"MIK" (space) message & send to 7575

سوچتے رہنے کا وقت گیا

بہت کچھ ہے جو ہمیں میسر نہ تھا مگر اب میسر ہے۔ اور دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو بہت تھا مگر اب بہت کم رہ گیا ہے۔ وقت کا بھی تو ایسا ہی معاملہ ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو روزانہ چوبیس گھنٹے عنایت کیے جاتے ہیں۔ ان چوبیس گھنٹوں کا کیا کرنا ہے یہ قدرت طے نہیں کرتی۔ یہ ہماری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ قدرت کے عظیم ترین عطیے کو ہم چاہیں تو خاک میں ملادیں یا پھر اس طور بروئے کار لائیں کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ 
دنیا ایک سی نہیں رہتی۔ کل کی دنیا میں ایسا بہت کچھ تھا جو آج کی دنیا میں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ آج کی دنیا میں ہمیں ایسی بہت سی سہولتیں میسر ہیں جن کا کل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آج ہمیں ایسی بہت سی سہولتیں میسر ہیں جن کا کل کی دنیا میں شہنشاہوں نے بھی خواب تک نہ دیکھا تھا۔ ہزار سال پہلے کے شہنشاہ جن سہولتوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ آج جھونپڑی میں رہنے والوں کو بھی میسر ہیں۔ 
ہاں‘ ایک معاملہ ایسا ہے جو کل کے انسان کے لیے پریشانی اور اُلجھن کا باعث نہ تھا۔ جی ہاں‘ وقت کا معاملہ۔ آج کا انسان اس حوالے سے خطرناک حد تک الجھا ہوا ہے۔ بہت سوچنے اور کوشش کرنے پر بھی وہ وقت کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ آج کی دنیا کچھ اس نوعیت کی ہے کہ وقت ہوتے ہوئے بھی انسان کے بس میں تو خیر کیا ہوگا‘ اُس کے ہاتھ میں بھی نہیں۔ آج کے انسان کو ایسے بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن کا کل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایک یا ڈیڑھ صدی پہلے کے انسان کی زندگی میں بھی فرصت اتنی تھی کہ زندگی کے بیشتر معاملات پر غور و فکر کرنے اور پھر سوچے ہوئے کے مطابق اعمال کی تطبیق یقینی بنانے کی خاطر خواہ گنجائش موجود تھی۔ آج ایسا کچھ بھی نہیں۔ حواس پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے معاملات کو الجھا دیا ہے۔ انتخاب کا مرحلہ ہر دور کے انسان کو درپیش رہا ہے۔ چار پانچ سو سال پہلے کے انسان کو بھی وقت کے درست استعمال کے حوالے سے انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ اُس دور کے لکھنے والوں نے بھی وقت کی اہمیت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ روئے ارض پر اگر انسان کے لیے حقیقی دولت کوئی ہے تو وہ صرف وقت ہے۔ یہ اُس دور کا معاملہ ہے جب زندگی میں برائے نام بھی ہماہمی نہیں تھی۔ انسان کے حواس پر تب اعصاب شکن نوعیت کا دباؤ مرتب نہیں ہوا تھا۔ زندگی کی رفتار اِتنی معقول یعنی کم تھی کہ کسی بھی انسان کو ڈھنگ سے جینے میں غیر معمولی الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اخلاقی حالت بھی بہت حد تک قابلِ قبول تھی۔ لوگ تھوڑے میں گزارا کرلیا کرتے تھے۔ بہت کچھ پانے کی تمنا دل میں ہر وقت انگڑائیاں نہیں لیتی رہتی تھی۔ آج کا انسان الجھنوں کے گڑھے میں گرا ہوا ہے۔ بعض معاملات تو ایسے عجیب ہیں کہ سوچ سوچ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی۔ اب یہی دیکھیے کہ جس کا گزارا نہیں ہو پارہا وہ بھی پریشان ہے اور جس کے پاس آنے والی سات نسلوں کے لیے کافی ہو وہ بھی الجھا ہوا ہے! یومیہ بنیاد پر کمانے والے حالات کو روتے پائے جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے‘ مگر رونا تو اُن لوگوں کا بھی ہے جو ہزار گز کے بنگلے میں دس دس نوکروں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ کھلا تضاد بیسویں صدی کے بعد اکیسویں صدی کی بھی سب سے نمایاں خصوصیت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں جو اس مخمصے سے مکمل طور پر بچ رہنے میں کامیاب ہوسکا ہو۔ ع
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں 
