۔ خیر‘ اب معاملہ یہ ہے کہ جو لوگ صدر کے علاقے سے گزرتے ہیں وہ ایمپریس مارکیٹ کو تنہا تنہا پاتے ہیں! ایمپریس مارکیٹ کے گرد تمام تجاوزات ختم کردیئے جانے سے علاقہ ایسی وسعت اختیار کرگیا ہے کہ شاید یہ مارکیٹ خود بھی دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتی ہوگی! شہر کے بہت سے علاقوں کی ساری رونق تجاوزات کے دم سے تھی اور ہے۔ تجاوزات ختم کردیئے جانے سے بہت سے علاقوں کی عجیب ہی ہیئت ہوگئی ہے۔ نہ وہ کیبن ہیں نہ وہ ٹھیلے۔ بہت سے علاقوں کی رونق بڑھانے میں پتھاروں کا کردار بہت اہم تھا۔ اب وہ پتھارے بھی مفقود ہوئے۔ نظر میں وحشت سی بھرگئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بندہ وہ رونقیں اب کہاں سے لائے؟ شمالی کراچی ہو یا لیاقت آباد‘ کورنگی ہو یا لانڈھی‘ حسین آباد ہو یا رنچھوڑ لین ... جتنی بھی رونق تھی تجاوزات یعنی کیبنز‘ ٹھیلوں اور پتھاروں کے دم سے تھی۔ بعض مقامات پر تو متعلقہ عملے نے ایسی جھاڑو پھیری ہے کہ ؎
نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دل کو سمجھائیں
تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں
والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بہت سوں کو تو عادت ہی کیبن یا پتھارے سے خریداری کی تھی۔ وہ مطلوب اشیا خریدنے کے لیے جب گھر سے نکلتے ہیں تو متعلقہ مقام پر سناٹے کا راج ملتا ہے۔ کسی سے پوچھیے کہ یہاں جو لوگ رونق میلہ لگایا کرتے تھے وہ کیا ہوئے تو جواب ملتا ہے ع
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
سب سے بڑا ''ظلم‘‘ یہ ہوا ہے کہ ہوٹلوں کے باہر کھلی جگہ پر کرسیاں لگاکر رات رات بھر گپیں ہانکنے والوں کے دل و دماغ کا بھٹّہ بیٹھ گیا ہے۔ اہلِ کراچی کی اکثریت کو رات بھر جاگنے کی عادت ایسی پڑی ہے کہ چُھٹائے نہیں چُھٹتی۔ انتظامیہ نے پولیس کی مدد سے ہوٹلوں کے باہر کرسیاں لگانے پر سخت نوعیت کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ایسے میں وہ سب کے سب پریشان ہیں جو رات بھر گھر سے باہر رہتے آئے ہیں۔ اب اُن کی حالت دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔ شب بسری کے لیے ''باعزت‘‘ ٹھکانوں کی تلاش میں وہ بولائے بولائے پھرتے ہیں۔ ؎
نظر میں اُلجھنیں‘ دل میں ہے عالم بے قراری کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سکوں پانے کہاں جائیں
کراچی کی شناخت کا درجہ رکھنے والی وہ رات کی محفلیں ایسی اُجڑی ہیں کہ اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ''رات کے راہی‘‘ ایسے پریشان ہیں کہ اُن کی بدحواسی دیکھی نہیں جاتی۔ انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر جو کچھ کیا ہے وہ شہر کی بہتری کے لیے کیا ہوگا‘ مگر ہم تو کچھ اور ہی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کیبن اور پتھارے لگے ہوئے تھے تو سڑکیں کنٹرول میں تھیں۔ تب لوگوں کو موٹر سائیکلیں اور کاریں وغیرہ سنبھل سنبھل کر چلانا پڑتی تھیں۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں سڑکیں ایسی چوڑی ہوئی ہیں کہ لوگ موٹر سائیکلوں پر اور کاروں میں دندناتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں حادثات کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ اہلِ کراچی اب سڑکوں کو اُن کی اصل حالت میں استعمال کرنے کے عادی نہیں رہے۔ اس کیلئے پہلے اُن کی تربیت کا اہتمام کیا جانا چاہیے!
کچھ ایسا ہی معاملہ کیبن‘ پتھاروں اور ٹھیلوں کا بھی ہے۔ لوگ گھر سے نکلتے ہی کسی نہ کسی ٹھیلے یا کیبن سے خریداری کے عادی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں دکانوں تک جانے کا عادی بنانا آسان کام نہیں۔ شاپنگ مالز کھول دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ لوگ یومیہ بنیاد پر خریداری کے عادی ہیں۔ لوگ گھر سے نکلتے ہی جن کیبنز یا ٹھیلوں پر پہنچا کرتے تھے اُنہیں نہ پاکر وہ شدید بدحواسی محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے کئی احباب کو اس بدلی ہوئی صورتحال میں انتہائی پریشانی سے دوچار پایا ہے۔ رات گئے تک جاگنے کی عادت ہے کہ ع
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ گٹکے کے خلاف ایکشن ہوا تو لوگوں نے جیسے تیسے گزارا کرلیا۔ گٹکا کہیں نہ کہیں سے حاصل کر ہی لیا جاتا ہے۔ مگر شب بسری کے لیے کھلے مقامات پر کرسیاں کیسے لگائی جائیں؟ جب سے انتظامیہ متحرک ہوئی ہے تب سے شام کے بعد ہر طرف سناٹے اور ویرانی کا راج ہے۔ شہر کی ساری رونق ہی بے دم ہوکر رہ گئی ہے۔ لگتا ہے کہ شہر کی واحد نمایاں ''شناخت‘‘ کو بھی ختم کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ شہر کی تطہیر تو ہم بھی چاہتے ہیں‘ مگر صاحب! ایسی بھی کیا تطہیر کہ شہر کی رونقیں ہی داؤ پر لگ جائیں! انتظامیہ یہ تو سوچے کہ ''گھر بیزار‘‘ رات کے راہی کہاں جائیں گے!