"MIK" (space) message & send to 7575

کسی کی بس نہیں چلتی، کسی کا بس نہیں چلتا!

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پورٹل پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا‘ جو کچھ یوں تھا کہ ایک بس شہر کے مصروف علاقے سے گزر رہی ہے۔ بس کی چھت پر بہت سے نوجوان سوار ہیں۔ چند منچلے بس کے ماتھے کا جُھومر بنے ہوئے تھے۔ اچانک ایک موٹر سائیکل پر دو منچلے بس کے آگے سے گزرے۔ اُن سے موٹر سائیکل سنبھل نہ سکی اور بس کے عین سامنے آکر گر پڑے۔ بس ڈرائیور نے کمال حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بریک لگایا اور موٹر سائیکل سواروں کو یقینی موت سے بچالیا۔ یہ تو ٹھیک ہے‘ مگر اچانک بریک لگائے جانے سے بس کی چھت پر سامنے بیٹھے ہوئے آٹھ دس منچلے دھڑام سے نیچے آ گرے۔ خیر گزری کہ بس کی رفتار انتہائی معمولی تھی‘ اس لیے گرنے والے سبھی نوجوان کپڑے جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ 
یہ ویڈیو کلپ دیکھ کر ہمیں حکومت کی الجھن یاد آگئی۔ عمران خان کو جب سے اقتدار ملا ہے ‘وہ بار بار بریک لگانے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی بس ذرا سی چلتی ہے کہ کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل سامنے آجاتی ہے اور بس کا سارا ٹیمپو توڑ دیتی ہے۔ اس کا کریڈٹ اپوزیشن کو تو دیا ہی نہیں جاسکتا۔ اپوزیشن کا کردار اب صرف بڑھکیں مارنے اور نعرے بلند کرنے تک محدود ہے۔ خیر سے اتحادی ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو پورے پڑ رہے ہیں! 
خیال تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان یا کوئی اور تو پریشان کرے گا‘لیکن چودھری برادران حکومت کو پریشان کرنے سے گریز کریں گے۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ اب‘ چودھری برادران بھی صورتِ حال کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘وہ سب حاصل کرتے جارہے ہیں ‘جو دل میں تھا‘ زبان تک نہ آیا تھا۔ حکومت کے اپنے اتحادی حکومت کی بس کو ڈھنگ سے چلنے نہیں دے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان تاحال کوئی ایسا کام نہیں کر پائے ہیں‘ جسے وہ بعد میں خاصے فخر کے ساتھ اپنے کھاتے میں رکھ سکیں۔ 
مخالفین کو یہ بات کھل کر کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ وزیر اعظم دعوے تو بہت کرتے تھے‘ مگر کر کچھ نہیں پائے۔ ڈیڑھ سال ہوچکا ہے‘ مگر اب تک حکومت کی طرف سے کوئی بڑا کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ ہاں‘ ''کارنامے‘‘ کئی ہیں۔ یاروں نے افسانوی شہرت کے حامل کھلاڑی کو کسی اور ہی کھیل میں الجھادیا ہے‘ تاہم عمران خان کی نیک نیتی پر خواہ مخواہ شک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیاسی اُمور میں اُن کی مہارت پر البتہ سوالیہ نشان ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ سیاسی معاملات کی پیچیدگی کو کماحقہ سمجھنا وزیر اعظم عمران خان کے لیے اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ 
حکومت کو ناکام بنانے پر تُلے ہوئے لوگوں نے مہنگائی کے جن کو بوتل سے باہر نکال کر ناچنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بعض معاشی فیصلوں نے پہلے ہی پورے ملک میں افراتفری کی کیفیت پیدا کر رکھی تھی‘ روز افزوں مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ بعض معاملات میں تو وزیر اعظم عمران خان کیلئے کیفیت یہ رہی ہے کہ ع
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے 
حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے حوالے سے کون کیا کردار ادا کر رہا ہے یہ بات اب تک واضح نہیں۔ سیاسی اور حکومتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے جُغادری قسم کے ماہرین ہی جب معاملات کو پوری طرح سمجھ نہیں پارہے تو عمران خان کی سمجھ میں کیا آجانا ہے! کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا دردِ سر غیروں ‘یعنی اپوزیشن کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اپوزیشن ہے‘ مگر بس کہنے کی حد تک ہی ہے۔ گویا ع
