"MIK" (space) message & send to 7575

محض صلاحیت کافی نہیں

دنیا کی جتنی بھی رونق ہے‘ صلاحیتوں کے دم سے ہے۔ قدرت کے طے کردہ نظام کے تحت دنیا کے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ صلاحیت جب بروئے کار لائی جاتی ہے‘ تب دنیا کی رونق بڑھتی ہے اور صلاحیتوں ہی کے دم سے دنیا کی رونق برقرار رکھنا بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ 
ہر دور میں سوچنے والوں نے انسان کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک دینے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ کام کرنے کی تحریک دینا بنیادی طور پر صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا رجحان پیدا کرنا ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی شعبے کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ تھوڑی توجہ اور محنت سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ 
کسی بھی صلاحیت کا پایا جانا بہت بڑی بات نہیں۔ بڑی بات ہے‘ اُس صلاحیت کو پروان چڑھاکر بروئے کار لانا۔ بہت سے لوگ اپنی صلاحیت کو شناخت کرنے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں‘ مگر اس مرحلے ہی میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی صلاحیت کا پایا جانا کسی بھی اعتبار سے کافی نہیں۔ دنیا میں کوئی بھی فرق اُس وقت رونما ہوتا ہے‘ جب صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے‘ اگر کوئی شخص کسی شعبے کے حوالے سے محض صلاحیت کا نہیں‘ بلکہ مہارت کا بھی حامل ہو‘ تب بھی دنیا کی نظر میں اُس کی کچھ اہمیت نہیں‘ اگر وہ کچھ نہ کرتا ہو۔ جب وہ کچھ کرے گا تب ہی دنیا کو اُس کی صلاحیت کا علم ہوگا اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے کوئی نتیجہ برآمد ہوگا۔ 
ایڈگر ڈبلیو ورک کہتے ہیں کہ انسان کا اصل المیہ یہ نہیں کہ وہ ایک صلاحیت تک محدود ہو‘ بلکہ یہ ہے کہ وہ اُس ایک صلاحیت کو بھی ڈھنگ سے بروئے کار نہ لاسکتا ہو۔ یہ انفرادی نہیں ‘بلکہ اجتماعی المیہ ہے۔ لوگ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پاتے۔ ہر انسان کسی ایک شعبے کے حوالے سے پائی جانے والی اپنی صلاحیت کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہو تو یہ بھی کافی ہے کہ اس سے دنیا کا معیار بلند کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ 
کسی بھی شعبے کے حوالے سے بنیادی صلاحیت کا پنپنا بالعموم اُس وقت ممکن ہوتا ہے‘ جب انسان سکون کی حالت میں ہو اور اپنے وجود پر غیر معمولی اعتماد کا حامل بھی ہو۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد کی طرزِ زندگی پر طائرانہ سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی صلاحیت اُسی وقت کِھل سکی‘ پروان چڑھ پائی‘ جب اُنہوں نے دنیا کے بکھیڑے سے خود کو الگ کیا اور اپنے وجود پر متوجہ ہوئے۔ 
جن میں صلاحیت ہوتی ہے‘ اُن پر دنیا کی نظر ہوتی ہے۔ ہر باصلاحیت انسان سے بہت سی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ صلاحیت کو بروئے کار لانا اُس وقت واقعی ایک بڑا امتحان ثابت ہوتا ہے‘ جب بہت سے لوگ متوجہ ہوں۔ جن میں غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے‘ اُن سے زیادہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ موقع آنے پر ایسے لوگوں کو بہت کچھ کر دکھانا ہوتا ہے۔ ولیم ہیزلِٹ نے درست ہی تو کہا ہے کہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل دراصل مواقع کے لوگ ہوتے ہیں ‘یعنی جب کوئی بڑا موقع آتا ہے ‘تو اُن سے توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ 
ایسا کیوں ہے کہ کسی بھی حوالے سے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں؟ بات کچھ یوں ہے کہ صلاحیت ہر انسان میں پائی جاتی ہے ‘مگر اُسے بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو کچھ دینے کیلئے جو جرأت درکار ہوا کرتی ہے‘ وہ سب میں نہیں پائی جاتی۔ انسان جب اپنی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے‘ تب اُسے عملی سطح پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بعض ناموافق حالات کا سامنا بھی ہوتا ہے‘ جن میں مستقل مزاجی نہ ہو‘ وہ کسی بھی ناپسندیدہ صورتِ حال کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ بس ‘یہی ایک حقیقت اُنہیں دوسروں سے ممتاز بننے سے روکتی ہے۔ صلاحیت کو بروئے کار لانے کے عمل میں کبھی کبھی کسی ناپسندیدہ صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بددل اور بدگمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ 