دیکھتے ہی دیکھتے اتنی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ انسان محض دیکھتا رہ جاتا ہے‘ کچھ کر نہیں پاتا۔ کچھ کرنے کا ذہن بناتا ہے تو معاملات پھر بہت آگے جاچکے ہوتے ہیں۔ یعنی ع
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا 
والی کیفیت پیدا ہو رہتی ہے۔ وقت کا معاملہ ایسا عجیب ہوگیا ہے کہ انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوئی ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے مگر ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر کسی نہ کسی طور ہم سمجھ بھی لیں تو مشکل سے سمجھ میں آتا ہے کہ جواب کیا دیا جائے‘ عملی سطح پر ایسا کیا کیا جائے جو معاملات کو ہمارے لیے سہل بنائے۔ قدرت نے ہمیں ایک ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہمارے لیے سوچنے کی گنجائش کم رہ گئی ہے۔ زندگی کا کم و بیش ہر معاملہ دو واضح الجھنوں سے دوچار ہے ۔وقت کی شدید کمی کا احساس اور انتخاب کا پریشان کن مرحلہ۔ آج بھی ہر انسان کو روزانہ چوبیس گھنٹے ملتے ہیں مگر ان چوبیس گھنٹوں سے کس طور استفادہ کرنا ہے یہ طے کرنا ایک جاں گُسل مرحلہ ہے۔ 
آج کی دنیا میں انتہائی تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلیاں ہمیں بھی بہت تیزی سے تبدیل ہونے کی تحریک دیتی ہیں۔ ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ یہ سب کچھ تو رہے گا۔ فطری علوم و فنون میں رونما ہونے والی فقید المثال ترقی اور پیش رفت نے انسان کو بہت حد تک حواس باختہ کردیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے بس میں ہے مگر دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جس پر ہمارا برائے نام بھی اختیار نہیں۔ ماحول کی تبدیلی نے فکری ساخت پر اثر انداز ہوتے ہوئے بنیادی رویوں اور اخلاقی ڈھانچے کو خطرناک‘ بلکہ تباہ کن حد تک بدل ڈالا ہے۔ ماحول کی برکت سے وقت کے برق رفتاری سے اڑتے چلے جانے کا احساس انسانی ذہن پر یوں اثر انداز ہوا ہے کہ بہت سے اخلاقی محاسن محض خواب و خیال ہوکر رہ گئے ہیں۔ قوتِ برداشت میں رونما ہونے والی کمی ہی کو لیجیے۔ کل کا انسان انتہائی پیچیدہ معاملات میں بھی خاموشی اختیار کرکے درستی کی راہ ہموار کرلیا کرتا تھا۔ آج کا انسان ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے‘ بپھر جاتا ہے۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ یومیہ بنیاد پر بھڑکیلے مزاج کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی الجھن کا سامان کرتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑی اُلجھن یہ ہے کہ اپنی فکری ساخت کو درست کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ 
سوچنے کا وقت گزر چکا ہے۔ یہاں سوچنے سے مراد مخمصے میں مبتلا رہنا ہے۔ انسان کو بیشتر فیصلے تیزی سے کرنے ہیں تاکہ عمل بھی بروقت ہو۔ وقت اگرچہ کم رہ گیا ہے مگر اپنی اصلاح پر متوجہ ہونے کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوچتے رہنے کا وقت گیا یعنی اب متذبذب رہنے کی گنجائش برائے نام ہے۔ حالات ہمارے سامنے جو کچھ بھی لاتے ہیں اُس کے مطابق سوچنا بھی تیزی سے ہے اور عمل میں بھی پُھرتی دکھانی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم تیزی سے سوچنے اور لائحۂ عمل تیار کرنے کی عادت اپنائیں۔ اور عادت کیا‘ یہ تو فی زمانہ ڈھنگ سے جینے کے لیے درکار سب سے بڑی مہارت ہے۔ آج کے انسان کو قدرت نے وقت کے معاملے میں شدید عذاب کی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کرنے والوں ہی کو قدرت کچھ دیتی ہے۔ جو تذبذب کا شکار رہتے ہوئے وقت ضائع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اُن کے لیے ڈھنگ سے جینے اور بیشتر معاملات میں پنپنے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ تیزی سے سوچنے کی مہارت کو اپنائے بغیر ہم معیاری انداز سے جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ مہارت نہ ہو تو ہم پیچھے نہیں رہ جائیں گے ‘بلکہ یوں گریں گے کہ اٹھنے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں