بھائی مقصود الحسن ہمارے کالج کے زمانے کے دوست ہیں۔ سوشل میڈیا پر اُس زمانے کے دوستوں کا گروپ موجود ہے‘ جس میں مقصود الحسن خاصے فعال ہیں۔ ایک زمانے سے وہ ہم سب دوستوں کو چھوڑ چھاڑ کر امریکا میں مقیم ہیں اور واپس آنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہم ہاتھ جوڑ جوڑ کر تھک گئے کہ بھائی‘ بس ایک بار مکھڑا تو دکھا جاؤ۔ جواب ملتا ہے مکھڑا دیکھنے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت ہے تو سہی۔ لائیو ویڈیو چیٹ ہو جاتی ہے تو پھر اتنا لمبا سفر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس جواب پر ہم سوچتے ہیں‘ ہمارے دوست نے صرف امریکی سرزمین ہی کو نہیں اپنایا‘ بلکہ وہاں کی عمومی سوچ کو بھی رج کے گلے لگالیا ہے! سچ پوچھئے تو انہوں نے امریکی سوچ کو جھپّی پائی ہوئی اے!
خیر‘ امریکا میں بیٹھے ہوئے مقصود الحسن صرف ہمارے لَتّے ہی نہیں لیتے‘ کبھی کبھی کچھ شگفتہ باتیں بھی عنایت کرتے ہیں ‘جو ہمیں سوچنے کی تحریک دیتی ہیں۔ دو دن قبل انہوں نے ہمیں چند شگفتہ جملوں پر مشتمل ٹیکسٹ میسیج بھیجا۔ ایک خوبصورت جملہ یہ تھا کہ بھرپور کامیابی کیلئے ایک ہاتھ میں مکھن رکھیے اور دوسرے ہاتھ میں چُونا اور ہاں‘ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کہاں مکھن لگانا ہے اور کہاں چُونا!
یہ تو زندگی بھر کا حساب کتاب ہوا۔ قدم قدم پر اس بات کی اہمیت ہے کہ ہمیں کب کیا کرنا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مکھن نہ کھلانے والے مار کھاتے ہیں اور چُونا نہ لگانے والوں کا کھانا ''لگ‘‘ جاتا ہے! مقصود الحسن خاصے ستم ظریف ہیں۔ ہمیں ایسی باتیں بھیجتے ہیں‘ جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ ہم نے ان کے ساتھ کالج میں چار سال گزارے۔ اس دوران ہم نے انہیں مکھن لگاتے تو نہیں دیکھا‘ ہاں چُونا لگانے کے فن سے وہ بہت حد تک واقف تھے۔ مقصود الحسن صاحب کا کمال یہ تھا کہ مکھن کو زحمت دیئے بغیر چُونا لگاتے تھے اور جسے چُونا لگاتے تھے‘ وہ اُف کے بجائے واہ واہ کرتا پایا جاتا تھا!
اور ایسا بھلا کیوں نہ ہوتا؟ مقصود الحسن خالص قسم کے سیاسی کارکن تھے۔ غیر معمولی جی داری سے متصف ہونے کی بنیاد پر بے نظیر بھٹو کے کور سرکل میں داخل ہو جانے والا نجیب احمد بھی ہمارا کلاس فیلو تھا۔ مقصود الحسن دن رات نجیب کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ اس کے منطقی نتیجے کے طور پر مقصود الحسن میں بھی اچھی خاصی جی داری آگئی تھی۔ وہ ایسے کہ کبھی کبھی کالج کی کینٹین میں دوسروں کا شکار بھی ''تھمبو‘‘ کرنے میں وہ ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتے تھے!