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے 
انڈر دی ٹیبل بہت سے معاملات طے پاچکے ہیں‘ جس کی بدولت حکومت کو غیروں سے کچھ زیادہ خطرات کا سامنا نہیں۔ ہاں‘ حکومت کی صفوں میں شامل افراد اور جماعتوں نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ وزیر اعظم بھی سوچتے تو ہوں گے ع
جو درد ملا اپنوں سے ملا‘ غیروں سے شکایت کون کرے؟ 
حق تو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اُن کے اپنوں نے بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ اُنہیں کچھ کر دکھانے کا ایک اچھا موقع ملا تھا۔ اس موقع سے کماحقہ فائدہ اٹھانے میں وہ اب تک ناکام رہے ہیں۔ سوال نیت کا نہیں‘ مہارت کا ہے۔ حکومتی امور کی انجام دہی کے لیے جس چابک دستی کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ اب تک حکومتی صفوں میں دکھائی نہیں دی۔ اپنوں میں اہلیت کی کمی کا پایا جانا کیا کم تھا کہ بیورو کریسی بھی اپنی چالیں چلنے سے گریزاں نہیں رہی۔ 
کسی نہ کسی طور اقتدار کے گلیاروں میں داخل ہوکر مزے لوٹنے کی ذہنیت رکھنے والے کل بھی مزے میں تھے اور آج بھی مزے میں ہیں۔ وزیر اعظم کے قیمتی وقت کا غالب حصہ اندرونی الجھنوں کو دور کرنے ہی پر صرف‘ بلکہ ضائع ہو رہا ہے۔وزیر اعظم عمران خان سے حکومت کی بس نہیں چل پارہی‘ مگر خیر‘ اُن کی خوش بختی کہ اپوزیشن کا بس نہیں چل پارہا۔ ؎ 
سیاست کی سڑک کے پیچ و خم بھی کیا غضب کے ہیں 
کسی کی بس نہیں چلتی‘ کسی کا بس نہیں چلتا!
اب یہ بات ذرا واضح طور پر محسوس کی جانے لگی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے ہر بڑی پیچیدگی اپنی ہی صفوں سے ابھر رہی ہے۔ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے نام پر ہر حال میں حکومت کے خلاف جاکر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے والوں کے جو بھی عزائم ہیں وہ بہت حد تک غیر پوشیدہ ہیں مگر خیر‘ حالات کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ حکومت کے بیرونی مخالفین کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں مل پارہا۔ یہ کسر ''اپنوں‘‘ نے اس انداز سے پوری کی ہے کہ شدید پریشانی کے عالم میں بھی داد دینا تو بنتا ہے! گویا ؎ 
حشر شہرت نے وہ کیا برپا / مٹ گیا دل سے خوفِ رُسوائی 
شعبے تو اور بھی ہیں جو رُلے ہوئے ہیں ‘مگر حق یہ ہے کہ معیشت کا حال سب سے بُرا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم کے بیشتر ارکان اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ کینسر ہسپتال کی تعمیر کے معاملے میں تو یہ ہوا تھا کہ ع
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا 
ایسا تب ہوتا ہے‘ جب لوگ جان و دل سے کسی کے ہو رہیں۔ جب بات گھوم پھر کر ذاتی مفادات کی دہلیز تک آ جاتی ہو تو کسی بھی سطح پر بہتری کی کیا امید رکھیں؟ اور کیا کہے کہ یہاں پر تو معاملہ یہ ہے کہ ع
''سب دغا دیتے گئے اور کارواں چَھٹتا گیا‘‘ 
بہر کیف‘ ایسا بھی نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ میں اب کچھ بھی نہیں رہا۔ صرف اتنا ذہن نشین رہے کہ اُنہیں چند ایک معاملات پر زیادہ توجہ دینا ہے۔ اولین ترجیح عوام کو فوری ریلیف دینا ہے‘ اگر وہ اس ایک مقصد پر پوری توجہ دیں تو معاملات کو درست کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔ خرابیاں تو ہر شعبے میں ہیں اور دو چار سال میں دور بھی نہیں ہوسکتیں ‘مگر یہ حقیقت بھی تو اپنی جگہ ہے کہ یہ ساری خرابیاں وزیر اعظم یا ان کی پارٹی نے تنہا پیدا نہیں کیں۔ ایسے میں سارا ڈِس کریڈٹ بھی کسی ایک شخصیت کو نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ حکومت کی بس خاصی کم رفتار ہی سے سہی‘ چلتی رہنی چاہیے۔ لوگ کسی نہ کسی سطح فوری نتیجہ‘ یعنی ریلیف چاہتے ہیں۔ کوئی وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے یہ بات سُننا گوارا نہیں کرے گا کہ بس نہیں چل رہا! وہ جس منصب پر فائز ہیں اُس کے تحت‘ اگر بہت سے معاملات میں بس نہ چل رہا ہو‘ تب بھی ایسا کچھ نہ کچھ تو کیا ہی جاسکتا ہے ‘جو یاد رہ جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں