ہماری مجموعی ذہنیت ''ڈھیر پسندی‘‘ کی ہے۔ معاملہ اچھا ہو یا بُرا‘ ہمیں ڈھیر اچھے لگتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی دنیا میں ہے وہ ہمیں بہت بڑی مقدار میں یا غیر معمولی تناسب سے میسر رہے۔ آپ نے شادی کی تقریبات میں دیکھا ہوگا کہ لوگ کھانا کھلنے پر پلیٹ مختلف اشیاسے بھر لیتے ہیں۔ بریانی کی ڈش سے بوٹیاں چھانٹ چھانٹ کر پلیٹ بھری جاتی ہے۔ اور پھر پلیٹ میں بھری ہوئی بریانی نصف کی حد تک بھی کھائی نہیں جاتی!
ریاضؔ خیر آبادی نے کہا ہے ؎
جامِ مے توبہ شکن‘ توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
من حیث القوم ہماری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ نفسی ساخت ایسی ہوگئی ہے کہ ہم چاہے مستفید ہو پائیں یا نہ ہو پائیں‘ ہمارے پاس بہت کچھ ہونا چاہیے۔ ہر سال عید الفطر پر ملک بھر میں اربوں روپے کی خریداری ہوتی ہے۔ لوگ ملبوسات پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ خواتین اس معاملے میں مردوں پر یوں بازی لے جاتی ہیں کہ وہ بے چارے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ رشید آباد (تحصیل لیاقت پور‘ ضلع رحیم یار خان) میں ہمارے ایک معزز قاری عامر خان عباسی رہتے ہیں۔ فیصل آباد والے عامر گجر کی طرح عامر عباسی بھی کالم پڑھ کر رائے سے نوازتے رہتے ہیں۔ کنزیومر اِزم یعنی اندھا دُھند خرچ کے رجحان سے متعلق ہمارا کالم پڑھ کر اُنہوں نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ''ڈھیر پسندی‘‘ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ عامر عباسی کا کہنا ہے کہ بیگم نے گھر میں ایسے ملبوسات کا ڈھیر لگا رکھا ہے جو کبھی بروئے کار نہیں لائے گئے یعنی پہننے تک نوبت پہنچی ہی نہیں! عامر عباسی کہتے ہی کہ اُنہوں نے بیگم سے کہا ہے کہ یہ ملبوسات پہنا کرو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قبر میں محوِ استراحت ہو اور یہ ملبوسات کوئی اور پہنتی پھرے! عامر عباسی کی سادگی (یا شاید چالاکی) ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے قصہ یہیں تک سنایا ہے۔ یہ بتانے کی زحمت انہوں نے گوارا نہیں کی کہ قبر والی بات پر بیگم صاحبہ کا ردعمل کیا تھا۔ اس حوالے سے مکمل خاموشی بتا رہی ہے کہ کیا پتا کوئی بات ہوئی ہو مگر عامر عباسی ''حقائق‘‘ چھپارہے ہوں!
عامر عباسی نے ملبوسات کے حوالے سے اپنی اہلیہ سے جو بات کہی وہ ہمارے لیے بھی بہت پریشان کن ہے۔ نہیں نہیں‘ آپ غلط اندازہ نہ لگائیں۔ ہمارے گھر میں بھی زنانہ ملبوسات ہیں مگر اتنے نہیں کہ ہم ع
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
جیسا کوئی دعویٰ کرسکیں! جب بھی ہمارا کوئی قاری اپنے اہلِ خانہ سے کوئی ایسی ویسی بات کرتا ہے تو ہم اس لیے سہم جاتے ہیں کہ اِس کا الزام بھی ہمارے ہی سر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیں پتا ہے کس کے کالم پڑھتے رہنے سے تمہارے دماغ میں خنّاس سماگیا ہے! یوں گھریلو مناقشوں کے دوران ہماری تحریروں پر اکسانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ہم کیا اور ہماری بساط کیا؟ ہم کیا کسی کو اکسائیں گے۔ جو حال پوری قوم کا ہے وہی ہمارا بھی ہے اور ہمارے پیارے قارئین کا بھی ہے۔ پیارے ہم اِس لیے کہہ رہے ہیں کہ ملک بھر میں چند ہی افراد تو ہیں جو ہمیں توجہ سے پڑھتے ہیں۔ اب اگر اُن کا بھی احترام نہ کیا تو اُنہیں رائے بدلنے سے روکنا محال ہو جائے گا!
قوم ایک عجیب ہی قسم کی بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے۔ بہت کچھ پانے کی تمنا ہے کہ پروان چڑھتی چلی جارہی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ چھوٹی سی زندگی میں ہر چیز کا مزا لیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کا گھر نئی نئی چیزوں سے بھر جائے۔ ایک دور تھا کہ یہ ذہنیت خواتین تک محدود تھی۔ اور اُن کا معاملہ بھی ملبوسات اور گہنوں تک محدود رہتا تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ ہر شخص پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتا ہے۔ گھر میں زمانے بھر کی اشیائے صرف جمع کرنے کا رجحان خطرناک حد تک پنپ چکا ہے۔ اور اِس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹرین کسی سٹیشن پر رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ حرص و ہوس کا دریا چڑھتا ہی آرہا ہے۔
کسی جواز کے بغیر کسی بھی چیز کا حصول کچھ مفہوم نہیں رکھتا۔ اشیا و خدمات اس لیے ہوتی ہیں کہ اُن سے مستفید ہوتے ہوئے زندگی کو آسان بنایا جائے‘ اُس کا معیار بلند کیا جائے۔ گھر میں اشیا کا ڈھیر لگاتے رہنے سے زندگی پنپتی نہیں بلکہ الجھتی چلی جاتی ہے۔ کسی ٹھوس جواز یعنی ضرورت کے بغیر کسی بھی چیز کا حصول ہمارے بجٹ پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمیں جن اشیا و خدمات کی ضرورت ہو اُنہی پر زیادہ خرچ کرنے میں دانش مندی ہے۔ غیر ضروری اشیا و خدمات کا حصول ہماری مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
ڈھیر پسندی کا تعلق بنیادی طور پر ہماری نفسی ساخت میں پیدا ہونے والی کجی سے ہے۔ متعدد معاملات میں ہم الجھ کر رہ گئے ہیں۔ جو کچھ سوچنا چاہیے اُس سے ہٹ کر بہت کچھ سوچتے رہتے ہیں اور اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس طور سوچتے رہنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا۔ قوم بھی کیا کرے؟ جو عادتیں عشروں میں پختہ ہوئی ہیں وہ راتوں رات کیسے بدل سکتی ہیں؟ قوموں کا مزاج اس طرح تھوڑی بدلتا ہے۔ اس کے لیے عشروں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ کورونا وائرس نے ہم میں پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں کو ایک بار پھر اس قدر نمایاں کردیا ہے کہ اپنے آپ سے شرم سی محسوس ہونے لگی ہے۔ شدید معاشی مشکلات سے دوچار افراد ایک دوسرے کو لُوٹنے‘ نوچنے سے اب بھی باز نہیں آرہے۔ کورونا کے ہاتھوں نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن نے محنت کشوں اور بالخصوص یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والوں کے لیے شدید نوعیت کی مشکلات پیدا کی ہیں‘ مگر یہ تلخ حقیقت بھی تو اپنی جگہ ہے کہ اتنی بُری صورتِ حال میں بھی یہ طبقہ کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ سڑک پر محنت کش کدال‘ پھاؤڑا وغیرہ لیے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن سے کہیے کہ کچھ کام کروگے تو جواب ملتا ہے کام کو چھوڑیں‘ کچھ راشن دلوادیں! لاک ڈاؤن کے نافذ ہونے کے بعد ابتدائی پندرہ دنوں میں تو یہ حال رہا کہ امداد دینے والے اندھا دُھند امداد بانٹتے رہے اور لوگ جی بھر کے راشن بٹورتے رہے۔ اتنا ظرف کم ہی لوگوں میں پایا گیا کہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد کچھ لینے سے انکار کریں! حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ قوم یہ سمجھ رہی ہے کہ کچھ سیکھنے اور سُدھرنے کا وقت اب بھی نہیں آیا! عید الفطر آرہی ہے۔ بازاروں کی رونقیں فی الحال تو ماند پڑی ہوئی ہیں مگر امکان ہے کہ بہت جلد بازار کھلیں گے اور لوگ بڑے پیمانے پر خریداری کریں گے۔ عامر عباسی اور اُن جیسے دوسرے بہت سے لوگ چاہے کچھ بھی کرلیں‘ گھر میں غیر ضروری اشیا کا ڈھیر لگتا رہے گا۔ عید الفطر پر تو ویسے بھی گھروں میں خواتین اور بچوں کے ملبوسات کے ڈھیر لگ ہی جاتے ہیں۔ دنیا کے لیے اس میں بہت طاقت ہوگی اور یہ کوئی بھی سِتم ڈھا سکتا ہوگا مگر ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس میں اتنا دم نہیں کہ ہماری پختہ عادتیں بدل ڈالے۔ پرنالے جہاں بہتے رہے ہیں وہیں بہتے رہیں گے۔ کچھ سیکھنے اور سُدھرنے کے لیے کسی اور‘ بڑی آزمائش کا (ہمارے منہ میں خاک) انتظار کیجیے۔