بھائی مقصود کی مہربانی کہ اُن کی وساطت سے الیاس‘ فاروق اور قدرت اللہ سے بھی رابطہ ہو پایا ہے۔ الیاس ذرا مختلف تھے‘ وہ ایسے کہ تھے تو ہاکی پلیئر ‘مگر ہاکی گھماکر شکار کرنے کے بجائے مدھر آواز کا سہارا لیتے تھے۔ گانا آتا تھا۔ مہدی حسن کا کوئی گانا گنگناکر پہلے بندہ پکّا کرتے تھے‘ پھر متوجہ پاکر غزل یا گیت سُنانے کے عمل میں اُسے دھکیلتے ہوئے کینٹین کی طرف لے جاتے تھے! پھر یوں ہوتا تھا کہ میٹھا میٹھا گانا سُننے والے کو شرم کے مارے جیب تھوڑی سی ڈھیلی کرنی ہی پڑتی تھی! فاروق‘ الیاس اور قدرت اللہ سے جب ایک عرصے کے بعد بات ہوئی تو ان کی زبان پر ایک ہی بات تھی ... ''ہمیں یقین تھا کہ تم نے اپنے مزاج کے مطابق پڑھنے لکھنے کی فیلڈ ہی اپنائی ہوگی‘ کیونکہ تم شروع ہی سے کتاب کے کیڑے تھے۔‘‘ دیکھا آپ نے؟ تینوں نے پرانی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنی ہوشیاری سے ہمیں ''کیڑا‘‘ قرار دے دیا! اور یہ بھی ثابت کردیا کہ انہیں اور کچھ یاد ہو نہ ہو‘ مقصود الحسن کا ہنر ضرور یاد ہے۔ اسی کو تو کہتے ہیں چُونا لگانا۔ سامنے والے بندے کو کیڑے کی سطح پر لے آؤ اور وہ بُرا بھی نہ مانے! ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ کبھی بالمشافہ ملاقات میں ‘اگر ہم نے تینوں سے شکایت کی کہ آپ لوگوں نے چُونا لگادیا تو وہ کالج کے زمانے کی ''معصومانہ منافقت‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے کہہ دیں گے ارے یار! تمہاری طرف یہ چُونا دکھائی دیا ہوگا‘ ہماری طرف تو یہ مکھن ہی تھا!
فاروق کا تعلق ایسے متمول گھرانے سے تھا‘جس کی صدر جیسے کامیاب تجارتی علاقے میں کاسمیٹکس کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ دکانیں تو ''لیپا پوتی‘‘ کے سامان کی تھیں‘ مگر فاروق کا دل لیپا پوتی سے بالکل پاک تھا۔ اُن کی جیب ہمارے لیے کسی حد تک ''قومی خزانے‘‘ کا درجہ رکھتی تھی! فاروق کو طالبات والے سیکشن کی خصوصی توجہ حاصل کرنے کی فکر زیادہ لاحق رہا کرتی تھی اور اس حوالے سے وہ کالج کی سراسر غیر نصابی سرگرمیوں میں خاصے مشغول رہا کرتے تھے۔ کالج کے زمانے میں ہمارے لیے پڑھائی اُتنی کٹھن نہیں تھی جتنا فاروق کو گھسیٹ کر مردانے میں لانا اور مردانے میں لاتے ہی ہم انہیں ''خالص مردانے‘‘ یعنی کینٹین میں لے آتے تھے۔ کینٹین میں قدم رکھتے ہی وہ ہمارے ''شکار‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتے تھے‘ یعنی کینٹین کی نَسوں میں اُن کی جیب کا انجیکشن لگوادیا جاتا تھا! ہمیں بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ ہم (یعنی صرف ہم نہیں ‘بلکہ چند دوسرے ''چونے باز‘‘ بھی) فاروق کو شکار کرنے کی کوشش خواہ مخواہ کیا کرتے تھے۔
کالج کی رومانی دنیا سے نکل کر جب ہم نے حقیقی‘ یعنی عملی دنیا میں قدم رکھا‘ تب اندازہ ہوا کہ زندگی مکھن اور چُونے کے کھیل کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے دوستوں میں شاید کوئی بھی نہیں تھا‘ جو اس کھیل سے پوری طرح واقف ہو۔ جو کھاتے پیتے گھرانوں کے تھے انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور جو غریب گھرانوں کے تھے اُن کے بزرگوں نے بھی‘ کسی نہ کسی طور‘ اتنی تربیت تو کی ہی تھی کہ نہ تو کسی کی خوشامد کی جائے اور نہ کسی کو دھوکا دیا جائے۔ جو لوگ یہ کھیل جانتے اور کھیلتے ہیں اُنہیں بھی ہم نے دیکھا ہے اور اپنے کالج کے زمانے کے حلقۂ احباب کو بھی دیکھا ہے‘ جو اس کھیل سے واقف تو تھا‘ مگر کھیلتا نہ تھا۔ سب نے جیسے تیسے محنت کی‘ خوشامد سے پرہیز کرتے رہے اور چُونا لگانے کا آپشن بھی نہ چُنا۔
حساب کتاب اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ آج کم و بیش سب ہی خوش ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والا اس سے اچھا مکھن کیا ہوگا کہ ہم سب اب تک گزرے ہوئے زمانے کو بھولے ہیں ‘نہ اُس زمانے کے دوستوں کو۔ درد و احساس سے عاری اور مکاری سے آلودہ اس زمانے میں کسی کو دیرینہ رفقاء کی محبت مل جائے تو ... اور جینے کو کیا چاہیے... !