زندگی فیصلوں سے عبارت ہے۔ ہم قدم قدم پر کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں اور اُس کے اچھا یا بُرا نتیجہ بھگتتے ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کو زندگی بھر فیصلوں کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یومیہ بنیاد پر کیے جانے والے فیصلوں کی بھی کچھ کم اہمیت نہیں ہوتی مگر خیر‘ بڑے فیصلے وہ ہوتے ہیں جو زندگی کے کسی بہت بڑے معاملے کے لیے ہوں۔ ایسے فیصلے غیر معمولی توجہ اور احتیاط چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چند اچھے فیصلوں سے مستحکم ہونے والی زندگی محض ایک غلط فیصلے سے مکمل ناکامی اور بربادی کے گڑھے میں جا گرتی ہے۔
غلط فیصلے ویسے تو خیر ہر شعبے میں غیر معمولی نتائج کے حامل ہوتے ہیں تاہم پروفیشنل معاملات میں کیے جانے والے فیصلے دور رس اثرات رکھتے ہیں۔ محمد رفیع بالی وڈ یعنی ممبئی کی فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے گلوکار تھے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ صرف معیار ہی نہیں‘ گانوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی پوری دنیا میں اُن سے بڑا گلوکار اب تک پیدا نہیں ہوا۔ محمد رفیع کو پوری فلم انڈسٹری اور اُن کے چاہنے والے آج بھی ''رفیع صاحب‘‘ کہتے ہیں۔ انہوں نے شہرت کی بلندی دیکھی اور بلند معیارِ زندگی بھی ممکن بناسکے۔ رنگوں اور روشنیوں کی نگری میں بھی اُنہوں نے اپنے دل کا دامن کسی بُری عادت سے آلودہ نہ کیا۔ اُن کا وجود عجز و انکسار سے عبارت تھا۔ وہ کسی کی بھی حیثیت دیکھے بغیر یکساں احترام سے ملتے تھے۔ دولت کے پیچھے بھاگنے کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ اُن کی پوری زندگی توازن کے ساتھ گزری۔ نہ کسی چھوٹی موٹی بات پر ناراض ہونا‘ نہ مشعل ہوکر کسی کو لتاڑنا۔ کسی سے حسد بھی نہیں اور اپنی کامیابی پر گھمنڈ بھی نہیں۔ زیادہ بات بھی زیادہ نہیں کرتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ کسی بھی فلم کے گیت گاتے وقت معاوضے کی بات نہیں کرتے تھے۔ پروڈیوسر جو کچھ بھی دیتے تھے وہ مسکراتے ہوئے رکھ لیا کرتے تھے۔
رفیع صاحب کی یاد میں منعقدہ ایک پروگرام میں اداکار جیتیندر نے بتایا کہ انہوں نے 1980ء میں اپنے پروڈکشن ہاؤس کے تحت فلم ''دیدارِ یار‘‘ بنائی تھی۔ اس فلم میں انہوں نے رفیع صاحب سے بھی گانا گوایا تھا۔ تب رفیع صاحب کو ایک گانے کے پانچ ہزار روپے ملا کرتے تھے۔ اِسی فلم میں کشور کمار نے بھی گیت گائے۔ کشور کمار اُس وقت کیریئر کی بلندی پر تھے۔ وہ ایک گانے کے پندرہ سولہ ہزار روپے لیا کرتے تھے۔ جیتیندر کے پروڈکشن منیجر نے جب گانوں کے معاوضے ادا کرنے کی بات کی تو استفسار کیا کہ رفیع صاحب کو کیا دیا جائے؟ جیتیندر نے کہا :جو کشور کمار کو دیا جارہا ہے وہی معاوضہ (فی گانا) رفیع صاحب کو بھی دیا جائے۔ ایک گانے کے عوض جب رفیع صاحب کو 16 ہزار روپے بھجوائے گئے تو اگلے دن اُن کے منیجر (اُن کے بہنوئی ظہیر بھائی) 11 ہزار روپے جیتیندر کے سٹاف کو واپس دے گئے۔ رفیع صاحب نے پیغام بھجوایا کہ ایک گانے کے پانچ ہزار روپے طے ہوئے تھے!
یہ تھے رفیع صاحب۔ اُن کے پرستار کروڑوں ہیں۔ ہزاروں ابھرتے ہوئے فنکاروں نے اُن کے گانوں سے استفادہ کرکے گھر کا چولھا جلتا رکھا ہے۔ اِن میں سے چند ایک کو بلند ہونے کا موقع بھی ملا۔ محمد عزیز اور شبیر کمار کو بالی وڈ کی فلموں کے بڑے گلوکار کی حیثیت سے دنیا جانتی ہے۔ اِن دونوں سے پہلے انور نے خود کو منوایا تھا۔ 1970 کی دہائی کے اواخر میں انور کو بڑا بریک تھرو ''جنتا حوالدار‘‘ سے ملا جس کے ہیرو راجیش کھنہ تھے۔ اس فلم کے لیے گائے ہوئے اُن کے دو گیت ''ہم سے کا بھول ہوئی جو یہ سزا ہم کا ملی‘‘ اور ''تِری آنکھوں کی چاہت میں تو میں دنیا بھلادوںگا‘‘ ہٹ ہوئے۔ پروڈیوسرز اور موسیقار اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔ 1980ء میں رفیع صاحب کے ہوتے ہوئے پروڈیوسر ڈائریکٹر من موہن ڈیسائی نے ''نصیب‘‘ میں امیتابھ بچن کے لیے انور کی آواز لی۔ یہ گانا تھا ''زندگی امتحان لیتی ہے‘‘ جو انور نے سُمن کلیان پور اور کملیش اوتستھی کے ساتھ گایا تھا۔ پھر اُنہیں ''ودھاتا‘‘ میں سریش واڈیکر کے ساتھ دلیپ کمار کے لیے (ہاتھوں کی چند لکیروں کا) گانے کا بھی موقع ملا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ کوئی بھی محسوس کرسکتا تھا کہ انور کا کیریئر شاندار رہے گا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ بہک گئے۔ جی ہاں‘ پہلے انہوں نے گانوں کے معاوضے پر من موہن ڈیسائی کو ناراض کیا۔ بدظن ہوکر من موہن ڈیسائی نے شبیر کمار سے گوانا شروع کردیا۔اُنہی دنوں راج کپور ''پریم روگ‘‘ بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اُنہوں نے موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لعل سے بات کی۔ وہ دونوں انور سے مطمئن تھے۔ راج کپور نے طے کیا کہ فلم میں رشی کپور پر فلمائے جانے والے تمام گانے انور سے گوائے جائیں گے۔ گانوں کی ریہرسل بھی کرلی گئی۔ راج کپور کے ساتھ کام کرنا لوگوں کے لیے اعزاز ہوا کرتا تھا۔ انور نے اس نزاکت کو محسوس کیے بغیر معاوضے کی بات کر ڈالی۔ معاوضہ تو خیر دیا ہی جانا تھا مگر راج کپور کو یہ بات بُری لگی اور یوں فلم کے تمام گانے انور کے بجائے سریش واڈیکر سے گوائے گئے۔ انور کی بدنصیبی کہ ایک بڑی (اور وہ بھی راج کپور کی) فلم اُن کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اور پھر اُن کا کیریئر کبھی ٹیک آف نہ کرسکا۔ 1984ء میں انور کو آنجہانی آر ڈی برمن کی موسیقی میں فلم ''ہم ہیں لاجواب‘‘ کے لیے ایک گیت (کوئی پردیسی آیا پردیس میں) گانے کا موقع ملا۔ اس گیت نے اُن کی تھوڑی بہت مشکلات دور کیں مگر بات زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ انور نے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنی حماقتوں کا اعتراف کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے لیے صرف صلاحیت اور مہارت کا ہونا کافی نہیں‘انسان کو اور بھی بہت کچھ آنا چاہیے مثلاً اپروچ خالص پروفیشنل ہونی چاہیے‘ معاوضے کا معاملہ شائستگی سے طے کیا جانا چاہیے اور پیسوں پر اڑنا اور لڑنا نہیں چاہیے۔ شعبے کی نمایاں ترین شخصیات کے جذبات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے۔ انور نے رفیع صاحب سے گانا تو سیکھا مگر اُن کی طرح زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ سکے۔ اگر رفیع صاحب کی شخصیت کا اثر قبول کیا ہوتا تو انور کیریئر کے معاملے میں اتنے بڑے ''بھنڈ‘‘ نہ کرتے۔ رفیع صاحب نے کیریئر کے کسی بھی مرحلے میں پیسے کو اہمیت نہیں دی۔ معاوضے کے حوالے سے کوئی بھی اُن سے زیادتی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