دنیا کا ہر وہ انسان قابلِ رحم ہے‘ جو صلاحیت تو رکھتا ہے‘ مگر اُسے پہچانتا ہے نہ بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی دنیا کا بھی ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بیشتر افراد اپنی اصل صلاحیت ‘یعنی رجحان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کسی نہ کسی طور ایسا کر بھی لیں تو اُسے بروئے کار لانے کے حوالے سے مطلوب سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ اہلِ علم و فن کہتے ہیں کہ صلاحیت کو نہ پہچاننا یا بروئے کار نہ لانا انتہائے بدنصیبی ہے۔ کوئی بھی صلاحیت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ اُسے دنیا کے سامنے لایا جائے یعنی بروئے کار لاکر خاطر خواہ نتائج پیدا کیے جائیں۔ قدرت ہمیں کسی بھی صلاحیت سے صرف اس لیے نوازتی ہے کہ ہم اُسے اندھیرے میں نہ رکھیں‘ بلکہ روشنی میں لائیں‘ یعنی دنیا کو اُس سے آگاہ کریں۔ اگر کسی صلاحیت کو بروئے کار نہ لایا جائے تو پھر اس حقیقت سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی میں وہ صلاحیت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ 
اگر ہم اپنے معاشرے کے حوالے سے بنیادی یا پیدائشی صلاحیت کا جائزہ لیں تو یہ دیکھ کر محض حیرت ہوگی کہ کم و بیش ہر شعبے میں انتہائی باصلاحیت افراد کی کمی کبھی پہلے تھی نہ اب ہے۔ پاکستان کی نئی نسل مختلف شعبوں میں انتہائی پُرکشش صلاحیت کی حامل رہی ہے‘ مگر قوم کو کچھ زیادہ اِس لیے نہ مل سکا کہ صلاحیت کو بروئے کار لانے کے حوالے سے سوچا ہی نہیں گیا۔ کھیلوں کی مثال سب سے نمایاں ہے۔ کرکٹ‘ ہاکی اور اسکواش میں ہمارے ہاں باصلاحیت نوجوانوں کی بھرمار رہی ہے۔ ہم نے کیا کیا؟ ہاکی کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ سکواش میں بھی معاملات ڈانواڈول ہیں۔ کچھ یہی حال اب کرکٹ کا بھی ہوچلا ہے۔ باصلاحیت نوجوان تو ابھر رہے ہیں‘ مگر اُن کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور بہتر معاوضوں کے ذریعے تحریک دینے کا نظام اب تک قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ سبب چاہے کچھ ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی کھیل میں باصلاحیت افراد سے مستفید ہونے کا سیٹ اپ موجود نہیں۔ ایسے میں ہمارا پیچھے رہ جانا حیرت انگیز نہیں۔ 
علوم و فنون کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جامعات میں تحقیق کے شعبے ڈھنگ سے کام نہیں کر رہے۔ نئی نسل میں علم و فن کے حوالے سے بھی بہت کچھ کر دکھانے کی صلاحیت اور لگن پائی جاتی ہے‘ مگر اس حوالے سے درکار نظام پایا ہی نہیں جاتا۔ نپولین بونا پارٹ کی بات بالکل درست ہے کہ کوئی بھی قابلیت موزوں مواقع کے بغیر زیادہ اہم نہیں۔ صلاحیت پائی جاتی ہو‘ مگر اُسے بروئے کار لانے کا نظام ہی تیار نہ کیا گیا ہو تو کوئی کیا کرے؟ ایسے میں صرف کفِ افسوس ملنے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ 
انفرادی سطح پر بھی یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی صلاحیت اُسی وقت ہماری زندگی میں کچھ معنویت پیدا کرسکتی ہے ‘جب ہم اُسے بروئے کار لائیں۔ دنیا میں کہیں بھی صلاحیتوں کی کچھ کمی نہیں۔ سوال صرف اُنہیں بروئے کار لاکر خاطر خواہ نتائج یقینی بنانے کا ہے۔ اس حوالے سے خود کو تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ہر شعبے میں باصلاحیت نوجوان آرہے ہیں‘ مگر اُن سے کام نہیں لیا جارہا۔ یہ المیہ اُسی وقت ختم ہوسکتا ہے ‘جب ہم صلاحیت کے محض وجود کو کافی نہ سمجھیں ‘بلکہ ایک قدم آگے جاکر اُس سے مستفید ہونا بھی سیکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں