کوئی کچھ بھی کہے‘ کتنے ہی فسانے تراشے‘ کتنی ہی سازشوں کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کرے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا ایک حقیقت ہے۔ اس وبا کو عالمگیر حقیقت بنانے میں کس کا کیا کردار ہے؟ اس نکتے پر بحث ہوتی رہے گی۔ کورونا کی وبا نے کسے کتنا فائدہ پہنچایا ہے ؟یہ امر بھی بعد میں دیکھا جائے گا۔ سرِ دست سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے‘ اُس سے کوئی سبق سیکھا جارہا ہے یا نہیں؟دنیا بھر میں معیشتوں کا پہیہ جام ہے۔ چند ایک ممالک نے اپنی سہولت کیلئے اندرونی سطح پر معاشی سرگرمیاں بحال کی ہیں ‘تاکہ لوگوں کو بے روزگاری اور افلاس سے بچایا جاسکے۔ ترقی یافتہ دنیا اب تک اپنے فاضل زر کی مدد سے (یا پھر اضافی زر جاری کرکے) جی رہی ہے‘ لوگوں کو گھروں میں بند رکھ کر گزارے کی سطح کا الاؤنس دیا جارہا ہے۔ وہ تو جیسے تیسے جی لیں گے‘ ہمارا کیا ہوگا؟ پاکستان کب اس پوزیشن میں تھا کہ یوں سب کچھ بند کرکے چَین سے جی سکے؟ ہم اتنے مضبوط کہاں رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کی حالت میں بھی پورے سکون سے وقت گزار سکیں؟ اور تو سارے بازار بند ہیں‘ الزام تراشی کا بازار البتہ گرم ہے۔ امریکا اور چین نے اب تک یہ حقیقت تسلیم نہیں کی کہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے انہیں مل کر چلنا ہے‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے‘ اختلافات پسِ پشت ڈال کر معاملات کو ڈھنگ سے نمٹانے پر متوجہ ہونا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی کور ٹیم پر چین کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کا الزام ہے۔ امریکا نے عندیہ دیا ہے کہ کئی عالمی اداروں کی طرح وہ عالمی ادارۂ صحت کو بھی خیرباد کہہ دے گا۔دوسری طرف چین ہے جو‘ اب تک اس موقف پر قائم ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اُس نے نہیں پھیلائی ‘بلکہ اُسے تو خود ہدف بنایا گیا ہے۔ ایک حقیقت ایسی ہے ‘جس سے کسی بھی طور انکار ممکن نہیں ۔ یہ کہ کورونا کی وبا سے نقصان تو سبھی کو پہنچا ہے۔ امریکا اور یورپ اگر یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اس وبا کے اثرات سے محفوظ رہیں گے اور مالیاتی خسارہ کسی نہ کسی طور برداشت کرلیں گے تو یہ اُن کی خوش فہمی تھی۔
کسے خبر کہ ''بگ گیم‘‘ میں کہیں کچھ غلط ہوگیا ہو‘ شطرنج کی بساط کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں نے کوئی ایک چال غلط چل دی ہو۔ بہر کیف‘ جو کچھ بھی ہوا ہے ‘اُس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑا ہے۔ امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے محروم کردینے والے حالات سے دوچار ہے‘ مگر وہ زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے پورے کھیل کو بگاڑنے پر تُلا ہوا ہے۔ ''کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا‘‘ والی کیفیت پیدا کرکے امریکا نے پہلے سے خراب چل رہے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
اب تک یہ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ عالمگیر لاک ڈاؤن اور ایس او پیز کے نام پر کی جانے والی اتنی بڑی مشق سے کیا مقصود ہے۔ بڑی طاقتیں کیا چاہتی ہیں؟ کیا ہجوم کی نفسیات کا گلا گھونٹنا مطلوب ہے؟ کیا عالمگیر سطح پر طرزِ زندگی میں غیر فطری عنصر داخل کرکے اربوں انسانوں کو شدید نفسی الجھنوں سے دوچار کرنا ہے؟ دنیا بھر میں لوگوں کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھنے کی جبری کوشش کے نتیجے میں شدید نوعیت کی معاشی اور معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں؟
عالمی اشرافیہ نے ایک فیصلہ کیا اور پھر دنیا بھر میں اپنے زیر اثر ممالک کی اشرافیہ تک یہ فیصلہ منتقل کیا۔ اب عمل کرایا جارہا ہے۔ معاملات رفتہ رفتہ کُھلتے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس اپنی جگہ ایک حقیقت سہی ‘مگر اُس کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے‘ وہ بھی تو حقیقت ہے۔ پاکستان جیسے بیسیوں ممالک کیلئے لاک ڈاؤن تازیانہ ثابت ہوا ہے۔ سب کچھ مزید بگڑ گیا ہے۔ ہم تو ایک ہفتے کا حقیقی لاک ڈاؤن بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے میں دو تین ماہ تک پورے معاشرے کو ہر اعتبار سے روک دینا؟ اسے تو قیامتِ صغریٰ سمجھیے۔
پاکستان جیسے ممالک کا معاملہ تو ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق ہے۔ یہ تو زمیندار کی بیگاری ہے کہ مرضی نا مرضی‘ کرنی ہی پڑے۔ علامہ اقبالؔ بھی کہہ گئے ہیں ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
عالمگیر حکومت کے قیام کی خاطر جو ''بگ گیم‘‘ چل رہا ہے‘ اُس کے تحت طے کیے جانے والے ایس او پی پر پاکستان اور اسی قبیل کے دیگر ممالک کو بلا چُوں چَرا عمل کرنا ہے۔ امریکا چونکہ ہر عالمی نظام کی جڑ میں بیٹھا ہوا ہے‘ اس لیے صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام بھی اُس کی مرضی کے تحت چل رہا ہے‘ عالمی تجارت بھی اُس کی خواہشات اور مفادات کے تابع ہے‘ سیاسی و سفارتی معاملات میں بھی وہ اپنی بات کھل کر منوا رہا ہے‘ عالمی سطح پر صحت ِ عامہ کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات میں بھی اُسی کی مرضی چل رہی ہے۔ یورپ نے امریکی بالا دستی ممکن بنانے اور برقرار رکھنے میں ہر سطح پر بڑھ چڑھ کر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کورونا کی وبا کی آڑ میں اب عندیہ دیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس بھی اُسی طرح چلتا رہے گا‘ جس طور سرطان یا ایڈز چلتا رہتا ہے‘ یعنی معاملے کو طُول دیا جارہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے نام پر کمزور ممالک کی معیشتوں کو مکمل طور پر عضوِ معطل جیسی حالت سے دوچار کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ دو ماہ کے قدرے نرم لاک ڈاؤن کے دوران کتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں‘ اگر لاک ڈاؤن غیر معمولی سختی کے ساتھ نافذ کیا جائے تو؟ جینا حرام ہو جائے گا‘ اور کیا۔ بھارت میں یہ تجربہ کیا گیا ہے۔ وہاں پولیس نے لاک ڈاؤن پر عمل کرانے کے لیے عوام پر وحشیانہ تشدد سے بھی گریز نہیں کیا۔ کروڑوں افراد اپنے گھروں سے بہت دور مختلف علاقوں میں پھنس گئے۔ بروقت طبی امداد نہ ملنے سے ہزاروں افراد جان سے بھی گئے۔
الغرض یہ وقت بہت کچھ سیکھنے کا ہے۔ سوال صرف کرپشن سے بچنے کا نہیں ہے‘ بلکہ ایسے اقدامات کی راہ ہموار کرنے کا بھی ہے‘ جن سے عوام کی مشکلات دور ہوں‘ انہیں زیادہ سے زیادہ سہولت ملے۔ ذہن نشین رہے کہ سیکھنے سے گریز معاشی اور معاشرتی سطح پر پر شکست و ریخت کا عمل تیز کردے گا۔